Loading
‘‘پاکستان کے خلاف کسی صورت نہیں کھیلنا چاہیے، بی سی سی آئی دیش دروھی اور پیسے کا پجاری ہے، اے دیش سے کوئی مطب نہیں بس پیسہ چاہیے’’۔ ایشیا کپ شروع ہونے سے قبل ایسی کئی خبریں سامنے آئیں، سابق بھارتی کرکٹرز اور سیاستدانوں تک نے پاکستان کیخلاف نہ کھیلنے کا مطالبہ کیا، عوام کی بھی یہی خواہش تھی،البتہ ماضی کے برعکس اس بار بھارتی حکومت نے کسی تنقید کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے اعلان کر دیا کہ ملٹی نیشن ایونٹس میں پاکستان سے کھیلنے پر کوئی پابندی نہیں ہے، بورڈ نے بھی اس کی توثیق کر دی۔ سب کو لگا کہ اس کی وجہ 2024 سے 2031 تک کا 170 ملین ڈالر کا بھارتی براڈ کاسٹر کے ساتھ اے سی سی میڈیا رائٹس معاہدہ ہے۔ البتہ یہ بات سمجھ نہیں آ رہی تھی کیونکہ اس میں بی سی سی آئی کا شیئر بہت زیادہ نہیں ہے،-24 2023 کے مالی سال میں ہی اسے9741.7 کروڑ روپے کی آمدنی ہوئی تھی، پیسہ بے حساب ہے، ایشیا کپ کی آمدنی اس کیلیے مونگ پھلی کے چند دانوں جتنی ہوتی۔ اس نے تو ایک سال میں صرف آئی پی ایل سے ہی 5761 کروڑ روپے کمائے ہیں، پھر وہ کیوں سب کی مخالفت کے باوجود پاکستان سے میچ کھیلنے کیلیے بے چین ہو رہا تھا؟ اب سب کو اس سوال کا جواب مل چکا۔ جنگ میں ہارنے سے بھارتی عوام کا مورال بہت ڈاؤن ہے، وہ لوگ کرکٹ کو پوجتے ہیں ایسے میں توجہ بٹانے کا اس سے اچھا موقع کیا ملتا، انھیں یہ بھی اندازہ تھا کہ موجودہ پاکستانی ٹیم مضبوط نہیں، اسے ہرانا مشکل نہیں ہوگا لہذا ان عوامل کا استعمال بھارت نے اپنے جنگی جنون کیلیے کیا۔ ہاتھ نہ ملانا،محسن نقوی سے ٹرافی نہ لینا یہ سب کچھ اسی کی کڑی ہے، مجھے نیوٹرل شخصیات سے بھی پتا چلا کہ اے سی سی کی جانب سے فائنل سے قبل مسلسل 2 روز بھارتی بورڈ کے ساتھ رابطہ کر کے پوچھا گیا تھا کہ تقریب تقسیم انعامات میں محسن نقوی فاتح ٹیم کو ٹرافی دیں گے، آپ کو کوئی مسئلہ تو نہیں،اس پر انھوں نے کوئی اعتراض نہیں کیا۔ فائنل سے ایک روز قبل صدر اے سی سی کا بیان جاری ہوا جس کی اختتامی سطور میں واضح طور پر درج تھا کہ وہ فائنل دیکھیں گے اور فاتح کپتان کو ٹرافی بھی پیش کریں گے، اس پر بھی بی سی سی آئی کچھ نہ بولا۔ پھر میچ چلتا رہا تو اختتامی مراحل میں پیغام پہنچا دیا کہ ہمارے پلیئرز محسن نقوی سے کوئی ایوارڈ نہیں لیں گے،وہ بھی ڈٹ گئے اور ٹرافی اب تک بھارت کو نہیں ملی،اب بھارتی اکشے کمار یا سنی دیول کو ہیرو لے کر کوئی فلم بنا دیں جس میں ٹرافی آ کر لے جائیں۔ حقیقت میں ملنا آسان نہیں لگتا،اگر آپ معاملات کا جائزہ لیں تو یہ سب کچھ پاکستان کو نیچا دکھانے کیلیے بھارتی حکومت اور بورڈ کی سازش لگتی ہے،اگر پہلے ہی محسن نقوی کو اس بارے میں بتا دیا جاتا تو یقینی طور پر وہ کوئی متبادل انتظام کر لیتے۔ لیکن چونکہ بھارت یہ دکھانا چاہتا تھا کہ دیکھو ہم نے پاکستانی آفیشل سے ٹرافی نہیں لی اس لیے آخری وقت تک انتظار کیا، اسے یہ نہیں پتا تھا کہ محسن نقوی کوئی سمیر سید نہیں ہیں جنھیں چیمپئنز ٹرافی کی تقریب تقسیم انعامات میں بھی نہ بلاؤ تو کچھ نہیں ہوتا، وہ اب تک ڈٹے ہوئے ہیں کہ ٹرافی لینی ہے تو کپتان کو دبئی میں اے سی سی ہیڈکوارٹر بھیج دو۔ اب بھارت بھی تھوڑا خاموش ہوا ہے لیکن اندرونی طور پر یقینا سازشیں تیار کر رہا ہو گا،اس معاملے میں ہمارے لیے کئی سبق موجود ہیں، ایشین کرکٹ کونسل کی سربراہی پاکستان کو مل گئی لیکن وہاں کتنے پاکستانی ہیں؟ ایک اہم بھارتی آفیشل پل پل کی خبریں بی سی سی آئی اور جے شاہ کو دیتا رہا،ای میلز میں کیا لکھا گیا یہ سب بھی بھارتی سرکاری خبر رساں ایجنسی اور ویب سائٹس کی رپورٹس میں آیا۔ کم سے کم جب تک محسن نقوی سربراہ ہیں تب تک تو پاکستانی آفیشلز اے سی سی میں ہونے چاہیئں تاکہ بھارتی سہولت کاروں سے تو نجات ملے، ہر مشکل کا حل سلمان نصیر نہیں ہیں یہ بھی سمجھ لینا چاہیے انھیں پی ایس ایل کا سربراہ بنایا گیا اور وہ اس لیگ کے سوا ہرجگہ مصروف ہیں۔ ان کی جگہ اے سی سی میں کوئی اور ایسا آفیشل لانا چاہیے جو معاملات کو سمجھتا ہو، بھارت کی کوشش ہے کہ محسن نقوی کیخلاف عدم اعتماد کی تحریک پیش کر کے انھیں اے سی سی کے عہدے سے ہٹائے۔ پی سی بی کو اسے ناکام بنانے کیلیے لابنگ کرنی چاہیے، بھارتی بورڈ کے سیکریٹری سائیکیا تک غیرملکی میڈیا میں انٹرویوز دے رہے ہیں کہ پاکستان ہماری ٹرافی ساتھ لے گیا، پی سی بی میں سوائے محسن نقوی کے کیا کوئی اور وضاحت کیلیے سامنے آیا؟ کئی بڑے بھارتی کرکٹرز اس معاملے پر ہمیں برا بھلا کہہ رہے ہیں، ہمارے کتنے سابق کھلاڑی دفاع میں کھڑے ہوئے؟ کم از کم ان سابق اسٹارز سے تو بیان دلوا دیں جو بورڈ کے پے رول پر ہیں، باقی شاید کمنٹری یا دیگر وجوہات کی وجہ سے بھارت کو ناراض نہ کرنا چاہیں، آئی سی سی پر بھارتی راج ہے۔ بی سی سی آئی حالیہ معاملات کو نومبر کی میٹنگ میں اٹھانے کا اعلان کر چکا،اب وہ کوئی نئی سازش کرے گا، پی سی بی کو ابھی سے سدباب کرنے کیلیے اقدامات کرنے چاہیئں،اس وقت جو نفرت کا ماحول چل رہا ہے اگر 1،2 اور پاک بھارت میچز ہو جاتے تو شاید پلیئرز فیلڈ میں ہی گتھم گتھا ہوتے۔ بھارت نے اپنے پلیئرز کو بھی اتنا زہرآلود کر دیا کہ وہ ہاتھ تک نہیں ملانا چاہتے، کرکٹ ڈپلومیسی اب ماضی بن چکی، اب تو میچز دونوں ممالک کی لڑائی مزید بڑھا رہے ہیں، بھارتی حکومت نے جان بوجھ کر ایسا کیا اور پلیئرز کو اپنی نفرت کی آگ بھڑکانے کیلیے ایندھن کی طرح استعمال کیا۔ بی سی سی آئی ہمیں تنہا کرنا چاہتا ہے ایسا کسی صورت نہیں ہونے دینا، این او سی کے معاملے کو بھی سمجھداری سے ڈیل کریں، دنیا کی بیشتر لیگز پر بھارت کا قبضہ ہو چکا، ہمارے پلیئرز کو کم ہی مواقع ملتے ہیں، ایسے میں بگ بیش نے بلایا ہے تو جانے دیں۔ اگر ہم دوستوں کو بھی تنگ کرنے لگے تو وہ بھی اپنے ایونٹس میں مدعو نہیں کریں گے، پھر آپ نہیں بھیجیں گے تو پی ایس ایل کیلیے کون اپنے پلیئرز کو پاکستان بھیجے گا؟ محسن نقوی بھارت کی آنکھوں میں کھٹکتے ہیں وہ انھیں عہدے سے ہٹانے کی سازش کرے گا، پی سی بی کی آمدنی کا سب سے بڑا ذریعہ آئی سی سی شیئر ہے آئندہ اسے کم کرنے کی کوشش بھی ہوگی،اس سے نمٹنے کی ابھی سے تیاری کریں۔ دوسرے نمبر پر ہمارا بورڈ پی ایس ایل سے کماتا ہے، اسے مضبوط بنائیں ہمیں اپنی کرکٹ کو بھی بہتر بنانا ہوگا، اگر ہم ایشیا کپ میں تین میچز نہ ہارتے تو اس وقت کرکٹ میں بھی آگے ہوتے، ہمیں تگڑی ٹیم تشکیل دینی چاہیے تاکہ آئندہ جنگ کی طرح کرکٹ میں بھی بھارت کو ہرا سکیں، پھر اسے شور مچانے کیلیے ٹرافی جیسے ایشوز نہیں ملیں گے، امید ہے بورڈ ایسا ہی کرے گا۔ (نوٹ: آپ ٹویٹر پر مجھے @saleemkhaliq پر فالو کر سکتے ہیں)
اگر آپ اس خبر کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں۔
مزید تفصیل