Loading
کلاؤڈ برسٹ کیا ہے اور کیوں ہوتا ہے ۔ سائنس اس کے بارے میں کیا کہتی ہے ۔ ماہرین کے مطابق کلاؤڈ برسٹ یا بادل کا پھٹنا ایک غیر معمولی موسمیاتی واقعہ ہے جس میںبہت ہی کم وقت میں شدید بارش ہوتی ہے جس سے اچانک سیلابی صورت حال پیدا ہو جاتی ہے جب ایک گھنٹے میں سوملی میٹر بارش ایک ہی جگہ پر ہوتو اسے کلاؤڈ برسٹ کہتے ہیں اور یوں لگتا ہے جیسے کہ پورے کا پورا بادل پھٹ گیا ہو۔کلاؤڈ برسٹ سے ہونے والی بارش زمین کے پانی جذب کرنے کی صلاحیت سے بہت زیادہ ہوتی ہے‘ ایسے واقعات عموماً پہاڑی علاقوں میں ہوتے رہتے ہیں اس وقت صورت حال یہ ہے کہ موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث کلاؤڈ برسٹ میں بڑی تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ کلاؤڈ برسٹ پاکستان، بھارت ، نیپال ،چین میں اکثر نظر آتا ہے یورپ میں بھی ہوتا ہے یہ وہاں ایلپس کے پہاڑوں پر بھی بہت زیادہ ہوتا ہے امریکا میں بھی پہاڑی علاقوں میں کلاؤڈ برسٹ دیکھنے کو ملتے ہیں ۔ اس سال کلاؤڈ برسٹ سے پاکستان میں بہت زیادہ بارشیں ہوئیں پہاڑی علاقوں میں سیلابی ریلوں اور لینڈ سلائیڈنگ نے بہت زیادہ تباہی مچائی ‘سورج کی شعاعیں سمندر کے پانی کو گرم کرتی ہیں ، بادل بنتے ہیں اور یہ خشکی کی طرف جاتے ہیں ۔اگر بارش کا پانی ان میں زیادہ ہو تو ایسا لگے گا کہ بادل پھٹ گیا ہے اور پانی آبشار کی طرح زمین پر گرے گا۔ خلاء میں ٹمپریچر کم ہوتا ہے۔ اس پورے پراسس کو گرافک لفٹ کہتے ہیں یہ عمل پہاڑی علاقوں میں زیادہ ہوتا ہے اور وہاں شدید بارشیں اس کے نتیجے میں ہوتی ہیں ۔سائنسی دلیل کے مطابق زمین اور بادلوں کے درمیان موجود گرم ہوا کی لہر بادلوں کو فوری نمی برقرار رکھنے سے روک دیتی ہے۔جب دباؤ ناکافی ہوتا ہے تو بادل سے پانی اچانک بڑی مقدار میں گر کر کلاؤڈ برسٹ کا باعث بن جاتا ہے۔کراچی میں کلاؤڈ برسٹ کیوں ہورہے ہیں کراچی ایک فلیٹ زمین بالکل کنکریٹ کا بنا ہوا ہے ۔ وہاں حدت بہت زیادہ ہے جب آبی بخارات سمندر سے کراچی کی طرف آتے ہیں تو یہ بخارات آہستہ آہستہ اوپر اٹھنا شروع ہو جاتے ہیں ۔اوپر ٹمپریچر کم ہوتا ہے ۔ اور پھر اس طرح خاص طرح کے بادل بنتے ہیں ۔ ایسا لگتا ہے کہ روئی کے ڈھیر فضا میں ہوں ۔ سوال یہ ہے کہ وزنی بادل بن کیوں رہے ہیں اگر ایک ڈگری فضاء کا ٹمپریچر بڑھے گا تو اس کے نتیجے میں 7فیصد زیادہ نمی بادلوں کے اندر آئے گی۔ یعنی بادل اتنے ہی زیادہ بنیں گے ۔ پچھلے پونے دوسوسالوں میں زمین کا درجہ حرارت پونے دوڈگری بڑھا ہے ۔ ٹمپریچر بڑھنے سے بادل بھی وزنی بن رہے ہیں ۔ اگر ہم ساؤتھ ایشیاء کی بات کریں تو دو طرف سے مون سون کے بادل آتے ہیں ۔ یہ بحیرہ عرب کی طرف سے آتے ہیں دوسرے مون سون بادل خلیج بنگال کی طرف سے آتے ہیں ۔ یہ انڈیا ، بنگلہ دیش پاکستان کی طرف آتے ہوئے ایک بہت بڑی قدرتی دیوار ہے جسے ہمالیہ اور ہندوکش کے پہاڑوں نے بنایا ہوا ہے ۔ اس ہمالیائی دیوار سے ٹکرا کر یہ بادل بہت شدت سے برستے ہیں ۔ ایک تو درجہ حرارت بڑھنے کی وجہ سے اور دوسرا کلاؤڈ برسٹ زیادہ ہونے کے نتیجے میں گلیشئر زیادہ پگھلنے شروع ہوگئے ہیں ۔ بادلوں کی مختلف اقسام ہیں ۔ یہ کالے رنگ کے ہوتے ہیں کچھ روئی کی طرح کے ہوتے ہیں ۔2001میں اسلام آباد میں کلاؤڈ برسٹ ہوا اس کے نتیجے میں 10گھنٹوں میں 620ملی میٹر سے زیادہ بارش ہوئی ۔برصغیر میں ایسے بھی کلاؤڈ برسٹ ہوئے ہیں جب کہ پورے کے پورے گاؤں بہہ گئے اور ہزاروں لوگوں کی زندگیوں کا خاتمہ ہوگیا۔کلاؤڈ برسٹ ہمارے شمالی علاقوں میں بہت زیادہ ہوتے ہیں اس کی وجہ موسمی اور جغرافیائی تبدیلیاں ہیں ۔ گلیشئر بہت تیزی سے پگھل رہے ہیں ایک رپورٹ کے مطابق بڑھتے ہوئے درجہ حرارت کی وجہ سے پاکستان میں سیکڑوں گلیشئرز بڑی تیزی سے پگھل رہے ہیں۔ ایک اور رپورٹ کے مطابق پچھلے چالیس سے پچاس برسوں میں ہمالیہ کے 13فیصد گلیشئر پگھل چکے ہیں ۔ الجزیرہ کی رپورٹ کے مطابق اگر ہماری دنیا کا ٹمپریچر بڑھتا جاتا ہے اور زمین کا درجہ حرارت مزید 1.5فیصد بڑھ جاتا ہے تو اس صدی کے آخر میں ہمالیہ کے 30سے 50فیصد گلیشئر پگھل جائیں گے ۔ اسی طرح اگر زمین کا درجہ حرارت 2سے 3ڈگری مزید بڑھ جاتا ہے تو ہمالیہ کے دو تہائی گلیشئر پگھل جائیں گے اور سب سے خوفناک بات یہ ہے کہ اگر درجہ حرارت 4ڈگری تک بڑھ جاتا ہے جس کی پیشنگوئی پہلے ہی کی جا چکی ہے تو اکیسویں صدی تک 75فیصد گلیشئر پانی بن کر بہہ چکے ہوں گے ۔ زیریں علاقوں کے مقابلے میں ہمالیہ کے اونچے علاقوں میں گلوبل وارمنگ زیادہ ہے ۔ کیونکہ گلیشئر کے پگھلنے سے ان میں دبی ہوئی زہریلی میتھین گیس خارج ہوتی ہے جو زمینی درجہ حرارت میں مزید اضافے کا باعث بنتی ہے یعنی جتنا زیادہ زمینی درجہ حرارت بڑھے گا اتنا ہی زیادہ گلیشئر پگھلیں گے اور اتنی ہی زیادہ مزید میتھین گیس خارج ہوگی۔ یعنی زمین کے باسی اب ایک Vicious Circle میں پھنس چکے ہیں ۔
اگر آپ اس خبر کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں۔
مزید تفصیل