Saturday, September 13, 2025
 

اب کی بار… جنریشن ذی اور نیپال

 



دنیا بھر میں جاری جنگوں ،خون ریز جھمیلوں اور بڑی طاقتوں کے درمیان کھینچا تانی نے ماحول اس قدر گرم کر رکھا ہے کہ کمزور ممالک کو عالمی خبروں میں مشکل سے ہی جگہ مل پاتی ہے۔ نیپال جنوبی ایشیا کا غریب ترین ملک ہے، نیپال کی بلند ترین چوٹیاں اور خوبصورت پہاڑ پوری دنیا کے سیاحوں کے لیے خصوصی کشش رکھتے ہیں۔ تاہم یہ لینڈ لاک ملک شاذ ہی عالمی خبروں کا مرکز رہا لیکن گزشتہ ایک ہفتے کے دوران نیپال کی خبریں ہیڈ لائنز رہیں۔ نیپال میں سیاسی حکومتوں کی کرپشن، اقربا پروری ، ایلیٹ طبقات کی شان و شوکت اور کروفر کی زندگی پر نوجوان اور دیگر طبقات میں شدید ناپسندیدگی وقت کے ساتھ ساتھ بڑھتی رہی۔ سیاسی جماعتوں میں محاذ آرائی، انتہائی خراب گورننس اور مسلسل سیاسی اکھاڑپچھاڑ کے باوجود سیاست دانوں کی پانچوں انگلیاں گھی میں رہیں۔ اس پر مستزاد ان کے اہل خانہ اور اولادیں اپنے کروفر اور میلوں ٹھیلوں کی تشہیر ٹھسے سے سوشل میڈیا کی زینت بناتے۔ رد عمل میں جب نوجوانوں اور دیگر طبقات کی طرف سے سوشل میڈیا پر شدید تنقید ہونے لگی تو حکومت نے سوشل میڈیا پر پابندیاں عائد کر دیں۔ حکومت کا خیال تھا کہ سوشل میڈیا کا سانپ مار دیا ہے اب کون لکیر پیٹے گا؟ تاہم اس کے بالکل برعکس غیر متوقع طور پر حکومت کے اس اقدام کے خلاف شدید رد عمل اور عوامی مظاہروں کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ حکومت نے مظاہرین کے ساتھ تحمل کے ساتھ نمٹنے کے بجائے حسب معمول تشدد کا سہارا لیا۔ایک ہی دن میں 19 مظاہرین ہلاک ہوئے اور سیکڑوں زخمی، جس کے بعد مظاہروں میں شدت اور تشدد در آیا۔ کرفیو اور فوج تعینات کیے جانے کے باوجود بپھرے ہوئے مظاہرین نے پارلیمنٹ سمیت کئی سرکاری بلڈنگز اور کئی لگژری ہوٹلز کو آگ لگائی اور تہس نہس کر دیا۔ وزیراعظم شرما اولی نے استعفیٰ دے کر حالات کو ٹھنڈا کرنے کی کوشش کی لیکن بہت دیر ہو چکی تھی۔ ان کا اپنا گھر بھی جلا دیا گیا۔ کئی دیگر جغادری سیاستدانوں کے گھر بھی آتش زدگی اور لوٹ مار کی زد میں آئے۔ صدر عام چندر پاوڈل نے معاملات اپنے ہاتھ میں لے کر ایک عبوری نظم کی کوششیں شروع کر دی ہیں ، ایک سابق خاتون چیف جسٹس سوشیلا کرنی کو عبوری وزیراعظم مقرر کیا گیا ہے۔ اگلے سال مارچ میں نئے انتخابات کا اعلان کیا گیا ہے۔ تاہم ابھی تک حالات انتہائی مخدوش ہیں۔ سیاسی نظم کے یوں ریت کی طرح ڈھے جانے کے بعد متبادل سیاسی ڈھانچے کا آسانی سے پنپنا اور توقعات ہر پورا اترنا آسان نہیں ہوگا۔ مظاہروں میں نوجوانوں کی نمایندگی کرنے والے رہنماؤں کا کہنا ہے کہ ان کے سیاسی عزائم نہیں ہیں، وہ صرف یہ چاہتے ہیں کہ یہ گلا سڑا، بدبودار سیاسی نظام تبدیل کیا جائے تاکہ ملک میں سیاسی استحکام پیدا ہو، معیشت صرف اور صرف ایلیٹ طبقے کی باج گزار نہ ہو اور ہر سال چار لاکھ نوجوانوں کو روزی روٹی کے لیے ملکوں ملکوں کی خاک نہ چھاننا پڑے۔ واضح رہے کہ ملکی جی ڈی پی کا سائز 50 ارب ڈالرز اور فی کس سالانہ آمدنی 1,450 ڈالرز کے لگ بھگ ہے۔ معیشت کا دارومدار درآمدات اور بیرونی ممالک سے ترسیلات زر پر ہے۔ ہر پانچ میں سے ایک نوجوان بے روزگار ہے۔ 2008 میں بادشاہت ختم ہونے کے بعد سیاستدانوں کے دن تو پھرے لیکن عوام کے حصے میں وہی غربت، بے روزگاری، مہنگائی اور مایوسی ہی آئی۔ نیپال میں یک دم شروع ہونے والے زوردار اور پرتشدد مظاہروں میں تین عناصر نمایاں ہیں۔ اول کرپشن: سیاستدانوں میں اقربا پروری کا چلن اور مکمل ناکام گورننس۔ دوم:مظاہرین لگے بندھے سیاسی کارکن یا جماعتی وابستگیوں میں بندھے ہوئے نہ تھے، عام لوگ تھے۔ سوم: ان میں نمایاں ترین تعداد نوجوانوں کی تھی جنھیں جنریشن ذی کے نام سے جانا گیا۔ جنوبی ایشیا میں سب سے پہلے تین سال قبل 2022 میں سری لنکا میں ایسے ہی زوردار ہنگامے پھوٹ پڑے۔کرپشن ،حکومتی بدنظمی اور آئی ایم ایف کی ٹھونسی ہوئی شرائط کے نتیجے میں معاشی بدحالی نے لوگوں کو سڑکوں پر آنے پر مجبور کر دیا۔ وزیراعظم ہاؤس اور پارلیمنٹ پر دھاوا بولا گیا۔ مظاہرے اس قدر شدید تھے کہ ایک ہی خانوادے کے صدر ، وزیراعظم اور پانچ فیملی ممبرز وزراء کو بقول شخصے جوتے چھوڑ کر بھاگنا پڑا۔ تاہم بعد میں سیاسی تدبر روبہ عمل آیا۔ انتخابات کا ڈول ڈالا گیا جس کے نتیجے میں حیران کن طور پر بائیں بازو کی جماعت نے کامیابی حاصل کی اور دھیرے دھیرے ملک کو معاشی بہتری اور سیاسی استحکام کی پٹڑی پر ڈالنے کا عمل شروع کیا۔ گزشتہ سال سری لنکا کے پڑوسی بنگلہ دیش میں ملازمتوں کے کوٹے پر احتجاج شروع ہوا۔ حسینہ واجد کی حکومت نے روایتی پولیس گردی اور بے محابہ تشدد کے ذریعے احتجاج کو دبانے کی کوشش کی۔ دیکھتے ہی دیکھتے 15 سال سے زائد جاری آہنی اقتدار کا سنگھاسن ڈولنے لگا۔ درجنوں اموات اور سیکڑوں زخمیوں پر مظاہرین کا غم و غصہ مزید بڑھتا گیا ، یہاں تک کہ وزیراعظم حسینہ واجد کو اپنے ہی منتخب کیے ہوئے آرمی چیف نے ملک چھوڑنے کا مشورہ دیا۔ بنگلہ دیش کے اس عوامی انقلاب کا سہرا بھی نوجوانوں کے سر گیا۔نوبل انعام یافتہ ڈاکٹر یونس کو عبوری ایڈوائزر کے طور پر حکومت کا چارج دیا گیا۔ سیاسی استحکام ابھی تک پوری طرح جم نہیں پایا۔ آگے آگے دیکھیے ہوتا ہے کیا۔ چند مہینے پہلے کینیا میں بھی یکدم پر تشدد مظاہروں کا سلسلہ اچانک شروع ہوا۔ کرپشن، معاشی بدحالی، بے روزگاری اور آئی ایم ایف کے سخت پروگرام نے لوگوں کی چیخیں نکلوا دیں۔ سیاسی وابستگی سے بے نیاز نوجوانوں نے سوشل میڈیا کی مدد سے حیران کن قوت مجتمع کرکے حکومت کو ہلا کر رکھ دیا۔ ان تمام واقعات میں تینوں بیان کردہ عناصر کا کردار قابل غور ہے۔ سیاسی اور انتظامی رولنگ کلاس اپنے مفادات کے مطابق فیصلے کرتے ہیں جس کا بھگتان عوام کو کرنا پڑتا ہے، تاہم گزشتہ 12/15 سالوں کے دوران سوشل میڈیا نے ستائے ہوئے عوام بالخصوص نوجوانوں کو پلیٹ فارم مہیا کر دیا ہے جہاں وہ اپنے دل کا غبار نکالتے ہیں۔ جہاں جہاں کرپشن، حکومتی سخت گیری اور مایوسی انھیں زیادہ دباتی ہے وہ احتجاج بلکہ پرتشدد احتجاج پر بھی اتر آتے ہیں۔ نوجوانوں کی سرکردگی میں بہار عرب سے شروع ہونے والا یہ رجحان آہستہ آہستہ پھیلتا گیا ہے۔ پرتشدد مظاہروں کے نتیجے میں بیشتر صورتوں میں رولنگ کلاس نے اپنے داؤ پیچ بدل کر حکومتوں اور حکومتی وسائل پر اپنی گرفت قائم رکھی ہے۔ تاہم جنریشن ذی اور 30 سال تک کی عمر کے نوجوان اپنے بڑوں کی نسبت کرپشن، بے روزگاری اقربا پروری، بری گورننس اور مستقبل کی مایوسی سے سمجھوتہ کرنے کو تیار نہیں ہیں۔ پاکستان سمیت بہت سے ممالک کے لیے اس رجحان کا مطالعہ انتہائی اہم اور اس کے نتائج قابل غور ہیں۔ بقول شخصے کچھ ہوتا ہے جب خلق خدا کچھ کہتی ہے!

اگر آپ اس خبر کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں۔

مزید تفصیل