Loading
رینڈی پاش (Randy Pausch) کارنیگی میلن یونیورسٹی میں کمپیوٹر سائنس کا استاد تھا‘ وہ پوری یونیورسٹی میں مشہور تھا‘ اساتذہ سے لے کر طالبعلم تک یونیورسٹی کے تمام لوگ اسے بے انتہا پسند کرتے تھے۔ وہ ’’پرسن آف دی ائیر‘‘ اور دنیا کی سو متاثر کن شخصیات کا ایوارڈ بھی حاصل کر چکا تھا‘ اس کا کیریئر بہت برائیٹ تھا‘ جاب بھی اچھی چل رہی تھی اور اسے اپنا کام بھی پسند تھا‘ اس کے دوست احباب بھی تھے‘ وہ ہفتے میں چار دن ایکسرسائز اور تین دن واک اور جاگنگ کرتا تھا‘ اکائونٹ میں رقم بھی تھی اور وہ فیملی لائف بھی انجوائے کر رہا تھا۔ لیکن پھر اچانک 2006میں اس کی طبیعت خراب ہوئی‘ وہ اسپتال گیا‘ چیک اپ کرایا تو پتا چلا اس کے لبلبے میں کینسر ہے‘ وہ اسپتال میں داخل ہوا‘ اس کا آپریشن ہوا اور وہ صحت یاب ہو گیا۔ 2007کے آخر میں اس کی طبیعت دوبارہ خراب ہو گئی‘ ڈاکٹروں نے معائنہ کیا اور اسے بتایا کینسر واپس آ گیا ہے اور اس مرتبہ یہ جگر تک پھیل چکا ہے لہٰذا عملاً اس کے پاس تین سے چار ماہ بچے ہیں۔ ڈاکٹروں نے اسے بتایا اس کے پاس اب دو آپشن ہیں‘ تم اپنا باقی وقت اسپتال میں گزار دو یا پھر اپنے خاندان کے ساتھ ہنسی خوشی ٹائم گزار کر دنیا سے رخصت ہو جائو‘ یہ خبر رینڈی کے لیے خوفناک تھی لیکن قدرت نے اسے حوصلے اور عقل سے نواز رکھا تھا چناں چہ وہ یہ صدمہ برداشت کر گیا۔ اس کا اس نئی صورت حال میں پہلا فیصلہ جاب چھوڑنا تھا‘ اس نے یونیورسٹی کو اطلاع دی اور پوری یونیورسٹی کو اپنا آخری لیکچر دینے کی درخواست کر دی۔ یونیورسٹی کی روایت ہے یہ اپنے پروفیسرز کو ریٹائرمنٹ سے قبل ’’فائنل ٹاک‘‘ کا موقع دیتی ہے‘ اس ٹاک کا ٹائٹل عموماً یہ ہوتا ہے ’’اگر آپ کو یہ پتا چل جائے یہ آپ کا آخری خطاب ہے تو آپ دنیا کے ساتھ کیا شیئر کریں گے؟‘‘ فائنل ٹاک کا موقع سب پروفیسرز کو ملتا تھا لیکن رینڈی کا معاملہ مختلف تھا‘ کیوں؟ کیوں کہ یہ ایک مرنے والے پروفیسر کی آخری تقریر تھی‘ بہرحال قصہ مختصر 18 ستمبر 2007کو رینڈی پاش کو اپنے طالب علموں‘ اساتذہ‘ پٹس برگ شہر کے اہم لوگوں اور میڈیا سے گفتگو کا موقع ملا۔ رینڈی نے اپنی گفتگو کا موضوع ’’ریلی اچیونگ یور چائلڈ ہڈ ڈریمز‘‘ رکھا‘ وہ لیکچر کمال تھا‘ اس نے نہ صرف شرکاء کو زندگی کا مختلف پہلو دکھایا بلکہ طالب علموں کو کامیابی کا ایسا راستہ بھی بتا دیا جو نظروں سے اوجھل تھا‘ ہال میں ایک صحافی جیفری زاسلو (Jeffrey Zaslow) بھی موجود تھا‘ وہ اس لیکچر سے اس قدر متاثر ہوا کہ اس نے ’’دی لاسٹ لیکچر‘‘ کے نام سے رینڈی پاش کے لیکچر کو کتابی شکل دے دی۔ یہ کتاب 8 اپریل 2008 کو شایع ہوئی اورتیزی سے مقبول ہو گئی‘ رینڈی نے اس لیکچر کے بعد خود کو اپنی فیملی اور کینسر کی آگاہی تک محدود کر لیا‘ وہ اپنے خاندان کو وقت دیتا تھا اور کینسر جیسے موذی مرض کے بارے میں لوگوں کو بتاتا تھا‘ اس کا کہنا تھا ’’کینسر کے مریض لوگوں کو اپنے مرض کے بارے میں نہیں بتا پاتے کیوں کہ ہم جیسے مریضوں کے پاس زیادہ وقت نہیں ہوتا۔ وہ اپنی گفتگو میں مشہور کینیڈین مائیکل جے فاکس کی مثال دیتا تھا‘ اس کا کہنا تھا مائیکل کو پارکنسن (Parkinson)ہوئی تو اس نے اپنی ساری دولت اور وقت اس بیماری کے علاج کی دریافت اور آگاہی کے لیے وقف کر دیا جب کہ کینسر کے مریضوں کے پاس بدقسمتی سے اتنا وقت اور سرمایہ نہیں ہوتا۔ چناں چہ میرے پاس جتنا وقت بچا ہے میں اس میں آپ کو بتا رہا ہوں‘ یہ مرض بہت خوفناک ہے‘ آپ اس کے بارے میں زیادہ سے زیادہ معلومات جمع کر لیں‘‘ بہرحال قصہ مختصر 25 جولائی 2008 کو رینڈی پاش فوت ہو گیا لیکن وہ جاتے جاتے دنیا کو دی لاسٹ لیکچر جیسی شان دار کتاب دے گیا۔ رینڈی پاش کے لیکچر میں بے شمار کہانیاں اور زندگی کے سبق تھے لیکن ایک کہانی نے میرا دماغ جکڑ لیا‘ رینڈی نے بتایا میں جوانی میں اپنے والد اور بیٹے کو ڈزنی لینڈ لے گیا‘ پارک میں ایک ٹرین چلتی ہے‘ لوگ آتے ہیں‘ ٹرین میں بیٹھتے ہیں اور کسی نہ کسی اسٹیشن پر اتر جاتے ہیں اور جب دوبارہ ضرورت پڑتی ہے تو ٹرین میں پھر سوار ہو جاتے ہیں۔ ہم جب ایک ٹرین اسٹیشن پر پہنچے تو میرے والد نے عجیب فرمائش کر دی‘ انھوں نے کہا‘ میں بچپن سے ٹرین کے انجن میں ڈرائیور کے ساتھ بیٹھ کر سفر کرنا چاہتا تھا لیکن مجھے پوری زندگی یہ موقع نہیں ملا‘ کیا تم میرے لیے اس انجن ڈرائیور کو راضی کر سکتے ہو۔ میں نے چند لمحے سوچا اور پھر انجن ڈرائیور کے پاس چلا گیا‘ میں نے اس کے کان میں کچھ کہا اور اس نے فوراً ہاں کر دی‘ میں نے والد اور بیٹے کو ساتھ لیا اور ہم تینوں انجن میں ڈرائیور کے ساتھ بیٹھ گئے‘ ہم نے پورے پارک کا چکر لگایا‘ ڈرائیور راستے میں ہمیں انجن اور ٹرین کے بارے میں بتاتا رہا‘ اس نے پٹڑی کے سائز‘ انجن کی قسمیں اور ٹرین کی ہسٹری بھی بتائی اور اپنی زندگی کے اہم ترین واقعات بھی سنائے۔ وہ ہماری زندگی کا یاد گار ترین سفر تھا‘ ہم نے اسے خوب انجوائے کیا، یوں میرے والد کا سپنا پورا ہو گیا‘ میرا بیٹا بھی خوش ہو گیا اور مجھے بھی ٹرین اور انجن کے بارے میں نئی معلومات مل گئیں۔ بہرحال ہم جب اسٹیشن پر اترے تو میرے والد نے میرا شکریہ ادا کیا اور اس کے بعد پوچھا تم نے ڈرائیور کے کان میں کیا کہا تھا جس کے فوراً بعد وہ ہمیں انجن میں بٹھانے پر راضی ہو گیا‘ میں نے انھیں ہنس کر جواب دیا‘ میں نے اسے سیدھا سادا بتایا تھا انجن میں سفر میرے والد کے بچپن کاخواب ہے اگر تم ان کا یہ ڈریم پورا کر دو تو میں تمہارا ممنون رہوں گا اور اس نے فوراً ہاں کر دی۔ رینڈی نے اس کے بعد اپنے بیٹے سے کہا‘ بیٹا یہ یاد رکھو ہم زندگی میں بے شمار مواقع صرف انکار کے خوف سے ضایع کر دیتے ہیں جب کہ دوسری طرف 90 فیصد لوگ انجن ڈرائیور ہوتے ہیں‘ انھیں کبھی کسی نے درخواست ہی نہیں کی ہوتی‘ ان سے کبھی کسی نے پوچھا ہی نہیں ہوتا۔ رینڈی نے یہ واقعہ سنا کر طالب علموں کو مشورہ دیا تم زندگی میں دوسروں سے جو بھی چاہتے ہو وہ کھل کر ان سے کہو‘ اپنی بات‘ اپنی حسرت دل میں چھپا کر نہ لے جائو‘ میں تمہیں گارنٹی کرتا ہوں تمہیں نوے فیصد ہاں میں جواب ملے گا‘ صرف دس فیصد لوگ تمہیں انکار کریں گے۔ لیکن تم اگر کوشش کرو تو وہ بھی مان جائیں گے‘ لوگ دروازہ کھول کر ہمارے انتظار میں بیٹھے ہوتے ہیں لیکن ہم خود سے یہ فیصلہ کر کے بیٹھ جاتے ہیں ہمیں انکار ہو جائے گا یا ہماری بات نہیں سنی جائے گی اور یوں ہم بے شمار مواقع ضایع کر دیتے ہیں‘ آپ دوسرے لوگوں کو انجن ڈرائیور سمجھیں اور اپنے دماغ میں یہ بات بٹھا لیں۔ اس بے چارے سے کبھی کسی نے انجن میں بیٹھنے کی فرمائش نہیں کی اور یہ پوری زندگی کسی کو انجن میں بٹھا کر سیر کرانے کے لیے تیار بیٹھا رہا چناں چہ لوگوں سے پوچھتے رہیں‘ لوگوں کے دروازوں پر دستک دیتے رہیں‘یقین کریں دروازے بھی کھلیں گے اور آپ کو ہاں بھی ہوتی رہے گی۔ میں نے یہ واقعہ رینڈی پاش کی کتاب میں پڑھا‘ یہ اس کے آخری لیکچر کا حصہ تھا‘ آپ یقین کریں اس کے بعد مجھے میری زندگی کے بے شمار ایسے مواقع یاد آ گئے جو میں نے صرف انکار کے خوف سے ضایع کر دیے تھے‘ میں جو پڑھنا چاہتا تھا میں آدھی زندگی وہ نہیں پڑھ سکا‘ میں نے کالج کی زندگی سائنس میں ضایع کر دی جب کہ میں بڑی آسانی سے آرٹس پڑھ سکتا تھا۔ میں نے بس پرنسپل سے درخواست کرنی تھی اور میرے دو سال بچ جاتے لیکن میں دو سال درخواست جیب میں رکھ کر پرنسپل کے دفتر تک جاتا اور واپس آتا رہ گیا‘ میرے والد بیمار تھے‘ وہ بھائی کے گھر گئے اور واپس نہیں آئے‘ میں انکار کے خوف سے انھیں لینے نہیں گیا اور یوں والد میری زندگی سے نکل گئے۔ میں اپنے بچوں سے بھی بے شمار باتیں کرنا چاہتا ہوں لیکن یہ سوچ کر رک جاتا ہوں یہ کیا کہیں گے‘ یہ کیا سوچیں گے اور اگر انھوں نے انکار کر دیا تو اس سے میری بے عزتی ہو جائے گی‘ میں جوں جوں سوچتا گیا میرے سامنے حماقتوں کا انبار لگتا چلا گیا اور جب میں نے اپنی کامیابیوں کا تخمینہ لگایا تو پتا چلا یہ سب اللہ تعالیٰ کے دیے اس حوصلے کا نتیجہ ہیں میں جس کے تحت کسی کے پاس چلا گیا تھا یا میں نے کسی انجن ڈرائیور سے درخواست کر دی تھی اور اس درخواست نے میری زندگی کا راستہ بدل دیا تھا۔ پنجاب کے کسی گاؤں میں سردار کی خوب صورت بیٹی بدصورت اور ان پڑھ مراثی کے ساتھ بھاگ گئی‘ سردار کسی نہ کسی طرح بیٹی تک پہنچ گیا اور اس سے صرف ایک سوال پوچھا‘ بیٹا جب گاؤں میں ایک سے بڑھ کر ایک خوب صورت اور خاندانی جوان موجود تھے تو تمہیں اس لدھڑ کے ساتھ بھاگنے کی کیا ضرورت تھی؟ بیٹی نے شرما کر جواب دیا‘ پورے گاؤں میں صرف اس نے مجھے بھاگنے کی دعوت دی تھی‘ میں گھر سے بھاگنے کے لیے تیار بیٹھی تھی‘ اس نے آفر کی اور میں سامان لے کر اس کے ساتھ نکل گئی‘ رینڈی پاش کا انجن ڈرائیور بھی سردار کی بیٹی تھا۔ یہ بھی مدت سے کسی کے پوچھنے کا انتظار کر رہا تھا‘رینڈی نے پوچھا اور اسے ہاں ہو گئی، آپ بھی اپنے دائیں بائیں دیکھیں‘ آپ کو بھی ایسے سیکڑوں انجن ڈرائیور نظر آ جائیں گے جو روزانہ آپ کے منہ کھلنے کا انتظار کرتے رہتے ہیں۔
اگر آپ اس خبر کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں۔
مزید تفصیل