Loading
پاکستان میں جمہوریت اور جمہوری سماج پر ہمیشہ اہل دانش کی سطح پر مکالمہ جاری رہتا ہے ۔کیونکہ ہم جمہوری نظام اور اس نظام کو مضبوط بنانے میں ناکام رہے ہیں۔آج بھی یہ بات برملا کہی جاسکتی ہے کہ پاکستان میں جمہوریت کمزور بنیادوں پر کھڑی ہے۔یہ اعتراف بھی کرنا ہوگا کہ فرد کی آزادی ، آزادی اظہار ، ووٹ کا تقدس، آئین اور قانون کی بالادستی ہو یا میڈیا ، سول سوسائٹی اور سیاسی جماعتوں کا اپنا داخلی نظام جمہوری اصولوں پر استوار نہیں ہے۔ یقینی طور پر جمہوریت کا آگے بڑھنا ایک بتدریج عمل ہے اور یہ اپنے ارتقائی عمل کے ساتھ آگے بڑھتا ہے ۔لیکن ہمارا سماج جمہوری سوچ کے سفر میں آگے بڑھنے کے بجائے پیچھے کی طرف جارہا ہے ۔ یہاں گزشتہ چھ برس سے ہائبرڈ جمہوریت کی باتیں چل رہی ہیں۔ غیر جمہوری اور غیرسیاسی قوتیں غالب رہی ہیں۔ پروفیسر ڈاکٹر محمد سلیم شیخ کا تعلق کراچی سے ہے ۔درس وتدریس سے وابستہ ہیں اور کالم نگاری سے بھی وابستہ ہیں۔ وہ ایک علمی اور فکری آدمی ہیں اور اپنا سیاسی مقدمہ جذباتیت کے بجائے دلیل اور منطق سے پیش کرتے ہیں ۔ ان کی تحریروں میں جذباتیت کا پہلو کم اور معلومات سمیت سنجیدہ تجزیہ اور تحقیق کا پہلو نمایاں نظر آتا ہے ۔ان کی ایک حالیہ کتاب ’’ پاکستان ------جمہوری سیاست اور سماج ‘‘ مطالعہ سے گزری ہے ۔مصنف کا جمہوریت کے بارے میں تحقیق دلچسپ اور فکر انگیز ہے۔اس کتاب میں بہت ہی علمی و فکر ی انداز میں پاکستان میں جمہوریت کی مختلف نوعیت کی بڑی ناکامیوںکا جائزہ لیا گیا ہے ۔آٹھ ابواب پر مشتمل یہ کتاب جمہوریت ،نظام سیاست اور معروف اقدار کی تشکیل،برطانوی ہندوستان میں نمایندہ سیاسی اداروں کا ارتقا اور تشکیل،پاکستان میں پارلیمانی حکومتیں1947سے 1977تک کا جائزہ،پاکستان میں پارلیمانی حکومتوں کی کارکردگی ،جمہوری اقدار سے انحراف کی صورتحال اور اس کا تجزیہ،پاکستانی معاشرہ نوعیت ساخت اورجاگیرداری ، جمہوری اقدار سے انحراف کا بنیادی محرک،پاکستان کی سیاست1977-2007،پاکستان میں جمہوری سیاست کا مستقبل جیسے اہم موضوعات کا احاطہ کیا گیا ہے ۔ اگرچہ مصنف کی یہ تحقیق 2007تک ہی محدود ہے حالانکہ اس کے بعد کے عرصے میں جو کچھ پاکستان میں جمہوریت اور آئین و قانون کی حکمرانی کے نام پر سیاسی اور غیر سیاسی قوتوں نے کھیل کھیلا ہے اس نے جمہوریت کی شکل میں اور زیادہ بگاڑ پیدا کردیا ہے جو جمہوری سیاست کی سنگینی اور نئے چیلنجز کو مزید سمجھنے میں مدد ملتی ہے۔کیونکہ یہ مصنف کا پی ایچ ڈی کا مقالہ بھی ہے اور اس میںہر باب کے ساتھ کافی تفصیل کے ساتھ حوالہ جات بھی ہیں جو ان کے تحقیقی کام کو اجاگر کرتا ہے۔ مصنف کے بقول اپنی کارکردگی کے لحاظ سے پاکستان کی سیاسی اور جمہوری تاریخ اگرچہ جمہوری نظم حکمرانی کے تسلسل اور استحکام میں ناکامی سے دوچار رہی ہے۔تاہم اس کا تجزیاتی مطالعہ دلچسپ اور سبق آموز ہونے کے ساتھ ساتھ افروایشیا کے ان بیشتر ممالک کے سیاسی طور پر معاشروںکی تاریخ سے حیرت انگیز طور پر مشابہہ بھی ہے جو جنگ عظیم دوم کے بعد آزاد ہوئے ۔قیا م مملکت کے ساتھ ہی پارلیمانی نظم حکمرانی کو پاکستان میں بھی اختیار کیا گیا۔ اگست 1947سے اکتوبر1958تک حکومتیں بنتی اور بگڑتی رہیںاور یہ سلسلہ1958کے مارشل لا کے نفاذ کے بعد اختتام پزیر ہوا۔1962سے 1969تک بنیادی جمہوریتوں پر مشتمل ایک نیا نظام ایوب خان کی صدارت میں اختیار کیا گیا۔ 1969 سے دسمبر 1971تک مارشل لا اور اس کے بعددسمبر 1971سے اگست 1973تک ایک عبوری سیاسی دور بھٹو کی زیر صدارت قائم رہا۔اگست1973میں ایک نئے دستور کے نفاذ کے ساتھ ہی ایک بار پھر پارلیمانی نظم حکمرانی کو اختیار کیا گیاجس کا عملی دورانیہ چار برس سے کم پر مشتمل رہااور پھر جولائی 1977میں مارشل لا کے نفاذ نے پارلیمانی جمہوریت کی بساط ایک بار پھر الٹ دی گئی ۔ اگست1947سے جولائی 1977تک یہ یہ تیس برس پاکستان کی سیاسی تاریخ میں نظم حکمرانی کے مختلف تجربات کی آماجگاہ بنے رہے اور ان تیس برسوں میں پارلیمانی نظم حکمرانی کا دورانیہ پندرہ برس رہا،جب کہ چھ برس سے زیادہ فوجی حکمرانی اور نوبرس سے کچھ کم عرصہ صدارتی طرز پر مشتمل نیم جمہوری سیاسی دور کا رہا۔اسی طرح جولائی 1977سے 2007تک کبھی فوجی حکومتیں ،کبھی نیم پارلیمانی حکومتیںاور کبھی ملک میں پارلیمانی حکومتیںپاکستان کی سیاسی تاریخ کا حصہ بنی۔ صورتحال کا یہ تناظر پاکستان کی سیاست کے دو بنیادی پہلووں کی طرف متوجہ کرتا ہے ۔ مصنف کا یہ تجزیہ ظاہر کرتا ہے کہ جہاں اسٹیبلیشمنٹ جمہوری سیاست میں مداخلت کرتی رہی ہے، وہیں سیاست دانوں اور سیاسی جماعتوں یا ان کی قیادت کا اپنا طرز عمل بھی جمہوری سیاست کو مضبوط بنانے کے بجائے غیر جمہوری سیاست تک محدود رہا ہے۔ مصنف لکھتے ہیں کہ پاکستان کے معاشرتی ڈھانچہ میں طاقت اور مراعات کے حامل روائتی مقتدر طبقات اپنی بقا کے لیے قانون سے انحراف کو ضروری خیال کرتے ہیں ۔طاقت اور مراعات کا اظہار قانون کے اتباع میں ممکن نہیں کیونکہ جاگیر دار کی نفسیات طاقت کا اظہار چاہتی ہے اور اس کی فطری جبلت اسے قانون سے انحراف کی طرف مائل رکھتی ہے۔ یہ ہی وہ بنیاد ی مخمصہ ہے جو پاکستان میں سول سوسائٹی کی تشکیل اور استحکام کی راہ میں رکاوٹ کے طور پر موجود ہے۔پاکستان میں جمہوریت کی مضبوطی اور جمہوریت کے مستقبل کے تناظر میں بھی مصنف نے تجاویز کی صورت میں ایک پورا نقشہ کھینچا ہے۔ اصل میں ہم جمہوریت کو پاکستان کے تناظر میں جہاں لے کر چلے گئے ہیں اسے درست سمت میں لانا واقعی ایک بڑا چیلنج ہے اور اگرچہ یہ کام مشکل ضرور ہے مگر ناممکن نہیں ۔ اس کے لیے ریاست اور سیاست سے جڑے فریقین کو جمہوری سیاست کے تناظر میں اپنی درست ترجیحات کا تعین کرنا ہوگا اور پرانے خیالات اور فرسودہ سوچ کو ترک کرنا ہوگا۔
اگر آپ اس خبر کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں۔
مزید تفصیل