Loading
اُردو اورفارسی میں وحشت و بربریت ، بد اخلاقی اور عالمی سفارتی قوانین کی خلاف ورزی کے مترادف جتنے بھی مروّج الفاظ پائے جاتے ہیں ، غاصب و صہیونی اسرائیل کا عملی کردار اِن سب پر پورا اُترتا ہے ۔ برسوں قبل جس کسی نے صہیونی اسرائیل کے وجود کو عالمِ عرب کی پیٹھ میں گھونپے ’’خنجر‘‘ سے تشبیہ دی تھی ، بے جا نہیں تھی ۔ ہمیں مذہبی طور پر بھی یہودیوں سے دوستی نہ کرنے کی جو نصیحت کی گئی ہے ، اسلام دشمن و مسلم دشمن اسرائیلی کردار نے اِسے ثابت بھی کر دیا ہے ۔ جن عرب و خلیجی مسلمان ممالک نے امریکی اشیرواد حاصل کرنے کے لیے اور امریکی دباؤ پر صہیونی اسرائیل کو( نام نہاد ابراہیم اکارڈ کے تحت) تسلیم کیا ہے اور اِس سے سفارتی تعلقات قائم کیے ہیں ، سبھی نے وقتاً فوقتاً اِس مبینہ ’’دوستی‘‘ کے نتائج دیکھ بھی لیے ہیں اور بھگت بھی لیے ہیں ۔ اِس سلسلے کا تازہ ترین سانحہ اور بھگتان 9ستمبر2025کو دیکھنے میں آیا ہے جب صہیونی اسرائیل نے عالمِ عرب کے ایک چھوٹے سے ملک ، قطر ،کے دارالحکومت (دوحہ) پر بِلا اشتعال حملہ کر دیا ۔ حملہ آور اسرائیل نے بہانہ یہ تراشا کہ ’’چونکہ دوحہ میں حماس کے کئی لیڈرز (بشمول خالد مشعل، سہیل الہندی اور خلیل الحیہ) ایک مخصوص عمارت میں پناہ لیے ہُوئے تھے، اس لیے ہم نے اِنہیں قتل کرنے کے لیے یہ حملہ کیا ہے۔‘‘ یہ بہانہ نہائت بے بنیاد اور بوداہے ۔ اِس حملے میں مذکورہ حماسی لیڈرز تو محفوظ رہے ، مگر اُن کے پانچ قریبی ساتھی(بشمول خلیل الحیہ کے صاحبزادے ھمام الحیہ) شہید ہو گئے ۔ گویا اسرائیلی ہدف اور انٹیلی جنس درست تھیں۔ اِس سے قبل صہیونی اسرائیل عالمِ عرب میں پھیلائے گئے اپنے جاسوسوں کی معرفت ایران اورلبنان میں اپنے کئی بڑے مخالفین کو شہید کر چکا ہے ۔ اِس بار بھی اُس کا نشانہ خطا نہیں گیا۔ قطر تو پچھلے کئی برس سے حماسی جنگجو لیڈرشپ اور غاصب اسرائیلی قیادت میں (صلح اور امن کے لیے ) مذاکرات کروا رہا ہے ، جس طرح قطر نے افغان جنگجوؤں ( طالبان) اور امریکیوں کے درمیان کامیاب مذاکرات کروائے تھے ۔گویا قطر کا امن سازی کے لیے کردار شاندار بھی رہا ہے اور عالمی سطح پر مصدقہ بھی۔ قطر اپنے ہاں امن کے لیے جو مذاکرات کرواتا رہا ہے ، اسے امریکا کی بھرپور سرپرستی بھی حاصل رہی ہے اور تعاون بھی ۔ گویا ہم کہہ سکتے ہیں کہ قطر ہر رُخ سے امریکا کا زبردست اتحادی اور ساتھی رہا ہے اور ہنوذ ہے۔ امریکا و قطر کی دوستی و اتحاد کس قدر مضبوط ہے، اِس کا اندازہ ایک مثال سے لگایا جا سکتا ۔ مئی2025کو امریکی صدر ، ڈونلڈ ٹرمپ، نے قطر کا دَورہ کیا تو امیرِ قطر (جناب تمیم بن حماد الثانی)نے محبت اوردوستی کا پائیدار ثبوت فراہم کرتے ہُوئے ٹرمپ صاحب کو 400ملین ڈالرز (ایک کھرب پاکستانی روپے) مالیت کا مہنگا ترین اور جدید ترین جیٹ طیارہ تحفے میں پیش کیا تھا ۔ یہ تحفے تحائف اور محبتیں مگر 9ستمبر کو قطر کے کسی کام نہ آئیں جب صہیونی اسرائیل نے قطر کے دارالحکومت پر ائر اسٹرائیک کر دیا۔ ڈھیٹ اور بے شرم اسرائیل مگر کسی ندامت کا مظاہرہ کیے بغیر کہہ رہا ہے : ’’جس طرح امریکا نے اپنے دشمن ، اسامہ بن لادن، کو قتل کرنے کے لیے اُس کے خفیہ ٹھکانے پر حملہ کرکے اُسے مارڈالا تھا، اِسی طرح ہم نے بھی دوحہ میں چھپے اپنے حماسی دشمنوں کو ختم کرنے کے لیے یہ حملہ کیا ہے ۔ اسامہ کو قتل کرنے کے لیے امریکی حملے کی کسی نے بھی مذمت نہیں کی تھی، بلکہ تعریف ہی کی تھی ۔‘‘گویا دوسرے الفاظ میں صہیونی اسرائیل بھی قطر پر اپنے وحشیانہ حملے کے لیے عالمی برادری سے تعریف و تحسین چاہتا ہے ۔ اور اِس میں کوئی شک بھی نہیں ہے کہ کئی مغربی ممالک اور امریکا نے اِس حملے کی مذمت نہیں کی ہے ، بلکہ بین السطور اِس کی حمائت ہی کی ہے۔ کیا یہ درست نہیں ہے کہ صہیونی و جارح اسرائیل نے اس لیے قطر پر حملہ کیا ہے کہ اُسے یقینِ واثق تھا کہ قطر پلٹ کر ، اسرائیل کو منہ توڑ جواب نہیں دے گا؟ آج قطر پر اسرائیلی حملے کو پورا ایک ہفتہ گزر چکا ہے ، مگر ہم دیکھتے ہیں کہ قطر کی طرف سے اسرائیل پر جوابی حملہ نہیں کیا گیا ہے ۔ اِس خاموشی کو کیا عنوان دیا جائے ؟ قطر پر بے جا اسرائیلی جارحیت اور قطر کی جانب سے منہ توڑ جواب نہ دیے جانے پر عالمی سطح پر کئی سوالات اُٹھائے جارہے ہیں ۔ مثال کے طور پر ممتاز عالمی عسکری جریدےDefence Security Asiaنے یوں لکھا ہے :’’ قطر وہ عرب ملک ہے جہاں(العدید کے علاقے میں)10ہزار سے زائد امریکی فوجیں، جدید ترین اسلحے کے ساتھ، تعینات ہیں۔ اِن امریکی افواج کا ہر وقت امریکی سینٹرل کمان سے عسکری رابطہ رہتا ہے ۔ سوال یہ ہے کہ اِس کے باوجود امریکی فوجی قطر پر اسرائیلی ہوائی حملہ کیوں نہ روک سکے؟ اور ان کا قطر میں موجودگی کا قطر کو کیا فائدہ پہنچا؟ کیا امریکا نے دانستہ اپنے ازلی حلیف، اسرائیل، کی بالادستی کے لیے قطر کو دھوکا نہیں دیا؟۔ ‘ یہ جریدہ مزید لکھتا ہے:’’قطر کے پاس رافیل، ٹائیفون، ایف 15 نامی جدید ترین امریکی ، برطانوی و فرانسیسی ساختہ جنگی طیارے بھی ہیں اور امریکی پیٹریاٹ میزائل بھی ہیں اور NASAMSہلاکت خیز میزائل بھی۔ یہ جنگی طیارے فضا میں حملہ آور اسرائیلی جنگی طیاروں کو تباہ بھی کر سکتے تھے اور میزائل قطری فضاؤں میں اسرائیلی میزائلوں کو روک کر فنا بھی کر سکتے تھے ۔ مگر ایسا کچھ بھی نہ ہُوا۔ آخر کیوں؟۔‘‘ قطر چونکہ پاکستان کا دیرینہ اور نہائت معتمد دوست و اتحادی ملک ہے اور قطر نے ہمیشہ پاکستان کی ہر آزمائش کے موقع پر مالی و سفارتی امداد بھی کی ہے ، اس لیے قطر پر اسرائیلی جارحیت سے ہر پاکستانی کا دل دُکھا ہُوا ہے۔ قطر سے انھی دیرینہ و برادرانہ تعلقات کی اساس پر ہمارے وزیر اعظم ، جناب شہباز شریف، فوری طور پر دوحہ پہنچے اور امیرِ قطر( تمیم بن حماد الثانی) سے ملاقات کر کے اظہارِ یکجہتی کیا ہے۔ متحدہ عرب امارات کے صدر اور سعودی ولی عہد بھی فوری طور پر قطر پہنچے اور قطری سربراہ سے تفصیلی ملاقات کی ہے ۔ ظاہر ہے اِن ملاقاتوں میں جارح اسرائیل کی اِس تازہ قابلِ مذمت جسارت ہی پر بات چیت کی گئی ہوگی اور آیندہ کا کوئی مضبوط لائحہ عمل طے کیا گیا ہوگا۔افسوس کی بات یہ بھی ہے کہ کئی عرب ممالک کی فضاؤں کی خلاف ورزی کرتے ہُوئے12 اسرائیل طیاروں نے قطر پر ہوائی حملہ کیا ہے ، لیکن کوئی بھی اسرائیل طیاروں اور میزائلوں کو روکنے کی جسارت نہ کر سکا۔ کیا یہ بے حسی ہے یا نااہلی؟ حیرت انگیز بات یہ بھی ہے کہ اسرائیل سے سفارتی تعلقات استوار کرنے والا کوئی بھی عرب یا خلیجی ملک اسرائیل سے سفارتی وتجارتی تعلقات منقطع کرنے کا اعلان نہیں کر پایا۔ حتیٰ کہ بحرین میں نیا اسرائیلی سفیر چارج لینے پہنچ گیا ہے ۔ بحرینی عوام اِس پر مشتعل ہو کر مظاہرے کررہے ہیں ، مگر بحرینی مملکت نئے اسرائیلی سفیر کو ملک سے نکل جانے کا حکم صادر نہیں کررہی ۔ صہیونی اسرائیل کے ہاتھوں قطر کی خود مختاری کی پامالی کو آج 7دن گزر چکے ہیں ، مگر او آئی سی بھی خاموش ہے ، جی سی سی بھی اور عالمِ عرب و عالمِ اسلام کی ہر تنظیم ، تحریک اور ادارہ بھی ۔ کیا اِس سے اسرائیلی جارحیت کو شہ نہیں مل رہی ؟ پچھلے 70برسوں کے دوران صہیونی اسرائیل فلسطین ، مصر، اُردن،شام، لبنان،یمن ، تیونس اور ایران پر حملے کر چکا ہے اور کئی عرب ممالک کی قیمتی اوراسٹرٹیجک زمینوں پر قبضے بھی کر چکا ہے۔ اسرائیل کے چاروں اطراف میں واقع، اسرائیل سے رقبے اور حجم میں کئی گنا بڑے، عرب و مسلم ممالک موجود ہیں ، مگر کوئی بھی اسرائیلی کے سامنے ٹکنے کے لیے تیار نہیں ہے ۔ اب عالمِ اسلام میں یہ سوال اُٹھایا جارہا ہے کہ قطر کے بعد کونسا اسلامی و خلیجی ملک اسرائیلی جارحیت کانشانہ بنے گا؟ قطر پر تازہ اسرائیلی حملے کے بعد آج 15ستمبر 2025کوقطر کے دارالحکومت میںایمرجنسی میں Arab Islamic Summit کا انعقاد ہو رہا ہے ۔ امیرِ قطر اِس عرب اسلامی سربراہی کانفرنس کی صدارت کریں گے ۔ دیکھتے ہیں اِس کے نتائج کیا نکلتے ہیں؟ خدا کرے مذکورہ’’عرب اسلامک سمّٹ‘‘ ہی عالمِ اسلام کے خوابناک اتحاد کا سندیسہ بن جائے ۔
اگر آپ اس خبر کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں۔
مزید تفصیل