Loading
عصرِ حاضر میں مصنوعی ذہانت (AI) نے ہماری زندگی کے ہر شعبے کو نئی جہتیں دی ہیں۔ صحت کی دیکھ بھال کے شعبے میں بھی، یہ ایک انقلابی ٹول کے طور پر ابھری ہے، جہاں اے آئی چیٹ بوٹس نے ذہنی صحت اور ابتدائی طبی مشورے کے لیے ایک نیا دروازہ کھول دیا ہے۔ یہ چیٹ بوٹس، جو چوبیس گھنٹے دستیاب رہتے ہیں اور جن سے بات کرنا نہایت آسان ہے، لوگوں کے لیے ایک ایسا متبادل پیش کرتے ہیں جو کسی بھی وقت، کہیں بھی مدد فراہم کرسکتا ہے۔ لیکن کیا یہ ٹیکنالوجی واقعی اتنی مؤثر ہے جتنی نظر آتی ہے؟ اور کیا یہ انسان کی وہ گہری ہمدردی اور بصیرت فراہم کرسکتی ہے جو ایک ماہرِ نفسیات یا ڈاکٹر کے پاس ہوتی ہے؟ اس سوال کی اہمیت اس وقت مزید بڑھ جاتی ہے جب ہم دیکھتے ہیں کہ لوگ تیزی سے اپنی پریشانیوں، ذہنی دباؤ اور جسمانی علامات کے بارے میں بات کرنے کےلیے ان چیٹ بوٹس کا استعمال کر رہے ہیں۔ نیو انگلینڈ جرنل آف میڈیسن کے 21 دسمبر 2023 کے شمارے میں شائع ہونے والے ایک تحقیقی مضمون بعنوان "Generative AI in Clinical Practice" میں یہ بات واضح طور پر بیان کی گئی ہے کہ اے آئی ماڈلز خاص طور پر ذہنی صحت کے حوالے سے معلومات فراہم کرنے میں انتہائی کارآمد ثابت ہو سکتے ہیں۔ یہ چیٹ بوٹس ابتدائی معلومات فراہم کرسکتے ہیں اور لوگوں کو اس قابل بنا سکتے ہیں کہ وہ اپنے مسائل کو تسلیم کریں اور ان پر بات کریں۔ ایک ایسے معاشرے میں جہاں ذہنی صحت کے مسائل کو عام طور پر چھپایا جاتا ہے، یہ ایک خوش آئند قدم ہے۔ تاہم ماہرینِ صحت اس کے محدود استعمال پر زور دیتے ہیں۔ امریکن سائیکولوجیکل ایسوسی ایشن (APA) نے 27 فروری 2024 کو ایک پالیسی بیان جاری کیا جس میں یہ واضح کیا گیا کہ مصنوعی ذہانت انسانی نفسیات کی پیچیدگیوں کو مکمل طور پر نہیں سمجھ سکتی۔ APA کے ماہرین کے مطابق، انسانی جذباتی ذہانت، ہمدردی اور کسی کے الفاظ کے پیچھے چھپے ہوئے احساسات کو سمجھنے کی صلاحیت اے آئی میں موجود نہیں۔ ایک حقیقی معالج نہ صرف مریض کے الفاظ پر توجہ دیتا ہے بلکہ اس کے لہجے، خاموشی اور جسمانی زبان کو بھی سمجھتا ہے، جو کسی بھی چیٹ باٹ کے لیے ممکن نہیں ہے۔ ایک چیٹ باٹ صرف وہی جواب دیتا ہے جو اس کے ڈیٹا بیس میں موجود ہوتا ہے، جبکہ ایک معالج ہر فرد کی منفرد صورتحال کے مطابق ایک نیا، ذاتی اور مناسب حل تلاش کرتا ہے۔ ایک اور سنگین مسئلہ غلط اور غیر تصدیق شدہ معلومات کا ہے۔ جرنل آف امریکن میڈیکل ایسوسی ایشن (JAMA) میں 14 مئی 2024 کو شائع ہونے والی ایک تحقیق میں بتایا گیا کہ بعض اوقات یہ چیٹ بوٹس ایسی معلومات یا مشورے فراہم کر دیتے ہیں جو کسی فرد کی طبی حالت کے لیے مناسب نہیں ہوتے، اور بعض اوقات خطرناک بھی ہو سکتے ہیں۔ اسی طرح، JAMA نیٹ ورک اوپن، کے 15 جولائی 2024 کے شمارے میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ میں بتایا گیا کہ مریضوں کا ذاتی اور حساس طبی ڈیٹا ان چیٹ بوٹس کے ذریعے غیر محفوظ طریقے سے استعمال ہو سکتا ہے، جس سے ڈیٹا کی رازداری اور حفاظت کو خطرات لاحق ہو سکتے ہیں۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ JAMA نیٹ ورک اوپن کوئی عام ویب سائٹ نہیں، بلکہ امریکن میڈیکل ایسوسی ایشن (AMA) کا ایک معتبر اور بین الاقوامی سطح پر تسلیم شدہ اوپن ایکسیس جریدہ ہے جہاں ہر تحقیق اشاعت سے قبل اسی شعبے کے دیگر ماہرین کی سخت جانچ پڑتال سے گزرتی ہے، جس کی وجہ سے اس کی تمام معلومات قابلِ اعتبار ہوتی ہیں۔ اگرچہ اے آئی چیٹ بوٹس کو صحت کے مشورے کےلیے ایک ابتدائی آلہ کے طور پر استعمال کیا جاسکتا ہے، لیکن یہ کسی بھی صورت میں انسانی ماہرین کا متبادل نہیں ہیں۔ ماہرین کی واضح رائے ہے کہ اے آئی کا استعمال صرف ایک ضمنی ٹول کے طور پر ہونا چاہیے جو حقیقی معالج کی نگرانی اور رہنمائی میں کام کرے۔ یہ ٹیکنالوجی صرف اس وقت محفوظ ہے جب اس کی حدود کا احترام کیا جائے اور اسے صرف ایک معلوماتی ذریعہ سمجھا جائے، نہ کہ حتمی علاج۔ ہمیں یہ بھی سمجھنا ہوگا کہ صحت اور نفسیات کا تعلق صرف معلومات کے تبادلے سے نہیں، بلکہ انسانی ہمدردی، اعتماد اور پیشہ ورانہ مہارت سے ہے۔ ہمیں ٹیکنالوجی کی سہولیات سے فائدہ اٹھانا چاہیے، لیکن ہمیں اس حقیقت کو کبھی نہیں بھولنا چاہیے کہ انسانی صحت ایک ایسا قیمتی معاملہ ہے جس پر کسی بھی صورت میں سمجھوتہ نہیں کیا جا سکتا۔ نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔
اگر آپ اس خبر کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں۔
مزید تفصیل