Monday, August 18, 2025
 

موسمیاتی تبدیلیاں اور بارشیں

 



خیبر پختونخوا میں حالیہ بارشوں اور فلش فلڈ کے باعث جانی و مالی نقصانات کی ابتدائی رپورٹ کے مطابق گزشتہ دو روز کے دوران مختلف حادثات میں اب تک 337 افراد جاں بحق اور 178 زخمی ہوئے۔ وزیراعظم کی ہدایت پر نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (این ڈی ایم اے) کی ٹیمیں امدادی سرگرمیوں کی نگرانی کے لیے پشاور پہنچ گئیں۔  شدید مون سون بارشوں کے بعد آنے والے ان سیلابوں نے پاکستان کے شمالی علاقوں کو بری طرح متاثر کیا ہے، اگرچہ مون سون کی بارشیں آبی ذخائرکو بھرنے کے لیے بہت اہم ہیں، لیکن حالیہ برسوں میں یہ مزید شدید ہوگئی ہیں۔ موسمیاتی تبدیلی سیلاب کو تیزی سے خطرناک بنا رہی ہے۔ شمالی پاکستان میں ہونے والی حالیہ بارشیں دیگر برسوں کے مقابلے میں خاص طور پر غیر معمولی نہیں تھیں۔ آج کی ماحولیات، جس میں عالمی درجہ حرارت 1.3 ڈگری سینٹی گریڈ بڑھ چکا ہے، پاکستان میں مون سون کی بارشیں اس وقت تک مزید شدید ہوتی رہیں گی، جب تک دنیا فوسل فیول سے قابلِ تجدید توانائی کی طرف منتقل نہیں ہو جاتی، اگر بڑے پیمانے پر تبدیلی پر مبنی اقدامات نہ کیے گئے، تو اقوام متحدہ کی ایک سابقہ رپورٹ کے مطابق 2050 تک شدید موسمی حالات پاکستان کو تقریباً ایک ہزار 200 ارب ڈالر کا نقصان پہنچا سکتے ہیں۔  پاکستان میں موسمیاتی تبدیلی کو اب سنجیدگی سے لیا جا رہا ہے، لیکن بین الاقوامی مالی امداد اور طویل المدتی منصوبہ بندی کی کمی ہے۔ بٹگرام، مانسہرہ، سوات، بونیر اور باجوڑ میں تو زیادہ تر دیہی و پہاڑی علاقے ہیں اور ایسے علاقوں میں اس طرح کے موسم میں لینڈ سلائیڈنگ اور طغیانی کے امکانات ہر وقت موجود رہتے ہیں لیکن دیہی و پہاڑی علاقوں سے ہٹ کر بھی اگر ہم خیبرپختونخوا کے شہری علاقوں کو دیکھیں تو ایسے موسم اور ہنگامی حالات میں یہ بھی انسانوں کے لیے قطعی محفوظ نہیں۔ قدرتی آفات کا کوئی مقابلہ نہیں مگر اپنی طرف سے حفاظتی اقدامات یہ تو ہر انسان کے بس میں ہے مگر افسوس کہ پہاڑی اور دوردراز علاقوں کے ساتھ صوبے کی شہری آبادی میں بھی اس طرح کے موسم اور حالات سے نمٹنے کے لیے کوئی حفاظتی اقدامات نہیں۔ طوفانی بارش اور سیلاب کے معاملے میں ہمارے ریسکیو انتظامات نہ ہونے کے برابر ہیں اور یہ حقیقت میں ہم سانحہ سوات و کوہستان کے موقع پر دیکھ چکے ہیں۔ اس کے ساتھ سیلاب اور طغیانی سے بچانے کے لیے ہمارے اقدامات بھی آٹے میں نمک کے برابر ہیں۔ تجاوزات کے خلاف آپریشن اورکارروائی کے اعلان تو ہر دور میں ہوتے رہتے ہیں مگر سچ یہ ہے کہ ایبٹ آباد سمیت صوبے کے اکثر شہروں میں آج بھی نکاسی آب کا کوئی خاص نظام موجود نہیں۔ اول تو نکاسی آب کے لیے کوئی نظام نہیں۔ جہاں نکاسی کے لیے غلطی سے کہیں کوئی ندی نالہ چھوڑا گیا ہو، اس پر بھی عوام نے اس قدر تجاوزات قائم کی ہوتی ہیں کہ اس جگہ ندی نالے کا نام و نشان ہی نظر نہیں آتا۔ جب لوگ نکاسی آب کے نالوں اور گزرگاہوں کو فلتھ ڈپو بنائیں گے تو پھر وہاں اس طرح کے حالات اور دن تو دیکھنے پڑیں گے۔ سارے کام حکمرانوں کے کرنے کے نہیں ہوتے، کچھ کام عوام کو خود بھی کرنے پڑتے ہیں لیکن نہ ہی حکمرانوں کو اس چیز کی کوئی پرواہ ہے اور نہ عوام ہی کو اس کا کوئی ہوش اور شعور۔ صوبائی حکومتوں کو سال بھر ندی نالوں کا کوئی خیال نہیں ہوتا اور عوام بھی سال کے بارہ مہینے یا تو ندی نالوں پر تجاوزات قائم کرتے رہتے ہیں یا پھر گھروں کا سارا کچرا ان نالوں اور پانی کے گزرگاہوں میں پھینک کر ان سے فلتھ ڈپو کا کام لیتے ہیں۔ نکاسی آب کے نالے تجاوزات کے باعث مٹ چکے ہیں یا پھر کچرے اور گندگی سے بھر چکے ہیں۔ جہاں پانی گزرنے کا راستہ نہ ہو وہاں پھر پانی مکانوں، دکانوں اور آبادیوں میں نہیں جائے گا تو کہاں جائے گا۔ طوفانی بارشوں اور سیلاب سے جنم لینے والے اس طرح کے واقعات، حادثات اور سانحات کو ہم لوگ فوراً اللہ کا عذاب قرار دے کر اپنے آپ کو بری الذمہ قرار دے دیتے ہیں، درحقیقت یہ ہماری اپنی غلطیوں اور کوتاہیوں کا نتیجہ ہوتے ہیں۔ جب سے ہم نے قدرت کے نظام کے ساتھ کھیلنا شروع کر دیا ہے تب سے ہمیں ایسے سانحات اور واقعات سے گزرنا پڑ رہا ہے۔ جن راستوں سے پانی قدرتی طور پر بہتا ہے، ہم نے وہاں گاؤں، گھر، پلازے اور ہوٹل تعمیر کردیے ہیں۔ آج ہاؤسنگ سوسائٹیاں اور بلند و بالا پلازے تو ہر جگہ ہیں مگر نکاسی آب کا معقول نظام کہیں نہیں۔ یہ صرف بٹگرام، سوات، باجوڑ اور بونیر نہیں ہم سب سیلاب کے نشانے پر ہیں۔ قدرت کے بنائے گئے نظام سے چھیڑ چھاڑ اگر ہم نے جاری رکھی تو ہمارے یہ گاؤں، بستیاں اور گھر اسی طرح سیلاب کے ریلوں میں تنکوں کی طرح بہتے رہیں گے۔ پاکستان میں موسمیاتی تبدیلیاں ایک سنگین مسئلہ بنتی جا رہی ہیں، جس سے ملک کے مختلف حصوں میں مختلف اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ درجہ حرارت میں اضافہ، بارشوں کے پیٹرن میں تبدیلی، سیلاب اورگلیشیئرز کے پگھلنے جیسے مسائل پاکستان کو درپیش ہیں۔ پاکستان ان 10 ممالک میں سے ایک ہے جو موسمیاتی تبدیلیوں اور قدرتی آفات سے بہت زیادہ متاثر ہو رہا ہے۔ گزشتہ ایک صدی میں پاکستان میں اوسط درجہ حرارت میں صفر اعشاریہ چھ تین ڈگری سینٹی گریڈ کا اضافہ دیکھا گیا ہے اور کراچی کے ساحل کے ساتھ سمندر کی سطح میں ایک اعشاریہ ایک ملی میٹر کا اضافہ ہوا ہے۔ گزشتہ ماہ ایمینیسٹی انٹرنیشنل نے اپنی رپورٹ میں بتایا کہ پاکستان کا صحت کا نظام اور آفات سے نمٹنے کے ادارے بچوں اور بزرگوں کی بڑھتی ہوئی ضروریات کو پورا کرنے میں ناکام ہو رہے ہیں، جو موسمیاتی تبدیلیوں سے پیدا ہونے والے شدید موسمی حالات میں سب سے زیادہ متاثر ہوتے ہیں۔ پاکستان میں بچے اور بوڑھے موسمیاتی بحران کے فرنٹ لائن پر ہیں جہاں شدید گرمی اور سیلابوں کی وجہ سے اموات اور بیماریوں کی شرح غیر معمولی طور پر بڑھ گئی ہے۔ یہ واقعات اس بات کا اشارہ ہیں کہ عالمی درجہ حرارت میں اضافے کے نتیجے میں موسمی نظام شدید اور غیر متوقع شکل اختیار کر چکے ہیں، جس سے خطے کی اقتصادیات، انفرا اسٹرکچر اور انسانی جانوں کو ناقابل تلافی نقصان پہنچ رہا ہے۔ مزید یہ کہ گلیشیئرز کے پگھلنے کی وجہ سے پہاڑی علاقوں میں پانی کی قلت اور سیلاب دونوں کا خطرہ بڑھ گیا ہے، جس سے مقامی باشندوں کی زندگیوں اور معاشی سرگرمیوں کو شدید خطرات لاحق ہو گئے ہیں، اگرچہ اکثر لوگ موسمی تبدیلی کو صرف درجہ حرارت میں اضافے تک محدود سمجھتے ہیں، لیکن یہ اس کا صرف ایک پہلو ہے۔ زمین ایک مربوط نظام ہے جہاں ایک جگہ تبدیلی دیگر حصوں کو متاثر کرتی ہے۔ اس کے نتیجے میں شدید خشک سالی، پانی کی قلت، آگ لگنے کے واقعات، سمندری سطح میں اضافہ، سیلاب، قطبی برف کا پگھلنا، تباہ کن طوفان اور حیاتیاتی تنوع میں کمی جیسے سنگین مسائل سامنے آ رہے ہیں، اگرچہ پاکستان عالمی فضاء میں پیدا ہونے والے گرین ہاؤس گیسوں کا ایک فیصد سے بھی کم حصہ ہے، مگر تحقیق سے معلوم ہوتا ہے کہ پاکستان کو موسمیاتی تبدیلی کے باعث شدید موسمی واقعات سے بہت زیادہ نقصان اٹھانا پڑتا ہے۔ پاکستان نے 2022 میں اپنی سب سے تباہ کن مون سون کا سامنا کیا، جس میں شدید سیلاب آئے جنھوں نے 1700 سے زائد افراد کی جانیں لے لیں اور تقریباً 40 ارب ڈالر کا مالی نقصان ہوا۔پاکستان میں بھی موسمیاتی خطرات سے نمٹنے کے لیے موجودہ حفاظتی اقدامات ناکافی اور غیر مؤثر ثابت ہو رہے ہیں۔ اگرچہ این ڈی ایم اے NDMA اور پی ڈی ایم اے PDMA جیسے ادارے موجود ہیں، لیکن ان کے پاس جدید ٹیکنالوجی، مناسب فنڈز اور تربیت یافتہ عملے کی کمی ہے۔ بارشوں سے قبل الرٹ تو جاری ہوتے ہیں مگر نچلی سطح پر ان پر عملدرآمد نہ ہونے کے برابر ہے۔ ندی نالوں کی صفائی صرف کاغذی کارروائیوں تک محدود ہے، جس کے نتیجے میں ہلکی بارش بھی شدید سیلابی کیفیت اختیار کر لیتی ہے۔ بلدیاتی ادارے غیرفعال ہیں اور سیاسی مداخلت کے باعث انتظامی معاملات متاثر ہوتے ہیں۔ عوامی آگاہی مہمات کا بھی شدید فقدان ہے، جس سے عام شہری موسمی خطرات سے نمٹنے کے لیے تیار نہیں ہوتے۔موسمیاتی بحران سے نمٹنے کے لیے ہنگامی اور طویل المدتی اقدامات کی ضرورت ہے۔ سب سے پہلے حکومت کو قومی ماحولیاتی ایمرجنسی کا اعلان کرنا چاہیے تاکہ تمام ادارے متحرک ہوں۔ ملک بھر میں شجر کاری کی مہمات کو منظم کیا جائے۔ ہاؤسنگ سوسائٹیوں کی منظوری ماحولیاتی اثرات کی رپورٹ سے مشروط کی جائے اور ندی نالوں پر تجاوزات کے خلاف سخت کارروائی کی جائے۔ این ڈی ایم اے اور پی ڈی ایم اے کو جدید آلات اور ٹیکنالوجی سے لیس کیا جائے اور ان کے عملے کی تربیت کی جائے۔ اسموگ کی روک تھام کے لیے فیکٹریوں، بھٹوں اور گاڑیوں کی مانیٹرنگ کا مؤثر نظام قائم کیا جائے۔موسمیاتی تبدیلی اب صرف قدرتی تبدیلی نہیں بلکہ انسانی کوتاہیوں کا نتیجہ ہے۔ ہماری ترقیاتی ترجیحات میں ماحولیاتی تحفظ کو مسلسل نظر انداز کیا جا رہا ہے۔ جب تک حکومت، ادارے اور عوام مل کر اس مسئلے کو سنجیدگی سے نہ لیں گے، ہر سال مون سون اور سردیوں کی اسموگ پاکستان میں انسانی المیے کو جنم دیتی رہے گی۔ ہمیں صرف بیانات اور اعلانات سے آگے بڑھ کر عملی اقدامات کرنا ہوں گے، ورنہ آنے والی نسلیں ہمیں معاف نہیں کریں گی۔

اگر آپ اس خبر کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں۔

مزید تفصیل