Loading
1979میں آسام میں خوفناک سیلاب آیا تھا۔ آبادیاں‘ درخت ‘ مال مویشی سب کچھ قدرت کے ہاتھوں بے بس ہو چکا تھے۔ اس وقت کی حکومت‘ اپنے تئیں ‘ عام لوگوں کو پانی کے عذاب سے محفوظ رکھنے کے لیے بھرپور کوشش کر رہی تھی۔ مگر پاک و ہند کے تمام اکابرین‘ عوام کے تحفظ کے لیے بے جان سے اقدامات کرتے ہیں۔ سیلاب کے بعد‘ گرمی کی شدت میںبھی اضافہ ہو چکا تھا۔ بحالی کا کام بہر حال جاری تھا۔ تباہ شدہ علاقے میں ایک سولہ برس کا نوجوان بھی تھا۔ جس کانام یادیو پیانگ تھا۔ واجبی شکل و صورت رکھنے والا لڑکا‘ کسی کی دوسری نظر کا مستحق نہیں تھا۔ چوڑی چپٹی ناک‘ کالا بھجنگ رنگ‘ اندر کو دھنسی ہوئیں بے کار سی آنکھیں اور چھوٹا سا قد‘ تعلیم بھی بس واجبی سی تھی۔ مگر جناب‘ یادیو ایک ایسا شخص تھا جو کسی بھی قوم اور معاشرے کے لیے نایاب تحفہ ہوتا ہے۔ سیلاب کے تھوڑے عرصے بعد یادیو کو ایک جگہ بہت سے مرے ہوئے سانپ نظر آئے۔ اسے لگا‘ کہ پانی نے ان سانپوں کی رہنے والی قدرتی جگہ یعنی درختوں کو برباد کر دیا ہے۔ یہ تمام علاقہ دریائے برہم پترا کے ساتھ ایک ریتلہ علاقہ تھا۔ زرخیر مٹی‘ ریت کے نیچے دفن ہو چکی تھی۔ یادیو‘ ایک نزدیکی آبادی میں گیا۔ جہاں بانس کے کچھ درخت لگے ہوئے تھے۔ وہاں سے پچاس ٹہنیاں اتاریں اور ریتلے علاقہ میں بے ترتیبی سے لگا دیں۔ روز آتا۔ بانس کے پودوں کو پانی دیتا اور ان کی حفاظت کرتا۔ اسے لگا کہ تمام کی تمام ٹہنیاں ‘ جڑ پکڑ چکی ہیں۔ تیزی سے بڑی ہو رہی ہیں۔ ان میں نئے پتے بھی نکل رہے ہیں۔ اب ہوا کیا۔ ایک ایسا واقعہ جس نے نہ صرف ہندوستان بلکہ پوری دنیا میں درختوں ‘ پودوں اور ان سے منسلک زندگی سے محبت کرنے والوں کو ششدر کر دیا۔ یادیو روز صبح اٹھتا۔ نزدیکی آبادیوں اور چھوٹے چھوٹے منسلک باغوں میں جاتا۔ وہاں کے لوگوں سے نوزائدہ پودے‘ درخت کی ٹہنیاں لیتا ۔ پھر اسی ریتلے علاقہ میں آجاتا جہاں اس نے پچاس بانس کے پودے ایستادہ کیے تھے۔ روز کئی کلو میٹر پیدل چلتا اور دریا کے نزدیکی بنجر علاقوں میں پودے لگاتا چلا جاتا۔ جگہ جگہ پر ٹہنیاں بھی لگا دیتا۔ یہ تمام کام ‘ یادیو کی زندگی کا مقصد بن چکا تھا۔ چند مقامی لوگ‘ اسے دیوانہ سمجھتے تھے۔ مگر بہت سے لوگ ایسے بھی تھے جو یادیو کو ایک اچھا انسان سمجھتے تھے۔ اسے پودے مفت فراہم کرتے تھے۔ یادیو ایک مشین کی طرح وسیع علاقے میں بس پودے لگاتا جاتا تھا۔ اس سارے عمل میں تیس برس گزر گئے۔ یعنی یہ کوئی ایک دو برس کی بات نہیں۔ بلکہ ایک انسانی زندگی کے بہترین سالوں کی کہانی ہے۔ ہر نوجوان بچپن میں کوئی نہ کوئی خواب دیکھتا ہے۔ کوئی ڈاکٹر بننا چاہتا ہے۔ کوئی انجینئر اور کوئی سرکاری افسر۔ ہر انسان کے اپنے ذاتی خواب ہوتے ہیں۔ جو کبھی اس کی عملی زندگی میں پورے ہو جاتے ہیں۔ اور کبھی ادھورے رہ جاتے ہیں۔ عملی زندگی کی راہداریاں‘ انسان کو ان جانی پگڈنڈیوں پر لے جا کر کیا سے کیا بنا ڈالتی ہیں۔ جو نوجوان اسٹوڈیو میں ہیرو بننے آتا ہے‘ وہ وہیں‘ اسٹوڈیو کے باہر‘ چائے بیچنے والا بن جاتا ہے۔ پھلوں کو فروخت کرنے والا نوجوان ‘ قدرت اور محنت کے ہاتھوں دلیپ کمار بن جاتا ہے۔دراصل قدرت کے سامنے‘ ہم سارے کچی مٹی کے مجسمہ سے ہوتے ہیں۔ وہ ہمیں‘ ایک ماہر کمہار کی طرح‘ نت نئے سانچے میں ڈھال دیتی ہے۔ جس کا ہمارے بچپن کے خوابوں سے دور دور کا تعلق نہیں ہوتا۔ مگر یادیو کا صرف ایک ہی خواب تھا۔ دریائے برہم پترا کے ساتھ علاقہ میں مسلسل درخت لگاتے رہنا۔ اور اسے دنیا کے سامنے ایک جنگل بنا کر دکھانا۔ اس کی محنت بلکہ ریاضت رنگ لائی۔ تین دہائیوں کی شب و روز محنت نے اس کے علاقے کو ایک خوبصورت جنگل میں تبدیل کر دیا۔ ہزاروں نہیں‘ لاکھوں پرندے‘ ہرے بھرے درختوں پر منتقل ہو گئے۔ ان گنت درندے بھی وہاں حفاظت سے زندگی بسر کرنے لگے۔ جس میں شیر‘ گینڈے ‘ چیتے بھی تھے۔ سیکڑوں ہرن بھی وہاں موجود ہیں۔ جب عام لوگوں نے یہ کارنامہ اپنی آنکھوں سے دیکھا تو انھوں نے اپنے پالتو جانور اور پرندے بھی یادیو کے جنگل میں چھوڑ دیے۔ مگر کمال کی بات ہے کہ آسام کی حکومت کو پورے تیس برس معلوم ہی نہ ہوا‘ کہ ایک دیہاتی نوجوان نے کتنا بڑا کارنامہ انجام دے ڈالا ہے۔ ویسے ہمارے خطے کی حکومتیں‘ تقریباًایک جیسی ہی ہوتی ہیں۔ نااہل ‘ نکمی‘ نکھٹو اور کرپٹ۔ 2008میں آسام کے جنگلات اور جانوروں کے تحفظ کے محکمہ کو معلوم ہوا کہ ان کے ایک سرکاری ذخیرے سے ایک سو پندرہ ہاتھی غائب ہیں۔ بابوؤں کو کچھ سمجھ نہیں آیا۔ اخباروں میں سرکاری محکمہ کی نااہلی اور نالائقی کے چرچے ہونے لگے۔ جب سرکاری بابوؤں کے پاس کوئی چارہ نہیں رہا تو انھوں نے ہاتھی ڈھونڈنے شروع کر دیے۔ انھیں ڈھونڈتے ڈھونڈتے ‘ یادیو کے جنگل تک پہنچ گئے۔ جب انھوںنے یہ ذخیرہ دیکھا تو حیران رہ گئے۔ ان کے کاغذوں میں تو یہ ‘ ریتلہ علاقہ تھا۔ مگر وہاں تو ہر طرح کے جانور اور پرندے بڑے سکون سے زندگی گزار رہے تھے۔ ان کے گمشدہ ہاتھی بھی وہاں موجود تھے۔ جب سرکار کو یہ معلوم ہوا کہ ان کے کرنے کا کام‘ ایک نیم خواندہ نوجوان ‘ تیس برس سے مسلسل کرتا جا رہا ہے۔ تو اس کی تعریف کے ڈونگرے بجنے لگے۔ درباری بابو‘ یادیو کے گھر پہنچ گئے جو مٹی کا بنا ہوا تھا۔ کوئی کہتا تھا کہ‘ اس نے ‘ یادیوکی تربیت کی کہ وہ پودے لگائے۔ کوئی بابو فرماتا تھا کہ نہیں جناب‘ میں نے یادیو کو پودے لگانے سکھائے۔ مگر سچ صرف یہ تھا کہ اس عظیم نوجوان نے کسی بھی حکومتی مدد کے بغیر ایک جنگل بنایا اور اگا کر دکھایا۔ روزانہ‘ میڈیا میں حکومتی اشتہار دیکھتا ہوں کہ حکومت نے درخت لگانے کی بڑی زبردست مہم شروع کر رکھی ہے۔ کروڑوں روپے صرف اور صرف پبلسٹی پر ضایع کیے جا تے ہیں۔ قلم کار‘ درختوں کی اہمیت بتاتے بتاتے اپنے قلم توڑ چکے ہیں۔ ان کی پند نصیحت کا کوئی بھی اثر نہیں ہو پایا۔ مگر انھوں نے اس اہم ترین موضوع پر لکھنے کا حق ادا کر دیا ہے۔ اصل حقائق حد درجہ ابتر ہیں۔ 1992میں پاکستان میں جنگلات 3.78 ملین ہیکٹر پر مشتمل تھے۔ 2025میں وہ صرف 3ملین ہیکٹر رہ چکے ہیں۔ بین الاقوامی اداروں کے مطابق‘ ہمارا ملک‘ گیارہ ہزار ایکڑ جنگل ہر برس‘ ضایع کر رہا ہے۔ یعنی جنگلات کا حجم خطرناک حد تک کم ہو چکا ہے۔ قیامت یہ ہے کہ ہمارے ملک میں جنگلات‘ پورے رقبہ کا محض پانچ فیصد ہیں۔ ہمسایہ ملک میں یہ نسبت بیس فیصد ہے۔ چین میں یہ چوبیس فیصد ہے۔ دیگر ممالک میں جنگلات کی شرح‘ ہر سال بڑھتی جا رہی ہے۔ مگر ہمارے ہاں یہ ایک المیہ بن چکا ہے۔ یعنی ہماری شرح کم سے کم ہوتی جا رہی ہے۔ اس کا خمیازہ اب ہم ذلت سے بھگت رہے ہیں۔ موسمیاتی تبدیلی‘ بے وقت سیلاب‘ پہاڑی علاقوں میں شدید لینڈ سلائنڈنگ ‘ زرخیز مٹی کی کمی اور انسانی جانوں کا ضیاع‘ سب کچھ اس میں شامل ہیں۔ مگر کیا آپ کو مرکزی یا کسی صوبائی حکومت میں وہ مضبوط قوت ارادی نظر آ تی ہے جس کی اس وقت شدید ضرورت ہے۔ذرا دیکھیے! ہماری ترجیحات کیا ہیں؟ ہمسایہ ملکوں سے بے سود جنگیں‘ شدید غریب ہونے کے باوجود مہنگا ترین اسلحہ خریدنا‘ ایک ناکارہ اور بوسیدہ نظام کو جبر کے ذریعے لوگوں پر مسلط کرنا‘ بے تکے بیرونی دورے کرنا اور اسی طرح کی خرافات میں مبتلا رہنا۔ ویسے‘ اب تو یہ سمجھ ہی نہیں آتی کہ ہماری حکومتیں اور ریاستی ادارے دراصل چاہتے کیا ہیں؟ ہاں ایک بات صاف نظر آتی ہے ۔ سیاسی مخالفین کو غدار اور ملک دشمن قرار دینا اور سزائیں دلوانا ۔اس ادنیٰ ماحول میں کون میری آواز سنے گا؟کہ ملک‘ درختوں کی کمی کی بدولت برباد ہو رہا ہے۔ جنگل ‘ لکڑی کے ڈاکوؤں کی گرفت میں ہیں۔ خدارا‘ پودے لگانے کے لیے قومی ایمرجنسی کا اعلان کیا جا ئے۔ پانچ فیصد جنگلات کو‘ بیس فیصد تک کیسے لے کر جانا ہے۔ اس پر وزیراعظم اور تمام وزراء اعلیٰ ‘ سر جوڑ کر بیٹھیں اور ایک عملی لائحہ عمل ترتیب دیں۔ مگر نہیں صاحب‘ ایسا کچھ بھی نہیں ہو گا۔ ہاں ‘ بیانات کی بارش ضرور ہو گی جو عام لوگوں کو اب تیزاب جیسی معلوم ہوتی ہے۔خیر چلیے‘ حکومت کو رہنے دیجیے ۔ ہمارے پچیس کروڑ افراد میں ایک بھی یادیو بیانگ نہیں ہے۔ جو اپنے ذاتی جذبہ اور ہمت سے ہزاروں ایکڑ کا جنگل لگا دے؟
اگر آپ اس خبر کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں۔
مزید تفصیل