Saturday, September 13, 2025
 

کچھ سوال ہیں؟

 



بارشوں کی صورتحال سے ملک میں مسائل گمبھیر ہوگئے ہیں، شہر تو شہر، گاؤں دیہات سب اس میں الجھے ہیں اور اندرون شہر خاص کر کراچی میں پانی کی نایابی اس قدر کے پانی کے ٹینکر دن رات دندناتے سڑکوں،گلیوں کوچوں پر نظر آتے ہیں۔ سخت گرمیوں میں پانی کا مسئلہ سمجھ میں آتا ہے کہ سر پر چمکتا سورج، تپتی زمین کہ چیل بھی انڈہ چھوڑ جائے لیکن آسمان بادلوں سے بھرا، زمین نم اور فضا بارش کی بوندوں سے بوجھل ایسے میں پانی کے ذخیروں کا خالی رہ جانا سمجھ سے بالاتر ہے لیکن ایسا ہی ہو رہا ہے۔ بہرحال خیبر پختونخوا اور دیگر بالائی علاقوں میں گاؤں بازاروں اور اسکولوں کا بہہ جانا بہت تکلیف دہ ہے۔ اس کے ساتھ ہی سوشل میڈیا پر ان باتوں کو نظرانداز بھی نہیں کیا جا سکتا کہ جس میں خود وہاں کے مکین اور دیگر افراد اپنی رائے کا اظہار کرتے نظر آرہے تھے۔ قوم لوط کا ذکر اس دور میں جس انداز سے کیا جا رہا ہے وہ دل دہلانے کے لیے کافی ہے ایسا کیوں ہو رہا ہے؟ سوال در سوال۔ حضرت لوط علیہ السلام کا شہر سدوم جسے قرآن مجید میں الٹ پلٹ ہو جانے والا شہر بھی کہا گیا ہے، یہ شام کے صوبے حفض کا ایک مشہور شہر تھا۔ شیطان نے اس قوم کو بہکایا اور وہ غیر فطری اعمال میں مبتلا ہو گئے اور حضرت لوط علیہ السلام کے سمجھانے پر بھی باز نہ آئے اور آخرکار قہر الٰہی میں مبتلا ہو کر جہنم رسید ہوئے، اس طرح کہ پتھروں کا مینہ برسا اور بستی الٹ گئی، یہ ایک ایسی خطرناک سزا تھی جو رب العزت کی نافرمانی پر نازل ہوئی۔ اس کا ذکر بائبل کے عہد نامہ قدیم کی کتاب پیدائش میں بھی ہے۔ کیا ہم نہیں جانتے کہ ایسا کیوں ہوا تھا؟ سب واضح ہے، لیکن شیطانی باتیں اور جھانسے انسانوں کو الجھانے اور غارت کرنے کے لیے چلتی رہتی ہیں چاہے ہم اسے ترقی یافتہ جدید باتوں کے رنگین پیرائے میں رکھ کر بیان کریں یا پیش کریں لیکن کیچڑ اور غلاظت کی تاثیر ایک سی ہی رہتی ہے بدلتی نہیں۔ اب اگر کوئی اس کے خلاف آواز اٹھائے یا بات کرے تو اسے کسی بھی چکر، سوال میں الجھا کر بھی حقیقت نہیں بدل سکتے۔ اس کو برا سمجھیں اور سمجھ کر پابندی عائد کرنے میں ہی ہمارے لیے عافیت ہے۔ ورنہ بہت سے حقائق کی روشنی میں ریسرچ کریں سب کچھ عیاں ہیں، کون سا بازار،کیسے لوگ اور کس طرح کی عنایتیں۔ ترقی کا چکر جتنی تیزی سے آگے کی جانب انسان کو لے جا رہا ہے انسان اتنی ہی تیزی سے پیچھے کی جانب سفر کر رہا ہے۔ صدیوں پہلے کا سفر آسان نہیں، نئی سہولیات کے ساتھ اور بھی خطرناک ہے۔اورنگی ٹاؤن میں صبح ایک تاجر اپنے بچے کو اسکول چھوڑنے موٹر سائیکل پر جاتا ہے، وہ اسکول میں بچے کو ڈراپ کرتا ہے اس دوران اس نے محسوس کر لیا تھا کہ کوئی اس کا تعاقب کر رہا ہے۔ لوٹتے ہوئے ان تعاقب کاروں نے اس پر فائرنگ کردی، اسے چار گولیاں لگیں، ان دو ملزمان نے کوئی چھینا جھپٹی نہیں کی، اپنا کام کیا اور اطمینان سے موقعہ واردات سے فرار ہوگئے، وہ تاجر نعیم جو تین بچوں کا باپ بھی تھا اور کپڑے کے کاروبار سے منسلک تھا، گولی لگنے سے زمین پر گر گیا اور تڑپنے لگا، ایمبولینس بھی پہنچ گئی لیکن وہی روایتی انداز اور جانے والا چلا گیا۔ آخر ایسا کیا تھا کہ محمد نعیم کو قتل کیا گیا، کیا اس کا تعلق کسی سیاسی جماعت سے تھا، یا وہ کسی بڑے گینگ کا سرغنہ تھا یا منسلک تھا؟ پر ایسا کچھ بھی نہ تھا، محمد نعیم کے قتل کا شاخسانہ اس کے اپنے ساتھی سے جا کر ملا۔ قتل اسی شخص کی ایما پر کیا گیا تھا، محض حسد، رقابت اور جلن اس قتل کی وجہ کہلائے جا رہے ہیں۔ ان دو نوجوان جن کو سی سی ٹی وی کی جادوئی آنکھوں نے قید کیا پکڑے جانے پر سپاری لیے جانے کی کہانی سنائی، ڈیڑھ سوا لاکھ میں ایک جیتے جاگتے انسان کا قتل طے پایا۔ اب تک بھی بات حسد، رقابت پر آ رہی ہے لیکن وہ کرائے کے قاتل ایک عام انسان کو کیسے مل سکتے ہیں، بات سوچنے کی ہے کہ ٹی وی فلم کی کہانیوں کے برخلاف، حقیقی کہانی اس سے بہت مختلف ہوتی ہے۔ کالا جادو کرانیوالے بابا کے ڈیرے پر ایک حاسد، رقیب ہی جا سکتا ہے جو اپنی ناپسندیدہ ہستی کو ہر حال میں غرق کرنا چاہتا ہے، لیکن اسے ایک اور آسان آپشن نظر آجاتا ہے، اجرتی قاتل۔ آخر یہ اجرتی قاتل کالا جادو کرانیوالے بابا کے ڈیرے پرکیا کر رہے تھے؟ ’’ کالا جادو بہت خطرناک ہوتا ہے، یہ انسان کو جان سے بھی مار دیتا ہے۔‘‘ ’’ ایک انسان کو جادو کیسے مار سکتا ہے؟ جب کہ زندگی اور موت تو رب العزت کے ہاتھ میں ہے۔‘‘ کم عمری میں انسانی سوچیں اسی طرح سفر کرتی ہیں اور اپنے سوالات کے جواب ڈھونڈتی ہیں جو کبھی مل جاتے ہیں اور کبھی ساری عمر انھی سوالوں میں کھوئے رہتے ہیں۔ مسلمان ہونے کی حیثیت سے ہم صرف اپنے رب العزت پر یقین کرتے ہیں کہ وہی ہماری ایک ایک سانس کا حساب رکھتا ہے اور جب انسان کا طے کردہ وقت مکمل ہو جاتا ہے تو نہ ایک پل آگے اور نہ پیچھے، پھر جادو اور موت۔۔۔۔؟ اب کہیں جا کر اس سوال کا جواب کچھ یوں ملتا ہے کہ قرآن کہتا ہے: ’’ یہ ساحر لوگ اس (سحر) کے ذریعے سے کسی کو (ذرہ برابر) بھی ضرر نہیں پہنچا سکتے، مگر خدا ہی کے (تقدیری) حکم سے۔‘‘ یعنی اگر کسی شخص کی تقدیر میں اسی طرح دنیا سے رخصت ہونا لکھا ہے تو اسی طرح ہوگا، چاہے وہ جادو کے زور سے ہو یا پستول کی گولی سے۔ آج کل ہمارے معاشرے میں پیروں فقیروں کے نام پر جس طرح کی شعبدہ بازی کی جا رہی ہے وہ انتہائی تشویش ناک ہے۔ عقیدے کو کمزور کرنے کے سو بہانے اور حیلے تیار اور ہم سب یہ جاننے کے باوجود کہ شیطان ان تمام چالوں کو بُن رہا ہے پھر بھی محض دنیاوی نمود و نمائش، مادیت اور غرور و تکبر میں مبتلا اپنے نفس کو اس چنگل سے چھڑانے میں ناکام رہے ہیں۔ نجانے کتنے نام نہاد اور ڈھونگی باباؤں کی کہانیوں میں کیا کیا چھپا ہے؟ جو ان کی اپنی پسند اور ناپسند کے مطابق ہے یا ان کے اشاروں پر جو ان کی مٹھیاں گرم رکھتے ہیں۔ ہم کس قدر ناشکرے ہیں کہ سب جانتے ہیں کہ ہماری زندگی اور موت ہی نہیں بلکہ اس کے درمیان حالات اور واقعات ہمارے رب کے کنٹرول میں ہیں پھر بھی ہم اپنے ارد گرد کے ماحول سے متاثر ہوتے، لوگوں کے خوف کو اپنے حواسوں پر سوارکرتے حق اور سچ کا ساتھ دینے سے کتراتے ہیں۔ پہلو تہی کر لیتے ہیں، دوسری صورت میں اپنے حکم اور خواہشات کے تحت دوسروں کو اپنا تابع بنانے میں ہماری جبلت اپنا رنگ دکھاتی ہے، اس کی ہماری دنیا میں کئی مثالیں موجود ہیں۔ بات بارش کی تباہ کاریوں، قوم لوط سے ہوتی جادو، شعبدے بازی تک جا نکلی اور وہیں آ کر رکی کہ ہم اس خوب صورت خطے میں رہتے ہیں جسے پاکستان کہتے ہیں۔ جہاں کرپشن کا دور گرم، سیاست کا مزید گرم اور عوام بے چارے سر کجھا رہے ہیں کہ اب سوائے اس کے اور کیا ہو سکتا ہے کیونکہ ہم گزشتہ 78 سال سے یہی کر رہے ہیں۔ بد اعمالوں کو چھپانے اور باباؤں کو چڑھا کر کالے جادو کے دھوئیں میں خود ہی گھر رہے ہیں۔ کلاؤڈ برسٹ، گلیشیئرکا پھٹنا، سیلاب، طوفان اورکیا کچھ ہم دیکھ رہے ہیں۔ ہم غریب ہیں پر ہمارے پاس سونے کی کانیں ہیں، ہم بیرونی امداد کے منتظر رہتے ہیں، ہماری سڑکیں خستہ حال ہیں، پل لرز رہے ہیں، لوہے کے پلرز اکھڑ رہے ہیں اور ہم سب نادیدہ قوتوں کے زیر اثر ڈوب اور ابھر رہے ہیں ہم پورے ڈوب بھی سکتے تھے اور پورے ابھر بھی سکتے تھے، پر ہم گزشتہ 78 سالوں سے آزمائش کے مراحل میں ہیں۔ ہمیں کسی ایک منزل کا تعین کرنا ہوگا اور پُر یقین ہیں کہ مثبت جانب ہی قدم گامزن ہوں گے۔

اگر آپ اس خبر کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں۔

مزید تفصیل