Sunday, September 14, 2025
 

اداریہ بوجھ یا ضرورت؟

 



کیا اداریے کا دور بیت گیا؟اس مباحثے میں کئی امور زیر بحث آ رہے ہیں جیسے: 1۔ اداریہ اخبار میں سب سے کم پڑھا جانے والا مواد ہے۔ 2۔ دنیا بھر میں اداریے کی روایت دم توڑ رہی ہے اور دنیا کے کئی اخبارات اب اداریے کے بغیر شایع ہوتے ہیں۔ 3۔ اخبار بہ ذات خود زوال کا شکار ہے جس ادارے کا اپنا مستقبل ہی داؤ پر لگا ہو، اس سے وابستہ اصناف کا کیا ذکر؟ 4۔ چوتھا اور اہم ترین نکتہ یہ ہے کہ اداریے میں ہوتا ہی کیا ہے جو اس پر توجہ دی جائے؟ یہ سب سوالات وزن رکھتے ہیں لیکن اداریے کے مستقبل کے بارے میں کسی حتمی نتیجے پر پہنچنے سے قبل صحافت کی اس صنف کی تاریخ، روایت اور مقصد پر ایک نظر ڈال لینی چاہیے۔ اخبار اٹھارہویں صدی عیسوی کی دین ہیں، ابتدا میں یہ اپنے نام کی مناسبت سے صرف خبروں کی ترسیل تک ہی محدود تھے لیکن اٹھارویں صدی کے ختم ہوتے ہوتے مدیران نے اخباری مندرجات میں خبروں کی وضاحت اور اہم امور کے بارے میں اپنی رائے ظاہر کرنی شروع کی، یوں یہ صنف اداریہ کہلائی۔ برصغیر پاک و ہند میں یہ صنف تقریباً اسی وقت شروع ہو گئی جب انیسویں صدی میں اخبارات کی اشاعت شروع ہوئی۔ دنیا کے دیگر حصوں اور برصغیر کے اخبارات کے اداریے میں ایک نمایاں فرق تھا۔ اس عہد میں مغربی دنیا کے اپنے مسائل ہوں گے لیکن ایسے مسائل نہیں تھے جیسے برصغیر پاک و ہند کے تھے۔ برصغیر کے لوگ اس زمانے میں غیر ملکی استعمار سے نجات کے لیے جدوجہد میں مصروف تھے۔ اس لیے یہاں اخبار محض خبروں کی ترسیل کا ذریعہ نہیں بلکہ رائے عامہ کی تشکیل اور عوام کی تربیت کا ذریعہ بھی تھے۔ اس کا تیسرا مقصد متحارب سیاسی قوتوں سے نبرد آزمائی تھی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ برصغیر پاک و ہند کی صحافت اور اس کے اداریے کا کردار مغرب کی صحافت اور اداریے سے مختلف اور جامع تھا۔ برصغیر کی صحافت اور اس کے اداریے کا مزاج اسی ماحول کی پیداوار تھا۔ آزادی اور خاص طور پر قیام پاکستان کے بعد نئے ملک کی صحافت فطری طور پر اسی مزاج کے مطابق کام کرتی رہی۔ 'زمیندار' اور 'انقلاب' کے فائل پڑھتے ہوئے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ اخبار اور ان کے ذمے دار ہندو مسلم تقسیم کا شکاررہے ہیں۔ ان اخبارات کے مزاج کی ایک اور خوبی قومی اور بین الاقوامی امور کے بارے میں ان کی رائے ہے۔ ان معاملات میں کوئی نہ کوئی رائے رکھنا ان کے مزاج کا حصہ تھا جس میں اکثر اوقات شدت بھی پیدا ہو جاتی تھی۔ بعد کے برسوں پاکستانی خاص طور پر اردو اخبارات میں تبدیلی دکھائی دیتی ہے۔ زمانی تقسیم کے مطابق یہ زمانہ 1958 کے بعد یعنی ایوبی آمریت کے بعد کا ہے۔ اس زمانے میں ایک معاصر کے اداریے نے نام پیدا کیا۔اس اداریے کی خوبی یہ تھی کہ وہ قومی امور کے بارے میں دو ٹوک رائے اختیار کرتا تھا۔ اس وجہ سے جمہوریت پر یقین رکھنے والے حلقوں میں اسے وقار اور اعتبار حاصل ہوا۔ کم و بیش اسی زمانے میںایک اخبارنے مختلف نقطہ نظر اختیار کیااور مالیاتی امور کو زیادہ ترجیح دی ‘یوں اداریے کے ضمن میں نیا رجحان متعارف ہوا۔ یہ رجحان بہت دل چسپ تھا۔ اس اداریے میں مختلف امور کے بارے میں اظہار خیال تو کیا جاتا تھا لیکن دو ٹوک نقطہ نظر اختیار نہیں کیا جاتا تھا۔ یہ بھی اداریے کا ایک اسلوب تھا جو مغرب میں مقبول تھا۔ کوئی اخبار اگر اپنی پالیسی اور روّیوں میں غیر جانب دار ہے تو اس کے لیے اداریے کا یہ اسلوب بہترین ہے، اگر اس کے ذریعے قارئین کو کسی صورت حال کے بارے میں سمجھا دیا جائے۔ ساٹھ اور ستر کی دہائیوں کا زمانہ ہمارے یہاں نظریاتی صحافت اور اسی مزاج کے اداریے کے تعارف کا ہے۔ قیام پاکستان کے بعد 'پاکستان ٹائمز' اور ' امروز ' نے ترقی پسندانہ یا بہ الفاظ دیگر بائیں بازو کے نقطہ نظر کو فروغ دیا۔ جناب فیض احمد فیض اور جناب احمد ندیم قاسمی اوران سے قبل چراغ حسن حسرت نے اداریے کو وقار دیا تھا۔ان جیسی غیر معمولی شخصیات ان اخبارات کو بناتی اور سنوارتی تھیں۔ اپنے انداز فکر کے مطابق انھوں نے جو سوچا اور سمجھا، پوری قوت کے ساتھ سپرد قلم کر دیا۔ یوں گویا پاکستان میں نظریاتی صحافت شروع ہو گئی۔ اس صورت حال میں دائیں بازو والے حلقوں نے ضرورت محسوس کی کہ انھیں بھی اس میدان میں قدم رکھنا چاہیے لہٰذا 1960 کے آس پاس ' جناب اعجاز حسن قریشی اور جناب الطاف حسن قریشی نے 'اردو ڈائجسٹ 'شایع کیا۔ اس کے ساتھ ہی الطاف حسن قریشی کے اداریوں کا دور شروع ہوا۔ قریشی صاحب ' کچھ اپنی زباں میں'  کے عنوان سے اداریہ لکھتے تھے جن میں دائیں بازو کے نظریات کے مطابق انتہائی دو ٹوک مؤقف اختیار کیا جاتا تھا۔ دائیں بازو کے دیگر جرائد میں جو اداریہ لکھا، اس میں دلیل اور جذبے کا امتزاج تھا جس نے رائے عامہ تبدیل کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ یوں حالات کی تفہیم و وضاحت کے ساتھ استدلال کی طاقت نے اپنا رنگ جمایااورعبد الکریم عابد اور محمد صلاح الدین جیسے لائق ایڈیٹر اور پروفیسر متین الرحمن مرتضیٰ جیسے اداریہ نویس سامنے آئے۔ اخبار کے اداریے کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ اس میں ' اندر کی بات' موجود ہوتی ہے۔ صورت حال کو سمجھانے کے لیے اس کی وضاحت بیان ہوتی ہے۔ ایسا کرتے ہوئے حالات حاضرہ سے مثالیں پیش کی جاتی تھیں۔ یہ ایک نیا اسلوب تھا جس سے پیچیدہ حالات کی تفہیم بھی ہوتی تھی اور اس سے خود متعلقہ عہد کی تاریخ مرتب ہو جاتی تھی۔ اب آئیے، اسی، نوے اور بعد کی صحافت اور اس کے اداریے کی طرف۔ اس زمانے میں اداریے میں مصلحت آمیز رویے کا مظاہرہ ہوتے دیکھا۔ دوچار جملوں میں خبر پر مختصر سا تبصرہ کیا جاتا ہے یوں گویا اداریے کی رسم ادا ہو جاتی ہے۔ اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا اداریہ پاکستان کے اردو اخبارات(میں صحافت کہوں گا)کی ضرورت ہے؟ میری رائے میں بالکل ضرورت ہے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ پاکستان اپنے قیام کی پون صدی گزر جانے کے باوجود سیاسی شعور کے اعتبار سے زینے کے پہلے قدم پر کھڑا ہے۔ ہمارے یہاں عوام کی ہی نہیں سیاسی کارکن کی بھی جو ذہنی سطح ہے، وہ قابل رحم ہے۔ ہمیں اپنا ملک اور اس میں جمہوریت کو مستحکم کرنا ہے تو اس کے لیے سیاسی شعور میں پختگی ضروری ہے۔ دیگر عوامل کے علاوہ ماضی کی طرح اداریہ اب بھی اس میں بنیادی کردار ادا کر سکتا ہے۔ اس لیے بھلا اداریے کو غیر مقبول جان کر اسے ختم کر دینے میں نہیں بلکہ اس کا معیار بہتر بنانے میں ہے۔  اداریے کے خلاف ایک رائے یہ ہو سکتی ہے کہ اخبار غیر جانب دار ہوتا ہے۔ غیر جانبدار ادارہ کسی متنازع معاملے میں کوئی رائے کیسے اختیار کر سکتا ہے؟ اول تو یہ اعتراض ہی نا مناسب ہے لیکن اس پر بہر صورت اصرار ہے تو اس کے باوجود صورت حال کی غیر جانب داری سے وضاحت کے لیے اداریہ اب بھی ضروری ہے۔

اگر آپ اس خبر کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں۔

مزید تفصیل