Saturday, September 13, 2025
 

’’مرد وعورت‘‘ جنس مخالف نہیں بلکہ جنس مختلف ہیں

 



بے شک قرآن کریم بیک وقت مرد و عورت دونوں سے یکساں طور پر مخاطب ہے۔ شریعت میں ایمانیات (اللہ کی وحدانیت پر ایمان، رسولوں پر، الہامی کتابوں پر، فرشتوں پر ایمان، آخرت پر ایمان) کا موضوع ہو یا عبادات (نماز، روزہ، حج، زکوٰۃ) کا یا اخلاقیات (المعروف و المنکر) کا مرد و عورت دونوں ہی یکساں طور پر اس کے مخاطبین ہیں اور دونوں صنف سے یکساں مطالبہ ہے کہ ان احکامات کو پورا کریں۔ احکامات کی تعمیل اور اس سے روگردانی کی صورت میں دونوں ہی جزا و سزا کے مساوی حقدار قرار دیے جائیں گے۔ ’’مردوں کو ان کاموں کا ثواب ہے جو انہوں نے کئے اور عورتوں کو ان کاموں کا ثواب ہے جو انہوں نے کئے‘‘ (سورۂ نساء: 32)۔ لیکن مردو عورت کو چونکہ اللہ تبارک و تعالیٰ دو الگ اصناف میں وجود میں لایا ہے لہٰذا ان کی جسمانی ہیئت سے لے کر ان کی نفسیات اور اس کے ردعمل میں ان کے عوامل تمام یکسر ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔  اسی لحاظ سے دونوں اصناف کا دائرہ عمل بھی الگ الگ ہے۔ یہ کوئی اتنی معمولی بات نہیں ہے، جسمانی ہیئت کی تبدیلی اور نفسیات یعنی سوچ کا انداز احساسات و نظریات، اگر مختلف ہیں تو یہ طے ہے کہ ایک ہی واقعہ کے رونما ہونے پر دونوں اصناف کے ردعمل بھی مختلف ہوں گے۔ معاشرے میں عموماً جب بھی مرد و زن کی بات کی جاتی ہے تو ان کے لیے opposite sex یعنی جنس مخالف کی ٹرم استعمال کی جاتی ہے مراد یکسر متضاد، ایک دوسرے کے مدمقابل جنس۔ لیکن اگر شریعت کو سمجھا جائے تو متضاد کے بجائے Different یعنی یکسر مختلف جنس کا لفظ استعمال گیا ہے۔ یعنی عورت کو مرد کے مخالف نہیں بلکہ مرد سے الگ اپنی ایک اہم شناخت رکھنے والی جنس کے طور پر متعارف کروایا گیا ہے۔ متضاد کا لفظ استعمال کرتے ہوئے ہم ان دونوں اصناف کو ایک دوسرے کے مدمقابل لے آتے ہیں اور ایک مقابلہ اور امتحان کے دائرہ میں لاتے ہوئے تمام مثبت باتوں کو منفی سوچ میں لے جاتے ہیں۔ حالانکہ شریعت کی تعلیمات تو اس سے بالکل مختلف ہیں۔ اسلام میں کہیں بھی عورت اور مرد کو ایک دوسرے کے مقابل لا کر نہیں کھڑا کیا گیا بلکہ دونوں کو مختلف جنس بنا کر ایک دوسرے کو بعد از نکاح ساتھی قرار دیا گیا ہے۔ ’’اور عورتوں کا حق (مردوں پر) ویسا ہی ہے جیسے دستور کے مطابق (مردوں کا حق) عورتوں پر ہے‘‘ (سورۂ بقره: 228) تاکہ دونوں اپنی اپنی ودیعت کی گئی صلاحیتوں کو اکٹھا کرکے بہترین زندگی گزاریں اور ایک مضبوط خاندان اور صحت مند معاشرہ کی بنیاد رکھیں۔ اس لیے ان دونوں کو مدمقابل لاکر ایک نفرت اور بدلے کی فضا قائم کرکے ان کو دی گئی صلاحیتوں کو منفیت میں بدل کر ہم بالکل ہی شریعت کی تعلیمات کے منافی ہیں۔ حقوق و فرائض کی جوابدہی میں بھی دونوں ہی قابل گرفت ہیں۔ ’’اے لوگو! اپنے رب سے ڈرو جس نے تمہیں ایک جان سے پیدا کیا اور اسی جان سے اس کا جوڑا بنایا اور ان دونوں سے بہت سے مرد اور عورتیں پھیلائیں، اس اللہ سے ڈرو جس کا واسطہ دے کر تم ایک دوسرے سے اپنا حق مانگتے ہو‘‘ (سورہ النساء۔1)  دیکھا جائے تو صرف ایک لفظ ’’الگ‘‘ سے ’’متضاد‘‘ میں لانے سے پوری تعلیمات کا ماحول یکسر بدل جاتا ہے۔ ایسا کیسے ہوسکتا ہے وہ شریعت جو ہمیں تعلیم دے رہی ہے کہ دونوں ایک دوسرے کے ساتھی ہیں اور دونوں مل کر اس نظام ہستی کو چلائیں گے تو وہ یہ کیسے کہہ سکتی ہے کی دونوں ایک دوسرے کی ضد ہیں، ایک دوسرے کے ساتھ اختلاف رکھتے ہوئے کیسے اس نظام کو چلایا جاسکے گا؟ عورت مرد کی طرح ہی قابل عزت اور قابل احترام ہے۔ چونکہ اس کی تخلیق یکسر مختلف ہے لہٰذا اس کا سوچنے کا انداز، اس کا ردعمل سب مختلف ہے۔ اور یہ کوئی قابل شرم بات نہیں ہے اور نہ ہی نکتہ چینی کرنے والی۔ اس طرح تو ہم اللہ تبارک و تعالیٰ کی تخلیق پر انگلی اٹھا رہے ہیں، کیونکہ تخلیق کار تو وہی ہی ہے۔ اس نے جس حساب سے تخلیق کیا ہے مخلوق اسی کے مطابق ہی تو عمل کرے گی اور یہی اس کی تخلیق کا مقصد بھی ہے۔ لہٰذا ’’مختلف‘‘ کے بجائے ’’الگ‘‘ کا لفظ اس ذات کی تخلیق کا مقصد واضح کرتا ہے۔ شریعت کی صحیح تعلیمات کو جاننے کےلیے لازم ہے کہ اسے صحیح معنوں میں سمجھا جائے، جس مقصد کےلیے یہ تعلیمات اتری ہیں، نہ کہ اپنی من مانی تشریحات کی جائیں۔ اس طرح اپنی جہالت میں ہم اپنے مقاصد سے دور ہوتے چلے جائیں گے۔   نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔

اگر آپ اس خبر کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں۔

مزید تفصیل