Loading
ملکوں اور قوموں کی زندگی میں بعض ایسے واقعات اور معجزات رونما ہوتے ہیں جو ان کی تاریخ کے انمٹ نقوش بن کر ہمیشہ کے لیے یادگار قرار پاتے ہیں۔ غلامی سے آزادی کی نعمت حاصل کرنا ہر قوم کے لیے وہ ثمر ہوتا ہے جس کے تصور اور احساس سے دل و دماغ پر ایسے خوشگوار اثرات مرتب ہوتے ہیں جو روح کی گہرائی تک اتر جاتے ہیں۔ آزادی کی قدر و قیمت وہی لوگ جانتے ہیں جنھوں نے غلامی کی زنجیروں میں زندگی کے روز و شب گزارے ہوں اور پھر کسی مرد حریت کی قیادت میں انھوں نے اپنی جان، مال اور عزت و آبرو کو قربان کرکے قید غلامی سے آزادی کے حصول تک کا جاں گسل سفر طے کیا ہو اور اپنے بچوں کے روشن و تابناک مستقبل کے خواب دیکھے ہوں۔ برصغیر کی تاریخ میں 1857 کی جنگ آزادی کے بعد انگریزوں کی غلامی کا جو آغاز ہوا اور مسلمانان ہند کے ہندوؤں اور انگریزوں کے جبر و ستم کو قریباً سو برس تک برداشت کرنے کے بعد قائد اعظم محمد علی جناح کی قیادت میں آزادی کے سفر کی تاریخ ساز جدوجہد کی اور بالآخر 14 اگست 1947 کو پاکستان حاصل کر لیا۔ قوم ہر سال 14 اگست کو جشن آزادی کو بڑی دھوم دھام سے مناتی ہے۔ سرکاری و غیر سرکاری سطح پر ملک بھر میں تقریبات کا انعقاد ہوتا ہے۔ ہمارے آج کے رہنما و قائدین آزادی کی جدوجہد اور اکابرین کی قربانیوں کی یاد تازہ کرکے نئی نسل کو نہ صرف آگاہی دیتے ہیں بلکہ تجدید عہد کرتے ہوئے پاکستان کو قائد اعظم اور مصور پاکستان علامہ اقبال کے خوابوں کی تعبیر بنانے کے بلند و بانگ دعوے کرتے ہیں۔ گزشتہ 78 سالوں سے ہم آزادی کا جشن منا رہے ہیں اور ہر سال یہ سوال موضوع بحث بن جاتا ہے کہ کیا ہم نے آزادی کے حقیقی ثمرات اور مقاصد کو حاصل کر لیا ہے؟ کیا قائد اعظم نے جس نظریے، فلسفے اور سیاسی اصولوں کے تحت جدوجہد کرکے مسلمانوں کے لیے ایک آزاد مسلم ریاست کے معجزاتی قیام کو یقینی بنایا تھا آج کے پاکستان میں قائد کے بنائے ہوئے رہنما اصولوں کے مطابق نظام حکومت چل رہا ہے؟ کیا عوام مطمئن ہیں، انھیں ان کے آئینی حقوق کا تحفظ حاصل ہے۔ کیا ہمارے ریاستی ادارے آئین کے مطابق اپنے فرائض منصبی ادا کر رہے ہیں؟ کیا ملک میں ایک عادلانہ جمہوری معاشرہ قائم ہے؟ کیا ہماری عدالتیں لوگوں کو واقعی حقیقی انصاف فراہم کر رہی ہیں، کیا پاکستان نے 78 سالوں میں سیاسی، جمہوری اور معاشی استحکام کی منزل حاصل کر لی ہے؟ کیا آج کا پاکستان قائد اعظم اور علامہ اقبال کے خوابوں کی تعبیر قرار دیا جاسکتا ہے؟اگر عوامی سطح پر ایماندارانہ سروے کیا جائے تو ایسے بہت سے سنجیدہ سوالوں کا جواب ہاں میں نہیں بلکہ نفی میں ملے گا جس میں غصہ، مایوسی اور مستقبل سے ناامیدی کی جھلک بھی نظر آئے گی۔ عوام کا ایک بڑا طبقہ جن کے آباؤ اجداد نے اپنی جان و مال، عزت و آبرو لٹا کر قائد اعظم کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے آزادی کے سفر کو کامیابی کی منزل پاکستان سے ہم کنار کیا تھا، آج آزادی کے حقیقی ثمرات اور مقاصد سے محرومی پر شکوہ طراز ہے۔ حالات کے جبر سے مایوس، بددل اور بے یقینی کی کیفیت میں ڈوبے ہوئے عوام حکمرانوں سے سوال کرنے میں پوری طرح حق بجانب ہیں کہ قائد اعظم کے پاکستان میں ان کے رہنما اصولوں کو مسمار کرکے اپنے مفادات کے تاج محل تعمیر کرنے والوں نے عوام کو کیا دیا؟وزیر اعظم میاں شہباز شریف کہتے ہیں کہ مئی 25 کی جنگ میں بھارت کو شکست دینے کے بعد ایک نئے پاکستان نے جنم لیا ہے، بے شک! بجا فرمایا! ہماری بہادر مسلح افواج نے فیلڈ مارشل جنرل عاصم منیر کی پرجوش قیادت میں اپنے سے دس گنا بڑے دشمن بھارت کو چاروں خانے چت کرکے ایسی شان دار، بے مثال اور یادگار فتح حاصل کی کہ جس کا نہ صرف دشمن بھی معترف ہے بلکہ پوری دنیا میں اس لازوال کامیابی کا ڈنکا بج رہا ہے۔ بلاشبہ حربی میدان میں پاک فوج کی ناقابل شکست کارکردگی سے جنگی حوالے سے ایک نئے پاکستان نے جنم لیا ہے۔ دشمن اب ہماری طرف میلی آنکھ سے نہیں دیکھ سکتا۔ کیوں کہ دشمن پر پاک فوج نے جو کاری ضرب لگائی ہے اور جس طرح اس کا غرور خاک میں ملایا ہے وہ ساری زندگی یاد رکھے گا۔ لیکن دوسری طرف قائد کے پرانے پاکستان میں آئین، قانون، جمہوریت، ریاست، عدل و انصاف، معیشت، تعلیم، روزگار، غربت، مہنگائی، بدحالی، پسماندگی اور عوامی سطح پر پھیلتی مایوسی سے جو مسائل جنم لے رہے ہیں ان کا تدارک کیسے اور کیوں کر ممکن ہے۔ ان پیچیدہ گمبھیر مسائل کو شکست دے کر نیا پاکستان کب جنم لے گا، آزادی کے ثمرات اور حقیقی مقاصد کب حاصل ہوں گے؟ وزیر اعظم نے یوم آزادی کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے جہاں آرمی راکٹ فورس کی تشکیل کا اعلان کیا کہ جس سے پاک فوج کی جنگی صلاحیتوں میں بجا طور پر اضافہ ہوگا وہیں انھوں نے تمام سیاسی جماعتوں، اسٹیک ہولڈرز اور سول سوسائٹی کو بھی ’’میثاق استحکام پاکستان‘‘ کا حصہ بننے کی دعوت دی کہ وقت آ چکا ہے کہ ہم سیاسی تقسیم، ذاتی مفادات اور کھوکھلے نعروں سے آگے بڑھ کر پاکستان کے لیے اجتماعی سوچ اپنائیں۔ بلاشبہ وزیر اعظم نے درست بات کی ہے کہ ہم سب کو ملک و قوم کی خاطر اجتماعی سوچ کر پروان چڑھانا چاہیے۔ انفرادی اور ذاتی مفادات کے حصول کی منفی سوچ نے ہمیں من حیث القوم آزادی کے ثمرات سے محروم اور مقاصد سے بہت دور کر دیا ہے۔
اگر آپ اس خبر کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں۔
مزید تفصیل