Loading
جمعہ 5 ستمبر کو ممبئی پولیس کو ایک ٹیلی فون کال موصول ہوئی جس میں ایک شخص نے خود ایک مسلم تنظیم کا رکن بتایا اور کہا کہ ’’ اس کی تنظیم کی جانب سے 34 گاڑیوں میں 400 کلو گرام دھماکا خیز مواد نصب کر دیا گیا ہے۔‘‘ یہ اطلاع نہایت خطرناک تھی کیونکہ دھماکا خیز مواد اتنی مقدار میں تھا کہ جس سے پورا ممبئی تباہ ہو سکتا تھا۔ پولیس نے فوراً پورے شہر میں ہائی الرٹ جاری کر دیا۔ ساتھ ہی فون پرکال کرنے والے کی تلاش شروع کردی اور بہت جلد فون پر اطلاع دینے والے شخص کو گرفتارکر لیا گیا، یہ ایک ہندو تھا۔ اس نے گرفتار ہونے کے بعد بتایا کہ اسے ممبئی کے ایک مسلمان رہائشی نے گرفتار کرانے کی دھمکی دی تھی۔ اس نے اس کا بدلہ لینے کے لیے یہ جھوٹی کال کی تھی تاکہ اس مسلمان شہری کو دہشت گردی کے جرم میں پھنسایا جاسکے مگر وہ اپنی اس قبیح حرکت سے ممبئی کی پوری مسلم کمیونٹی کو مشکل میں ڈالنے جا رہا تھا۔ بھارت میں مسلمانوں پر دہشت گردی کا الزام لگانا ایک عام سی روش بن گیا ہے۔ مسلمانوں کو پہلے بھارتی حکومت دہشت گرد قرار دیتی تھی اور جھوٹے مقدمات میں پھنسا کر سزا دلواتی تھی مگر اب عام بھارتی ہندو بھی اپنی سرکار کے نقش قدم پر چل پڑے ہیں۔ ماضی میں ممبئی حملہ کیس جس کی بھارت سرکار نے بہت تشہیرکی تھی وہ بھارتی حکومت کا ایک ڈرامہ تھا۔ جس کی پول غیر ملکیوں نے بھی کھول دی تھی۔ جرمنی میں رہائش پذیر ایک یہودی مصنف الیاس ڈیوڈسن نے Betrayal of India کے نام سے ایک ضخیم کتاب مرتب کی تھی جس میں ممبئی حملوں میں بھارتی حکومت کے ملوث ہونے کے ثبوت پیش کیے گئے تھے۔ آج کے بھارت میں مسلمان کس خوف کے ماحول میں زندگی گزار رہے ہیں وہ وہی جانتے ہیں۔ اسلام پاکستان اور مسلمانوں کے خلاف بیان دینا بھارتی سیاستدانوں کا روزکا مشغلہ بن چکا ہے، وہ مسلمانوں کو دلتوں سے بھی کم تر سمجھتے ہیں۔ بعض بھارتی سیاستدان جو پہلے مشہور لیڈر نہیں تھے۔ جب انھوں نے مسلمانوں اور اسلام کے خلاف بولنا شروع کیا انھیں بی جے پی نے ہاتھوں ہاتھ لیا۔ انھیں پارٹی میں شامل کر کے لوک سبھا اور راج سبھا کے ٹکٹوں سے نوازا گیا اور وہ الیکشن میں منتخب ہو کر اسمبلیوں کے ممبر بن گئے۔ آج کے بھارت میں مسلمانوں سے زبردستی شری رام کے نعرے لگوائے جاتے ہیں اور اگر ایسا نہ کریں تو موت کے گھاٹ اتار دیا جاتا ہے۔ ہندوؤں کو مسلمانوں سے نفرت کرنے کا درس آر ایس ایس اور اس کی بغل بچہ بی جے پی کھلے عام دے رہی ہیں اور یہی سرکاری پالیسی بھی ہے۔ دراصل یہی نفرت ہندو توا کی کامیابی کی کنجی بھی ہے۔ بی جے پی اسی نفرتی فارمولے کے تحت دہلی کے تخت تک پہنچی ہے۔ ہندوؤں کو اس نفرتی زہریلے فارمولے سے آشنا کرنے والا ساورکر تھا۔ ساورکر شروع میں انگریزوں کے خلاف تھا۔ اسے انگریزوں کے خلاف کام کرنے کی پاداش میں گرفتار کر کے انڈومان جزیرے کی سیلولر جیل میں پہنچا دیا گیا تھا جہاں کے سخت ماحول سے وہ بہت جلد گھبرا گیا اور انگریزوں سے معافی طلب کرنے لگا۔ اس نے اپنی معافی کے لیے انگریز سرکارکو چار بار خطوط لکھے جس سے متاثر ہو کر اسے جیل سے رہا کرنے کے لیے یہ شرط عائد کی گئی کہ وہ جیل سے باہر نکل کر ہندوؤں میں مسلمانوں کے خلاف نفرت کو ہوا دے گا۔ دراصل انگریز 1857 کی بغاوت سے تو کسی طرح بچ نکلے تھے مگر وہ آیندہ ایسی بغاوت سے بچنا چاہتے تھے مگر یہ جب ہی ممکن تھا جب ہندو مسلمانوں کے اتحاد کو توڑا جائے۔ انھیں ایک دوسرے کا دشمن بنا دیا جائے تاکہ آپس میں ہی لڑتے رہیں اور وہ سکون سے ہندوستان پر حکومت کرتے رہیں۔ ساورکر تو ایک پڑھا لکھا شخص تھا انگریزوں نے اسے مسلمانوں کے خلاف کتابیں اور کتابچے شایع کرنے کے لیے مکمل تعاون فراہم کرنے کی یقین دہانی کرائی اور پھر اس نے جیل سے باہر نکل کر مسلمانوں کے خلاف ایسا زہریلا پروپیگنڈا شروع کیا کہ بہت جلد ہندو مسلمانوں کے دشمن بن گئے۔ مسلمانوں کو غیر ملکی کہا جانے لگا کہ وہ باہر سے آئے ہیں۔ یہ بھی دھمکی دی جانے لگی کہ وہ ہندوستان چھوڑ دیں، ورنہ سوکھی لکڑی کی طرح جلا کر راکھ کر دیا جائے گا۔ مسلمانوں کے خلاف جگہ جگہ دنگے شروع ہوگئے اور مسلمانوں کو ہندو بنانے کے لیے شدھی تحریک شروع کی گئی۔ اس نفرت انگیز ماحول نے مسلمانوں کو سوچنے پر مجبور کر دیا کہ وہ ہندوؤں کے ساتھ نہیں رہ سکتے۔ انگریزوں کے ہندوستان چھوڑنے کے بعد انھیں ہندوستان میں ہندوؤں کا غلام بن کر رہنا ہوگا۔ بس یہیں سے پاکستان کے قیام کی تحریک شروع ہوگئی اور بالآخر مسلمانوں نے ایک علیحدہ وطن حاصل کر لیا۔ بعض مسلمان یہ سمجھتے تھے کہ انگریزوں کے جانے کے بعد دونوں قومیں مل جل کر آزادی سے زندگی بسر کریں گی، ان کی سوچ غلط ثابت ہوئی۔ آج ہندوستان میں مسلمان جتنے پریشان ہیں اور ان پر ظلم ڈھائے جا رہے ہیں ایسا کسی اور ملک کی اقلیت کے ساتھ اکثریت کا رویہ نہیں ہے۔ تقسیم سے قبل کچھ مسلمان رہنماؤں کا یہ بھی نظریہ تھا کہ آر ایس ایس آزادی کے بعد مسلمانوں کے ساتھ اچھا برتاؤ کرے گی مگر آزادی کے بعد آر ایس ایس نے مسلمانوں کے خلاف اپنے زہریلے پروپیگنڈے کو مزید زہریلا کر دیا ہے۔ آر ایس ایس کے بطن سے پیدا ہونے والی بی جے پی یعنی بھارتیہ جنتا پارٹی آج کل مسلمانوں کی سب سے بڑی دشمن بنی ہوئی ہے۔ مسلمانوں کے مذہبی مقامات، مساجد اور درگاہیں محفوظ نہیں ہیں۔ انھیں توڑنے کے لیے جھوٹی کہانیاں گھڑ لی جاتی ہیں جیسے کہ بابری مسجد کو مسمار کرنے کے لیے اسے رام جنم بھومی قرار دے دیا گیا تھا اور پھر عدالت نے بھی جھوٹی گواہی پر قدیم مسجد کو توڑ کر مندر بنانے کی اجازت دے دی تھی۔ ابھی بھارت میں کئی مساجد اور درگاہوں کو توڑنے کی تیاری کی جا رہی ہے۔ سب سے افسوس ناک بات یہ ہے کہ حضرت خواجہ غریب نواز کی درگاہ کو بھی بعض شرپسند ہندوؤں نے پرانا مندر ہونے کا دعویٰ کیا ہے۔ کوئی مسلمان آر ایس ایس اور بی جے پی کے ظلم کے خلاف زبان نہیں کھول سکتا اور اگر ایسا کرتا ہے تو اس کے گھرکو غیر قانونی قرار دے کر بلڈوزر سے مسمار کردیا جاتا ہے۔ اس وقت کانگریز مسلمانوں کو اس ظلم سے بچانے کا وعدہ کر رہی ہے مگر وہ مسلمانوں کے ووٹوں سے کامیابی حاصل کرکے ماضی میں بھی مسلمانوں کے احسان کو بھولتی رہی ہے۔ اب دیکھیے کیا ہوتا ہے؟
اگر آپ اس خبر کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں۔
مزید تفصیل