Saturday, September 13, 2025
 

اک اور سیلاب کا سامنا ہے منیر مجھ کو

 



پانی کا سیلاب تو اپنی جگہ۔اور جن کو ان سیلابوں کا شکار ہونا تھا، ہوگئے اور ہوتے رہیں گے کہ ’’نشیبوں‘‘ میں رہنے والے ہمیشہ سیلابوں کی زد میں رہتے ہیں۔ اس سلسلے میں پشتو کا ایک گیت بھی ہے کہ نرے باران دے پاس پہ لوڑو ئے وروینہ ژورے’’ کرمے‘‘ تہ نصیب راوڑے یمہ ترجمہ(بارشیں اوپر پہاڑوں پر برس رہی ہیں لیکن میرا نصیب مجھے گہرے نشیب’’کرمہ‘‘ میں لایا ہے)کرم کرمہ پاڑہ چینار کا مقامی نام ہے جو نشیب میں ہے اور ہمیشہ پہاڑوں سے آنے والوں کی زد میں رہتا ہے۔ اب اس مسئلے کا حل یا سوال کا جواب کسی کے پاس بھی نہیں ہے کہ کچھ لوگ’’نشیب‘‘ میں کیوں رہتے ہیں یا رہنے پر مجبور ہیں یا ہوتے ہیں۔ ایک بڑا مشہور اور خوب صورت شعر فارسی کا یوں ہے۔ درمیان قعر دریا تختہ بندم کردہ ای باز می گوئی کہ دامن تر مکن ہوشیار باش ترجمہ(دریا کے بیچ میں تم نے مجھ کو تختے کے ساتھ باندھ لیا ہے اور پھر کہتے ہو کہ خبردار دامن تر نہ ہونے پائے۔)خیر یہ تو بہت ہی پرانا قصہ ہے کہ کچھ لوگ نشیب میں کیوں ہوتے ہیں اور کچھ فراز میں کیوں؟ یہ اونچ نیچ تو ہمیشہ سے ہے اور رہے گی۔ جب شہر کے لوگ نہ رستہ دیں کیوں بن میں نہ جابسرام کریں دیوانوں کی سی نہ بات کرے تو اور کرے دیوانہ کیا؟ لیکن یہ جو سیلاب کے ساتھ ایک اور’’سیلاب‘‘ آیا ہے۔یا جو آسمانی سیلاب کے ساتھ انسانی بلکہ بیانی اور زبانی سیلاب آیا ہے، اسے کون روکے گا۔اصل سیلاب تو ایک روز چند روز کی آفت ہے اور کچھ علاقوں تک محدود ہے لیکن یہ انسانی،بیانی یا زبانی سیلاب نہ جانے کب تک چلے گا۔ ابتدائے عشق ہے روتا ہے کیا آگے آگے دیکھیے ہوتا ہے کیا اس انسانی بیانی اور زبانی سیلاب کی شدت اور ہمہ گیری کا اندازہ اس سے لگائیں کہ وزیر،مشیر،معاون،ترجمان وغیرہ یعنی سارے بیان دے چکے ہیں، یکجہتی کا اظہار کرچکے ہیں، عام لوگ بھی اپنا اپنا حصہ ڈال رہے ہیں، چشم گل چشم نے بھی سیلاب زدگان کے ساتھ یکجہتی کا اعلان کیا ہے۔ علامہ بریانی نے تو سیلاب زدگان کی امداد کے لیے چندے کی مہم بھی لانچ کردی ہے۔ اس انسانی، بیانی، زبانی سیلاب کی شدت کا پتہ اس سے چل جاتا ہے کہ ’’انھوں‘‘ نے بھی’’مشکل گھڑی‘‘ میں قوم سے متحد ہونے کی اپیل کی ہے۔ اب ہمیں یہ معلوم نہیں کہ یہ’’قوم‘‘ کون ہے اور’’متحد‘‘ کیسے ہوگی لیکن جذبہ بے اختیار شوق دیکھا چاہیے۔ چندے، ہمدردی، یکجہتی کا یہ سیلاب اخباروں میں کچھ اس شدت سے آیا ہے کہ ہر طرف جل تھل ہوگیا ہے۔ بیان یہ بیان ،بیان،بیان، حساب کتاب اور ناپ تول کا علم ہمیں نہیں آتا ورنہ بتادیتے۔ کہ کہاں کہاں پر نچلے درجے کا ، کہاں کہاں پر درمیانے درجے کا اور کہاں پر بلند ترین درجے کا سیلاب ہے ۔ان تمام بیانات کے سیلاب اس شدت سے بہہ رہے ہیں کہ ہمیں ڈر ہے کہ کہیں اخبارات کے بقیہ صفحات تک اس میں غرق نہ ہوجائیں۔ ایسے تیراک بھی دیکھے ہیں مظفر ہم نے غرق ہونے کے لیے بھی جو سہارا چاہیں یک جہتی اور ساتھ ہونے کے علاوہ جو خبر سب سے زیادہ’’بہہ‘‘ رہی ہے، وہ سیلاب زدگان کی بجالی اور امداد ہے۔ان بیانوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ ڈوبنے والوں کی ابھی لاشیں بھی نہیں نکالی گئی ہیں کہ امدادی چیک ان کے ہاتھوں میں پکڑائے گئے۔ یہاں پر ایک لطیفہ دُم ہلانے لگا ہے۔کہتے ہیں کہ امریکا میں کسی جگہ بیمہ کمپنیوں کے ایجنٹ بیٹھے اپنی اپنی کمپنیوں کی تعریف کررہے تھے کہ ہم کتنی تیزی سے متاثرین کا کلیم دا کرتے ہیں، سب نے اپنی اپنی سنائی تو ایک ایجنٹ نے کہا کہ ہماری کمپنی اتنی تیز ہے کہ گزشتہ دنوں ہمارا ایک کلائنٹ بلڈنگ کی پندرویں منزل سے گرا تو پانچویں منزل پر ہماری کمپنی نے جب وہ کھڑکی سے گزر رہا تھا کلیم کا چیک اس کے ہاتھ میں پکڑا دیا۔ ہمارے بیانات کے سیلاب نے بھی کہا ہے کہ بعض مقامات پر سیلاب ابھی پہنچا بھی تھا کہ ہماری صوبائی حکومت نے معاوضے کے چیک ان کے لواحقین کے حوالے کردیے، ساتھ ہی پلاسٹک کے تھیلوں میں دوسرے سامان کے ساتھ یک جہتی کے تھیلے بھی تقسیم کیے۔

اگر آپ اس خبر کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں۔

مزید تفصیل