Sunday, September 14, 2025
 

حکمت عملی کو تبدیل ہونا چاہیے!

 



کامیاب حکومتیں اور ریاستیں‘ اپنے دوستوں کی تعداد میں ہر دم اضافہ کرتی ہیں۔ بین الاقوامی تعلقات میں امن‘ یگانگت اور ہم آہنگی پیدا کرتی ہیں۔ تمام تنازعات جو ان کے ملک کے لیے مسائل پیدا کر سکتے ہیں، ان سے دور رہتی ہیں۔ ان خوش بخت حکومتوں کی صرف ایک شعوری کوشش بلکہ جدوجہد ہوتی ہے کہ شہری‘ محفوظ ‘ خوشحال اور ترقی کی راہ پر گامزن رہیں۔ یہ عام سی باتیں ہیں جو ہر خاص و عام کو سمجھ آتی ہیں ۔ مگر معاملہ بالکل سادہ نہیں ہے۔ جس طرح کی ریاستوں اور ان کے حکمرانوں کا میں ذکر کر رہا ہوں، وہ محدود ہیں۔ مغرب اور امریکا کے سوا سمجھدار اور دانا ریاستوں کا شدید فقدان ہے۔ المیہ یہ ہے کہ دنیا میں سطحی سوچ پر قائم حکومتوں کی تعداد اب بہت زیادہ بڑھ چکی ہیں۔ ایشیاء‘ مشرق وسطی‘ روس اور افریقہ اس منفی طرز حکومت کی کامیاب مگر بدقسمت مثالیں ہیں۔ شومئی قسمت سے ہمارا ملک‘ اس منفی فہرست میں شامل ہو چکا ہے جہاں دنیا کی ہرمصیبت مونہہ پھاڑ کر وسائل اور زندگیوں کو نگل رہی ہے۔ موجودہ یا کوئی بھی سابقہ حکومت  فلاحی نہیں کہی جا سکتی۔ملک کے پیچیدہ اور غیر پیچیدہ ‘ دونوں طرح کے مسائل ایک مخصوص طرز فکر کی بدولت حل نہیں کیے گئے۔ المیہ یہ ہے کہ جس حکمران نے لوگوں کے لیے کچھ بہتر کرنے کی کوشش کی‘ اسے دیوار میں چنوا دیا گیا۔ غدار ‘ کرپٹ‘ ملک دشمن‘ پیدا گیر اور ملکی سلامتی کے لیے خطرہ قرار دے دیا گیا۔ عوامی مسائل نہ پہلے کبھی اہم تھے اور نہ ہی آج ان کی اہمیت ہے۔ آپ کسی قسم کا حادثہ دیکھنا چاہیں تو وہ ہمارے ملک میں مونہہ سے آگ نکالتا ہوا نظر آئے گا۔ ساتھ ساتھ‘ ایک اور نکتہ بھی موجود ہے۔ خوفناک ترین سطح کی مصیبتوں کو حل کرنے کی کوئی بھی حکمت عملی دکھائی نہیں دے گی۔ خلوص نیت کا فقدان اپنی جگہ‘ مگر اب تو استطاعت پر بھی سنجیدہ سوالات موجود ہیں۔ حالیہ چند دنوں میں ہونے والے واقعات کو اگر غیر جذباتی طریقے سے پرکھیں ‘ تو دل دہل جاتا ہے۔ اقوام متحدہ میں اسرائیل کے مندوب کے جواب میں پاکستانی مندوب کی تقریر کو حد درجہ بہادرانہ جہت اور فتح کے طور پر پیش کیا جارہا ہے۔ ہاں ! آپ دونوں تقاریر کو سنیں تو کوئی شک نہیں کہ ہمارے سفیر نے الفاظ کے چناؤ اور ادائیگی میں حددرجہ محنت کی ہے۔ مگر صاحبان! یہ صرف تقاریر ہیں، محض الفاظ ہیں‘ اصل بات تو یہی ہے کہ اسرائیل اور امریکا ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں۔ مسلم قیادت ‘ اندر سے گھبرائی ہوئی ہے ، البتہ اسرائیل کی مذمت بھرپور طریقے سے کی گئی ہے اور آج بھی جاری ہے۔ سعودی عرب اور اردن بھی اس فضائی دہشت گردی کی طاقتور الفاظ میں مذمت کر رہے ہیں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ اسرائیلی طیارے کن ممالک کی فضائی حدود سے گذر کر قطر پر حملہ آور ہوئے ، سمجھداروں کے لیے اشارہ کافی ہے ۔ویسے اسرائیلی وزیراعظم بھی مسلم ممالک کے حکمرانوں کے بیانات پر قہقہے ضرور لگاتا ہو گا۔  پاکستان لفاظی مذمت کرنے میں بازی لے گیا اور اسرائیل کے سب سے زیادہ خلاف نظر آتا ہے۔ ہماری ملکی حکمت عملی پر حیرانی ہوتی ہے کہ ہم سے اپنا ملک تو سنبھالا نہیں جاتا‘ مگر ہم چھلانگیں لگا لگا کر‘ اپنے سے طاقتور ممالک کو اپنا ’’ازلی دشمن‘‘ بڑی کامیابی سے بنا رہے ہیں۔ زمینی حقائق کا ادراک کیے بغیر ہم ایک ایسے سفر پر روانہ ہونا چاہتے ہیں‘ جس سے ہمارے پہلے سے گمبھیر مسائل مزید گمبھیر ہو سکتے ہیں۔ دراصل سات دہائیوں سے ہمارے حکمرانوں نے‘ عوام کے ذہنوں میں مختلف طرز کے فوبیاز پیدا کیے ہیں حالانکہ پاکستان جمہوری ملک کے طور پر وجود میں آیا تھا۔ مگر اس کو مسلسل حالت جنگ میں رکھنے کا کام‘ حد درجہ عیاری سے کیا گیا۔ جذباتیت اور عقیدہ پرستی کا ملغوبہ اس طرح بنایا گیا کہ پوری قوم کے مسائل نظر انداز کر کے‘ نسلوں تک کی مخصوص ذہن سازی کردی گئی۔ کوئی ہمیں یہ بتانے کے لیے تیارنہیں کہ ایوب دور میں‘ آپریشن جبرالٹر‘ کیوں شروع کیاگیا؟ اس وقت کے وزیر خارجہ نے کس بنیاد پر ایوب کو یہ اعتماد فروخت کیا کہ ہندوستان بین الاقوامی سرحد کبھی عبور نہیں کرے گا۔ یوں 1965کی جنگ کا آغاز ہوا۔ انڈیا نے ہمارے ملک پر یلغار کر دی تھی۔ جو ایک کامیاب دفاع کے ذریعے‘ برابری کی سطح پر ختم ہوئی تھی۔ 1965کی جنگ کا اصل نقصان یہ تھا کہ ہماری حد درجہ کامیاب صنعتی ترقی کا پہیہ رک گیا۔ مگر کیا یہ سچائی ہمیں کسی سطح پر بتائی جاتی ہے؟ ہرگز نہیں‘ اگر آپ کو اس نکتہ پر اتفاق نہیں‘ تو بین الاقوامی سطح کے غیر جانبدار لکھاریوں اور اخبارات کو پڑھ کر دیکھ لیجیے۔ ہو سکتا ہے‘ آپ قائل ہو جائیں۔ بھارتی مقبوضہ کشمیر کو پاکستان میں شامل کرنے کا دانشمندانہ طریقہ یہ تھا کہ آزاد کشمیر کو ہم سوئٹزرلینڈ کی طرز پر ترقی کرواتے۔ اسے پوری دنیا کے لیے ایک مثبت مثال بنا دیتے۔ یقین فرمائیے کہ مقبوضہ کشمیر کو پاکستان میں شامل کرنے کے لیے کسی جنگ کی ضرورت نہیں تھی۔ اس سے آگے کیا لکھوں ‘ بلکہ کیوں لکھوں۔ 70کی جنگ کا نتیجہ کیا نکلا؟حمود الرحمن کمیشن رپورٹ کیوں چھپائی گئی ؟ کارگل میں ہمیں کتنا بھاری نقصان ہوا۔ یہ سب کچھ ‘ غیر مناسب طرز سے چھپانے کی ناکام کوشش کی گئی جو شاید آج تک جاری ہے۔ افغانستان کے ساتھ بھی ہمارے معاملات دشمنی تک محدود رہے ہیں بلکہ اب تو بات بہت بڑھ چکی ہے۔ روزانہ کی بنیاد پر ہمارے جوان جام شہادت نوش کر رہے ہیں۔ مگر دہشت گردی کم ہونے کو آ ہی نہیں رہی۔ بلکہ چندہفتوں میں تو اس میں حد درجہ بڑھاوا آ چکا ہے۔ یہ سچ ہے کہ ہمسایہ ممالک ہمارے دو صوبوں میں مسائل پیدا کر رہے ہیں۔ مگر پوچھنے کی جسارت کرنا چاہتا ہوں کہ اس خوفناک صورت حال سے نکلنے کا طریقہ کیا ہے؟ پاکستانی سفارت کاروں سے بات کریں تو نجی محفلوں میں ان کا جواب حکومتی بیانیے سے مختلف بلکہ متضاد ہوتا ہے۔  شاید آج آپ کو یقین نہ آئے کہ ہندوستان میں جنگی پریڈ پر ابتدائی دور میں مہمان خصوصی پاکستان کا گورنر جنرل ہوا کرتا تھا۔ قائداعظم کا یہ جملہ کہ ان کے مالا بار ہلز پر گھر کو صاف ستھرا رکھا جانا چاہیے تاکہ وہ اپنی چھٹیاں ہندوستان میں منا سکیں۔ ان الفاظ کا ذکر تک نہیں کیا جاتا۔ میری رائے صرف ایک ہے اور یہ تاریخ کے تناظر میں گندھی ہوئی ہے۔ ہندوستان سے بھرپور امن اور کامیاب تجارت کے بغیر‘ اس عذاب کے گرداب کو ختم کرنا ناممکن ہے۔ مگر جو سیاست دان‘ بھارت سے تعلقات کی بہتری کا ڈول ڈالے گا، اسے فوری طور پر غدار بنا دیا جائے گا۔ ہمارے جس بھی حکمران نے بھارت سے معاملات بہتر کرنے کی کوشش کی اسے حکومت سے ہاتھ دھونے پڑے۔ نواز شریف کی مثال دیکھ لیجیے۔ پرویز مشرف کے وزیر خارجہ نے کتاب لکھی ہے۔ اس میں برملا درج ہے کہ دونوں حکومتیں کشمیر کا تنازعہ تقریباً حل کر چکی تھیں۔ مگر پھر بین الاقوامی قوتوں کی مداخلت سے حکومتیں بدل دی گئیں۔ دلیل پر بات کیجیے ۔ دشمنی کی بھی کوئی حد ہوتی ہے۔ دنیا کی بہترین عسکری طاقت بھی پیہم جنگ نہیں لڑ سکتی۔ War Fatigueایک جامع سچ ہے۔ مگر یہاں کون ہمت کرے گا کہ ایسے فیصلے کر سکے‘ جن سے ملک میں امن قائم ہو پائے۔  آپ مانیں یا نہ مانیں ‘بھارت ایک بڑا ملک ہے۔ اس کی اقتصادی طاقت ہم سے بہت زیادہ ہے۔ کیا ہمارے حکمرانوں کو نہیں چاہیے کہ اس ملک سے بامعنی مذاکرات کریں۔ تجارت کھولنے میں اپنا کلیدی کردار ادا کریں۔ شاید اسی حکمت عملی سے ملک کے اندر دہشت گردی رک جائے؟ ہمسایوں سے صلح کرنے کے اقدامات کریں۔ شاید ہمارے حالات بہتر ہو جائیں! مگر یہ بات کوئی سنے گا نہیں اور مانے گا بھی نہیں!

اگر آپ اس خبر کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں۔

مزید تفصیل