Loading
صدیوں کے سفر نے ہمیں بارہا یہ سکھایا ہے کہ طاقتوروں کے فیصلے ہمیشہ عوام کے لیے خواب اور سوال چھوڑ جاتے ہیں۔ جب نوآبادیاتی طاقتیں ایشیا کے ساحلوں پر اتری تھیں تو ہماری زمینیں، ہماری زبانیں اور ہمارے خواب سب کے سب ان کے پنجوں میں جکڑ گئے تھے۔ ہم سے جو کچھ چھینا گیا وہ واپس آج تک نہیں آیا۔ ہماری مٹی سے اناج، کپاس اور قیمتی معدنیات کے قافلے یورپ کے گوداموں تک جاتے رہے اور ہمارے کسانوں اور مزدوروں کے حصے میں غربت اور غلامی آئی۔ آج جب بیجنگ کی میز پر روس کے صدر ولادیمیر پیوتن، چین کے صدر شی جن پنگ اور بھارت کے وزیر اعظم نریندر مودی اکٹھے ہوئے اور پاکستان بھی کسی نہ کسی درجے پر اس محفل میں موجود تھا تو میرے ذہن میں ایک ہی سوال گونجتا رہا، کیا یہ واقعی ایک نیا بلاک ہے یا طاقت کے پرانے کھیل کا ایک نیا باب؟ تاریخ ہمیں بار بار یہ سبق دیتی ہے کہ طاقتوروں کے اتحاد اکثر عوام کو بھلا دیتے ہیں۔ کیا اس بار کچھ مختلف ہوگا؟ دنیا کی آنکھوں میں یہ تصویر بہت دلکش ہے۔ ایک طرف امریکا اور یورپ کا دباؤ ہے جو روس کو یوکرین کی جنگ کے بعد تنہا دیکھنا چاہتے ہیں۔ دوسری طرف چین ہے جس کی معیشت دنیا کو ہلا رہی ہے اور جو نئے راستے تلاش کر رہا ہے۔ تیسری طرف بھارت ہے جو مغرب سے ہاتھ بھی ملاتا ہے اور ایشیا میں اپنی بالا دستی بھی چاہتا ہے۔ ان تینوں کی یہ نشست اگر واقعی خطے کا رخ موڑتی ہے تو یہ تاریخ کا بڑا موڑ ہوگا۔ لیکن مجھے فکر اس بات کی ہے کہ اس میز پر کسان کہاں ہے؟ مزدور کہاں ہے؟ وہ عورت کہاں ہے جس کے ہاتھ روز محنت سے لہولہان ہوتے ہیں؟ وہ نوجوان کہاں ہے جو روزگار کے دروازے پر بار بار دستک دیتا ہے اور ہر بار خالی ہاتھ لوٹ آتا ہے؟ پاکستان کی کہانی اور بھی پیچیدہ ہے۔ ہم برسوں سے یہ خواب دیکھ رہے ہیں کہ سی پیک ہماری تقدیر بدل دے گا۔ گوادر کی بندرگاہ کو ہم نے خطے کی خوشحالی کی کنجی قرار دیا۔ کبھی روس کے ساتھ گیس پائپ لائن کا تصور ہمیں لبھاتا ہے کبھی وسطی ایشیا کی منڈیوں تک رسائی کا خواب ہماری آنکھوں کو چمکاتا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ ہماری گلیوں اور بازاروں میں غربت کا سایہ دن بدن گہرا ہوتا جا رہا ہے۔ نوجوان ہاتھوں میں ڈگریاں تھامے دربدر ہیں مزدور کی اجرت زندگی کی قیمتوں کے سامنے بوجھل ہے اور کسان اپنی محنت کا پھل بھی قرض کے بوجھ تلے دبا کر کھو دیتا ہے۔ اگر یہ بلاک صرف ریاستوں کا ہوگا عوام کا نہیں تو پاکستان کے عام آدمی کے لیے یہ کوئی نئی صبح نہیں بلکہ پرانی شام ہی ہوگی۔ مجھے تاریخ کے کچھ اور لمحے یاد آتے ہیں۔ نان الائنڈ موومنٹ کا وہ زمانہ جب نہرو،ٹیٹو اور ناصر نے یہ خواب دیکھا تھا کہ ترقی پذیر ممالک سامراجی طاقتوں کے خلاف ایک نیا محاذ بنائیں گے۔ ہمیں لگا کہ اب دنیا دو قطبی تقسیم سے نکل کر ایک نئے انصاف پر مبنی نظام کی طرف بڑھے گی لیکن وہ خواب وقت کے دھندلکوں میں کھو گیا۔ آج پھر ہم ایک نئے خواب کی دہلیز پر کھڑے ہیں۔ سوال وہی ہے کیا یہ اتحاد عوام کو عزت اور روٹی دے گا یا صرف سرمایہ داروں کو نئے سودے؟ روس اور چین کی سوشلسٹ روایتیں میرے دل کو اب بھی چھوتی ہیں۔ میں نے اپنے جوانی کے دنوں میں ماسکو اور بیجنگ کے انقلابات کے بارے میں پڑھا تھا اور سوچا تھا کہ دنیا واقعی بدل سکتی ہے لیکن اب ان ملکوں نے اپنے راستے بدل لیے ہیں۔ سرمایہ داری کا رنگ ان کے چہروں پر بھی چھا چکا ہے۔ چین کی شاہراہیں اور بلند و بالا عمارتیں دنیا کو مسحور کرتی ہیں لیکن وہاں بھی مزدورکی محنت سستی ہے اور کارخانوں میں عورتیں لمبے اوقات کار کے باوجود کم اجرت پر زندگیاں گزار رہی ہیں۔ روس جس نے ایک زمانے میں انقلاب کی صدا دنیا کو سنائی تھی آج اپنے توانائی کے ذخائر اور ہتھیاروں کے سودے پر فخر کرتا ہے۔ بھارت اپنے آپ کو دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کہتا ہے لیکن اس کے اندر اقلیتوں پر جو ظلم روا ہے وہ کسی سے چھپا نہیں۔ ریاست گجرات کے داغ آج بھی اس کے دامن پر ثبت ہیں ایسے میں کیا ہم یہ مان لیں کہ یہ بلاک واقعی ایک نیا وعدہ ہے؟ میرا دل اس سوال کے سامنے تذبذب میں ہے۔ پاکستان کی معیشت آئی ایم ایف کے شکنجے میں ہے ہر نیا قرض ہماری آنے والی نسلوں پر بوجھ بنا کر رکھ دیا جاتا ہے۔ نوجوان ہاتھوں میں ڈگریاں لیے روزگار کے لیے دربدر پھر رہے ہیں۔ عورتیں گھروں اور کھیتوں میں دن رات محنت کرتی ہیں مگر ان کا نام کسی معاہدے یا منصوبے میں نہیں آتا۔ ہمارے محنت کش دنیا بھر میں مشقت کرتے ہیں مگر ان کی محنت کا پھل ان کے گھر نہیں بلکہ بینکوں اور کمپنیوں کے کھاتوں میں جمع ہوتا ہے۔ ایسے میں مجھے یہ سوچ کر دکھ ہوتا ہے کہ اگر یہ نیا بلاک ان کے لیے کوئی روشنی نہیں لاتا تو پھر یہ اتحاد محض حکمرانوں کا ہے عوام کا نہیں۔ تاریخ ہمیں امید بھی دیتی ہے اور مایوسی بھی۔ ہم نے انقلاب روس کو دیکھا چین کے کسانوں کی فتح دیکھی، ویتنام کے گوریلوں کا حوصلہ دیکھا، ایران کی عورتوں کی جدوجہد دیکھی لیکن ہم نے یہ بھی دیکھا کہ جب حکمران اپنی کرسیوں کے اسیر ہو جاتے ہیں تو عوامی خواب کیسے بکھر جاتے ہیں ان خوابوں کے ٹوٹنے کی صدا آج بھی ہمارے کانوں میں گونجتی ہے۔ مجھے یاد ہے کہ جب برصغیر تقسیم ہوا تھا تو ہمارے بزرگوں نے یہ کہا تھا کہ ’’ اب ہم آزاد ہیں، اب ہم اپنے فیصلے خود کریں گے‘‘ لیکن آزادی کے ان برسوں میں ہمارے فیصلے اکثر کہیں اور بیٹھے ہوئے لوگ کرتے رہے ہیں کبھی واشنگٹن کبھی بیجنگ کبھی ریاض۔ آج اگر یہ نیا ایشیائی بلاک بنتا ہے تو کیا واقعی ہمارے فیصلے ہمارے ہاتھ میں ہوں گے؟ یا ہم پھر کسی نئے مرکز کے تابع ہو جائیں گے؟ میری خواہش یہ ہے کہ اگر واقعی یہ ایشیائی بلاک بنتا ہے تو یہ محض شاہراہوں اور بندرگاہوں کا اتحاد نہ ہو۔ یہ کسانوں کے کھیتوں، مزدوروں کے کارخانوں، عورتوں کی محنت اور نوجوانوں کی امنگوں کا اتحاد ہو ورنہ یہ ایشیا کی صدی نہیں بلکہ سرمایہ داروں کی صدی ہوگی۔ تاریخ نے ہمیں یہ سکھایا ہے کہ قومیں صرف سڑکوں اور عمارتوں سے نہیں بنتیں وہ انسانوں کے خوابوں اور ان کی خوشیوں سے بنتی ہیں۔ مجھے فیض صاحب کا یہ شعر بہت یاد آیا: یہ داغ داغ اجالا، یہ شب گزیدہ سحر وہ انتظار تھا جس کا، یہ وہ سحر تو نہیں یہ سحر تبھی ہوگی جب یہ بلاک عوام کا بلاک ہوگا، محنت کشوں کا بلاک ہوگا، ورنہ طاقت کے یہ کھیل ہمیں پھر اندھیروں کی طرف دھکیل دیں گے اور میں پھر وہی سوال دہراتی رہوں گی، ایشیا کے خواب کب عوام کے خواب بنیں گے؟
اگر آپ اس خبر کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں۔
مزید تفصیل