Sunday, October 05, 2025
 

ٹرمپ کا غزہ امن منصوبہ ۔۔۔ مقاصد حاصل ہوسکیں گے؟؟

 



امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے پیش کردہ 20 نکاتی غزہ امن منصوبہ اس وقت دنیا بھر میں موضوع بحث بنا ہوا ہے۔ وزیرِ خارجہ اسحاق ڈار نے اس منصوبے پر ردِعمل دیتے ہوئے کہا ہے کہ اس کے نکات ہماری تجاویز سے مختلف ہیں، اس لیے یہ پاکستان کے لیے قابلِ قبول نہیں۔ حماس نے بھی اس منصوبے میں ترمیم کا مطالبہ کیا ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ کے غزہ امن منصوبے کا تفصیلی جائزہ لینے کے لیے ’’ایکسپریس فورم‘‘ میں ایک خصوصی مذاکرے کا اہتمام کیا گیا جس میں ماہرینِ امورِ خارجہ اور سیاسی و دفاعی تجزیہ نگاروں کو مدعو کیا گیا۔ فورم میں ہونے والی گفتگو نذرِ قارئین ہے۔ پروفیسر ڈاکٹر محبوب حسین (ڈین، فیکلٹی آف آرٹس اینڈ ہیو مینیٹیز ، جامعہ پنجاب) ڈونلڈ ٹرمپ نے امن کا ایک منصوبہ پیش کیا ہے تاہم یہ فی الحال کوئی باقاعدہ معاہدہ نہیں بلکہ ایک ابتدائی خاکہ ہے جسے عملی شکل دینے میں وقت درکار ہوگا۔ غزہ کے تنازع میں دو بڑے فریق ہیںِ، ایک اسرائیل اور دوسرا حماس۔ اسرائیل اپنے مظالم کی نئی داستانیں رقم کر چکا ہے جبکہ حماس اس کے خلاف مزاحمت کر رہی ہے۔ اب اسرائیل کا مطالبہ ہے کہ حماس غیر مسلح ہو جائے جو کسی صورت حماس کے لیے قابلِ قبول نہیں ہوسکتا۔ میرے نزدیک موجودہ خونریز صورتِ حال میں مسئلہ فلسطین اور غزہ کا مذاکرات کی میز پر آنا خوش آئند اور بہتر قدم ہے کیونکہ دنیا کے بڑے سے بڑے تنازعات اور جنگیں بھی بالآخر مذاکرات ہی کے ذریعے ختم ہوئی ہیں۔ اسرائیل کے مذاکرات پر آمادہ ہونے کے پس منظر میں یورپی ممالک اور مسلم دنیا کا اہم کردار ہے۔ یورپ میں عوام کی بڑی تعداد فلسطین کے حق میں سڑکوں پر نکلی، ان کی حمایت میں بلند ہونے والی آوازوں نے امریکا اور اسرائیل دونوں پر دباؤ بڑھایا۔ خود اسرائیل کے اندر بھی مظالم کے خلاف بڑے پیمانے پر احتجاجی مظاہرے ہوئے۔ اسی طرح اسلامی ممالک کا فلسطین کے ساتھ کھڑا ہونا اور امریکی صدر ٹرمپ سے ان کی براہِ راست ملاقات کا بھی خاص اثر ہوا۔ دنیا بھر میں انسانی حقوق کی تنظیموں، سول سوسائٹی، طلبہ، نوجوانوں اور عوام نے اسرائیلی مظالم کے خلاف آواز اٹھائی۔ اس عوامی دباؤ نے عالمی رائے عامہ کو ہموار کیا اور بالآخر اسرائیل کو مذاکرات پر مجبور ہونا پڑا۔ ٹرمپ کے غزہ امن منصوبے میں فلسطین کو بطورِ خودمختار ریاست تسلیم کرنے کا پہلو ابہام کا شکار ہے۔ اگرچہ منصوبے کے تحت اسرائیلی افواج غزہ کی پٹی میں داخل نہیں ہوں گی، لیکن سکیورٹی کی ذمہ داری اسرائیل کے پاس رہے گی، جو خودمختاری کے اصول کے منافی ہے۔ معاہدے کے تحت ایک ’’امن بورڈ‘‘ قائم کیا جائے گا مگر یہ واضح نہیں کہ اس کے قواعد و ضوابط اور دائرہ اختیار کیا ہوں گے۔ فوری جنگ بندی کا اعلان ایک اہم پیش رفت ہے تاکہ فلسطینیوں کا ناحق خون بہنا بند ہو، ان تک امداد پہنچے اور انہیں بنیادی انسانی حقوق حاصل ہوں۔ پاک بھارت جنگ کے بعد پاکستان عالمی منظرنامے پر ایک اہم اور مؤثر ملک کے طور پر ابھرا ہے۔  پاک سعودی تعاون کے بعد پاکستان عرب دنیا میں قائدانہ کردار ادا کر رہا ہے۔ فلسطین کے مسئلے پر بھی دنیا پاکستان کو ایک بڑے اسٹیک ہولڈر کے طور پر دیکھ رہی ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ ایک غیر متوقع اور غیر روایتی شخصیت ہیں، اس لیے پاکستان کو نہایت محتاط انداز میں اپنی سفارتی حکمتِ عملی آگے بڑھانی چاہیے۔ محمد مہدی (ماہر امور خارجہ) غزہ کے حوالے سے جو کچھ ہو رہا ہے یہ فوری طور پر نہیں ہوا بلکہ طویل عرصے سے معاملات چل رہے تھے جنہیں اب سمیٹنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ اس میں ہزاروں فلسطینیوں کی قربانیوں اور حماس کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ آخری مرتبہ جب باقاعدہ انتخابات ہوئے تھے تو حماس نے کلین سویپ کیا تھا اور اسماعیل ہنیہ وزیر اعظم بنے تھے۔ امریکا اور اسرائیل جو مرضی چاہیں کریں، پاکستان کو یہ ملحوظِ خاطر رکھنا ہوگا کہ اس کا اثر مسئلہ کشمیر پر بھی پڑے گا۔ اگر اس میں فلسطینیوں کے بنیادی حقوق اور حریت کو ختم کرنے کی کوشش کی گئی تو کشمیر کی حریت بھی اس سے متاثر ہوگی۔ یہ بات واضح ہونی چاہیے کہ جن آٹھ ممالک کے سربراہان نے ڈونلڈ ٹرمپ سے ملاقات کی، ان میں سے پاکستان واحد ایسا ملک ہے جس نے شروع دن سے ہی اسرائیل کے وجود کو تسلیم نہیں کیا اور نہ ہی اس کے ساتھ کوئی تعلقات قائم کیے۔ فلسطین کے معاملے پر پاکستان اور ایران کے درمیان بھی بات چیت ہوئی ہے۔ اسلامی ممالک کے سربراہان کی ملاقات سے پہلے بھی پاکستانی اور ایرانی سفارتکار رابطے میں تھے۔ چند روز قبل پاکستان اور ایران کے وزرائیِ خارجہ کا رابطہ ہوا ہے۔ ایران نے پہلے اسرائیل کو تسلیم کر رکھا ہے، 1979ء کے بعد اس نے اپنا موقف تبدیل کیا اور اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات منقطع کیے۔ ہمارے لیے قائد اعظمؒ کا اسرائیل کے بارے میں موقف مشعلِ راہ ہے اور یہی پاکستان کی پالیسی ہے۔ٹرمپ کے غزہ امن منصوبے میں خودمختار ملک کا ذکر نہیں ہے۔ ٹونی بلیئر کے حوالے سے بھی اسلامی ممالک کو تحفظات ہیں۔ اس نے اسلامی دنیا خصوصاً عراق میں جو کچھ کیا وہ سب کے سامنے ہے۔ یہ باتیں کسی کو ہضم نہیں ہو رہیں لہٰذا مسلم ممالک کو ٹھوس انداز میں آگے بڑھنا چاہیے۔ اسلامی ممالک نے ٹرمپ کے منصوبے پر کہا ہے کہ اس میں ہماری تجاویز شامل نہیں۔ میرے نزدیک یہ کہہ دینا کافی نہیں ہے بلکہ جو نکات شامل نہیں کیے گئے انہیں سامنے لایا جانا چاہیے۔ انڈونیشیا کے صدر نے اقوامِ متحدہ میں اپنے خطاب کے دوران 20 ہزار فوجیوں کو فلسطین بھیجنے کا ذکر کیا۔ پاکستان اور دیگر اسلامی ممالک سے بھی فوج بھیجنے کی باتیں ہو رہی ہیں جبکہ سعودی عرب اور قطر مالی تعاون کریں گے۔ فلسطینیوں کی پاکستان کے ساتھ الگ نوعیت کی وابستگی ہے کیونکہ پاکستان شروعِ دن سے ان کے ساتھ کھڑا ہے۔ اب اگر وہاں فوج بھیجی جاتی ہے تو اسے کیسے قبولیت ملے گی؟ کسی کو بھی اپنے ملک میں بیرونی فوج پسند نہیں ہوتی۔اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو قابلِ اعتبار شخص نہیں۔ پہلے بھی جنگ بندی ہوئی لیکن اسرائیل نے اس پر عمل نہیں کیا۔ نیتن یاہو نے اقوامِ متحدہ میں اپنی تقریر میں دھمکیاں دیں،ا ن کی تقریر کا دنیا نے بائیکاٹ کیا۔ ٹرمپ کے منصوبے کے تحت قائم ہونے والی وہ ریاست عجیب ہو گی جس کی نہ اپنی حکومت ہوگی اور نہ ہی فوج۔ میرے نزدیک پاکستان کی اس وقت یہ کوشش ہے کہ جنگ بندی ہو جائے تاکہ لوگوں کی قیمتی جانوں کا ضیاع روکا جا سکے اور ان کے معمولاتِ زندگی بحال ہو سکیں، لیکن سوال یہ ہے کہ سب کچھ اسرائیل اور امریکا کے ہاتھ میں دے کر امن کیسے ممکن ہے؟ ٹرمپ گارنٹی دے رہے ہیں کہ اسرائیل کچھ غلط نہیں کرے گا لیکن ٹرمپ کی گارنٹی کون دے گا؟ اقتدار میں آنے کے بعد سے جو کچھ ٹرمپ نے کیا ہے اس پر عالم جہاں میں تشویش پائی جاتی ہے، وہ اپنی کسی بھی بات پر کھڑے نہیں رہے لہٰذا پاکستان کو سوچ سمجھ کر آگے بڑھنا ہوگا۔ہم نے یہ بارہا کہا کہ دوحہ معاہدہ ہم نے کرایا لیکن طالبان کا کہنا ہے کہ پاکستان اس میں شامل نہیں تھا۔ اب بھی کہیں ایسا نہ ہو کہ پاکستان کوشش کرے، معاہدہ کرائے، امن لائے مگر خود کہیں موجود نہ ہو۔ امریکا کو اس وقت نایاب معدنیات اور پاکستانی فوج کی ضرورت ہے۔ اس حوالے سے ابھی بہت سے معاملات طے ہونے ہیں۔ پاکستان کو اپنے مقاصد واضح رکھنے چاہئیں اور امریکا کے ساتھ محتاط انداز میں آگے بڑھنا چاہیے۔ میرے نزدیک سفارتی حوالے سے ہماری صلاحیت کا مسئلہ ہے۔ جو لوگ کام کر رہے ہیں ان میں شاید قابلیت کی کمی ہے یا یہ ان کا شعبہ نہیں۔ اگر معاملات اسی طرح آگے بڑھتے گئے تو یہ گلے پڑ جائیں گے۔ جنرل (ر) ایوب خان، جنرل (ر) یحییٰ خان، جنرل ضیاء الحق اور پھر جنرل پرویز مشرف، سب کو عالمی سطح پر عزت ملی، معاملات آگے بڑھے اور تعاون ملا، مگر بعد میں یہی معاملات ان کے لیے نقصان کا باعث بنے۔ لہٰذا ہماری سول اور ملٹری قیادت کو بڑی سمجھداری اور بردباری کے ساتھ آگے بڑھنا ہوگا۔ اس وقت فلسطین کے حوالے سے ایک یا دو ریاستی حل کی باتیں چل رہی ہیں۔ زیادہ ممالک دو ریاستی حل کے حق میں ہیں۔ حل جو بھی ہو، یہ ملک خودمختار ہونا چاہیے اور اس کی فوج بھی اپنی ہی ہونی چاہیے۔ ٹرمپ کے منصوبے کے تحت کسی مسلم ملک سے چیف ایگزیکٹو کی تعیناتی کی تجویز بھی زیرِ غور ہے جس میں پاکستانی نام بھی شامل ہے لہٰذا ہمیں ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر نہیں بیٹھنا چاہیے۔ دنیا ہماری طرف دیکھ رہی ہے، ہمیں قیادت کرنی ہے لہٰذا اس انداز میں کام کو تیز کرنا ہوگا۔ مئی 2025کے بعدسے دنیا کی نظریں ہم پر ہیں۔ پہلے ہم نے شریف اللہ کو پکڑ کر امریکا کے حوالے کیا تو ٹرمپ نے کانگریس میں ہماری تعریف کی۔ پاک بھارت جنگ کے بعد سے ٹرمپ ہر فورم پر پاکستان کی تعریف کر رہے ہیں۔ اس میں نایاب معدنیات اور تجارتی معاملات بھی شامل ہیں۔ پاکستان امریکا کے ایسے علاقوں سے سویابین خرید رہا ہے جہاں سے ٹرمپ کو ووٹ ملا، اس پر ٹرمپ کافی خوش ہیں۔ امریکا کی طرف سے فی الحال پاکستان کے ساتھ 500 ملین ڈالر کی مفاہمتی یادداشت پر دستخط ہوئے ہیں مگر ابھی تک پاکستان کو واضح فائدہ نہیں پہنچا۔ کرنل (ر) عابد لطیف (دفاعی تجزیہ کار)  اسرائیل دنیا کا واحد ملک ہے جو دھونس اور ظلم کے ذریعے علاقے میں تبدیلی لانا چاہتا ہے۔ وہ اپنے اردگرد کے بارڈرز کو تسلیم نہیں کرتا۔ وہ کسی عالمی معاہدے یا قانون کی پاسداری نہیں کرتا بلکہ اپنے مفادات کے لیے اردگرد کے ممالک میں اپنا اثر و رسوخ برقرار رکھنا چاہتا ہے۔ قطر پر حملہ بھی اسی سوچ کا عکاس ہے۔ ٹرمپ کا غزہ امن منصوبہ ایسا پھل ہے جس کے چاروں طرف کانٹے ہیں۔ اس میں دیکھنا یہ ہے کہ کون سا کانٹا نکالا جائے اور کیسے نکالا جائے تاکہ پھل بھی خراب نہ ہو اور کانٹا بھی نکل جائے۔نیتن یاہو نے اقوامِ متحدہ میں اپنی تقریر میں دھمکیاں دیں۔ اب ایسے امن منصوبے کی بات ہو رہی ہے جس کی سکیورٹی اسرائیل کے پاس ہوگی اور غزہ میں حماس کا کوئی کردار نہیں ہوگا۔ اس منصوبے کے تحت حماس کو خود کو غیر مسلح کرنا اور یرغمالیوں کو رہا کرنا ہوگا۔ وہاں غیر سیاسی ٹیکنوکریٹس کی کمیٹی ہوگی یعنی ایک سیاسی معاملے کو غیر سیاسی لوگ ڈیل کریں گے۔ مسئلہ فلسطین اور غزہ کے حوالے سے دو ریاستی حل کی باتیں ہو رہی ہیں۔ اس وقت اسرائیل کا نیا مائنڈ سیٹ ہے۔ وہ نئے مشرقِ وسطیٰ کے فارمولے پر کام کر رہا ہے۔ امریکا مکمل طور پر اسرائیل کے ساتھ ہے۔ دونوں مل کر عالمی سطح پر اپنا کھیل کھیل رہے ہیں۔ ٹرمپ کے امن منصوبے میں حماس شامل نہیں اور حماس نے اس میں ترامیم کا کہا ہے۔ میرے نزدیک یہ امن منصوبہ نہیں بلکہ اسرائیل اور نیتن یاہو کے مفادات کے تحت کیا جا رہا ہے۔فلسطین اور کشمیر کے ساتھ ہماری جذباتی وابستگی ہے۔ ہمارا اسرائیل کے بارے میں ٹھوس اور واضح موقف قائدِ اعظمؒ کی بنیاد پر ہے۔ ہمارے لیڈروں کی تقاریر میں کشمیر اور فلسطین کا ذکر لازمی ہوتا ہے۔ مسئلہ فلسطین کا کوئی بھی حل آسان نہیں ہوگا۔ اسرائیل واحد وہ ملک ہے جو نسلِ کشی کے الزامات کو بطورِ حربہ استعمال کر رہا ہے۔ پاکستان چاہتا ہے کہ وہاں امن قائم ہو، خونریزی بند ہو اور لوگوں کی قیمتی جانوں کا ضیاع روکا جائے۔ 

اگر آپ اس خبر کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں۔

مزید تفصیل