Loading
مشرق وسطی کی ڈرامائی پیش رفت محمد اسمعیل میرٹھی کے اس شعر پر صادق آتی ہے ؎ یہ دو دن میں کیا ماجرا ہو گیا کہ جنگل کا جنگل ہرا ہو گیا جس تیزی سے یہ سب کچھ ہوا ہے، اس سے لگتا تو یہی ہے کہ سیٹی بجی اور کھیل شروع ہو گیا لیکن یہ معاملہ اس عورت کی تکلیف سے زیادہ مشکل تھا جو اپنی جان جوکھوں میں ڈال کر ماں بنتی ہے۔ یہ جنگ کیسے شروع ہوئی، اس کا کوئی جواز تھا یا نہیں، اس بحث کا یہ وقت نہیں کیوں کہ مسلم دنیا کے سامنے سب سے بڑا چیلنج یہ تھا کہ کسی نہ کسی طرح غزہ میں نسل کشی کا خاتمہ کیا جائے۔ اس جنگ کے خاتمے کے لیے مختلف فریقوں کے ذہن میں مختلف فارمولے تھے۔ انسان دشمن اور طاقت ور جارح اسرائیل کا منصوبہ تھا کہ غزہ کو اسرائیل میں شامل کر لیا جائے۔ امریکی صدر ٹرمپ اپنے کاروباری ذہن کے مطابق اس سرزمین کے بارے میں کچھ منصوبے رکھتے تھے جن کا اظہار وہ وقتاً فوقتاً کرتے رہے ہیں۔ تیسرا اور اصل فریق حماس تھی جو خطے میں پیدا ہو جانے والے حالات کی وجہ سے تنہائی کا شکار ہو چکی تھی۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں جنگ کی قرارداد چھ بار ویٹو ہو چکی تھی۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ اقوام متحدہ کا ادارہ خون ریزی کو روکنے میں ہمیشہ کی طرح ناکام ہو چکا تھا۔ غزہ میں جنگ خون ریزی روکنے کے لیے سلامتی کونسل میں صرف ایک قرارداد ہی منظور ہو سکی، یہ اس وقت ہو سکا تھا جب پاکستان اپنی ٹرم پر اس ادارے کا غیر مستقل ممبر تھا۔ اس اجلاس کی صدارت کا اعزاز بھی پاکستان کے وزیر خارجہ کو حاصل ہوا تھا۔ یہ واحد قرارداد ہے جو اس ضمن میں اس ادارے نے منظور کی لیکن جنگ بندی کا ہدف اس کے باوجود دور رہا۔ بہ ظاہر دکھائی یہ دیتا ہے کہ جنگ بندی کے سلسلے میں اصل پیش رفت اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس کے موقع پر ہوئی جب آٹھ مسلمان ملکوں کی قیادت کی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ساتھ میٹنگ ہوئی۔ ان ملکوں میں پاکستان ، ترکی، سعودی عرب، قطر، متحدہ عرب امارات، مصر، انڈونیشیا اور اردن شامل تھے۔ یہ اجلاس فیصلہ کن ثابت ہوا لیکن اس سے قبل جو کچھ ہوا، وہ اگر نہ ہوتا تو اس اجلاس کی نوبت ہی نہ آتی۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے متصل قبل خطے میں ایک اور تبدیلی رونما ہوئی۔ یہ تبدیلی پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان دفاعی معاہدہ تھا جس نے خطے میں طاقت کا توازن ہی بدل کر رکھ دیا۔ نائب وزیر اعظم اور وزیر خارجہ اسحاق ڈار نے اس معاہدے کے بارے میں توقع ظاہر کی ہے کہ یہ دفاعی معاہدہ مسلم نیٹو کی بنیاد ثابت ہو گا کیوں کہ اس میں بہت سے دیگر مسلمان ملک بھی شامل ہونے کی خواہش رکھتے ہیں۔ اسلامی بلاک کے قیام کے ضمن میں یہ پیش رفت معمولی نہیں لیکن یہ مستقبل کا معاملہ ہے۔ سردست اس معاہدے کے فوری اثرات پیش نظر ہیں۔ پاکستان سعودی عرب معاہدے کو پاکستان میں عوامی سطح پر مختلف تناظر میں دیکھا گیا۔ اس ضمن میں سوشل میڈیا پر جو مباحث ہوئے، وہ خوش گوار نہیں تھے لیکن جب ایران نے بھی اس معاہدے کا خیر مقدم کر دیا اور خود بھی اس میں شمولیت کی خواہش ظاہر کی تو شکوک وشبہات کا غبار چھٹ گیا۔ پاکستان اور سعودی عرب کا دفاعی معاہدہ وہ شاہ کلید ہے جس نے بڑے بڑے منصوبوں کو پلٹ کر رکھ دیا۔ یہ منصوبے وہی ہیں جن کی طرف اس جائزے کے شروع میں اشارہ ہوا ہے یعنی غزہ کا اسرائیل میں انضمام یا صدر ٹرمپ کی کاروباری خواہشات کی تکمیل کے لیے اہل فلسطین کو وطن بدر کر کے غزہ کی تعمیر و ترقی۔ سورہ آل عمران میں فرمایا گیا ہے کہ ایک تدبیر دشمن نے کی اور ایک تدبیر اللہ نے کی۔ یقیناً وہی بہترین تدبیر کرنے والا ہے۔ اللہ تعالی ہی بہتر جانتے ہیں لیکن محسوس یہی ہوتا ہے کہ پاک سعودی معاہدہ وہی تدبیر ثابت ہوا جس نے دشمن کے منصوبے الٹ کر رکھ دیے۔ مشرق وسطیٰ میں طاقت کا توازن بدلنے والا یہی منصوبہ ہے جو گیم چینجر ثابت ہوا اور فیصلہ سازوں یعنی امریکا نے جنگ بندی کے بارے میں سنجیدگی سے سوچنا شروع کیا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ پاکستان سعودی عرب دفاعی معاہدہ بیس نکاتی ٹرمپ امن فارمولے کی تمہید ثابت ہوا۔ پاکستان سمیت مسلم دنیا کے آٹھ اہم ترین ممالک جنگ بندی کے سلسلے میں جب امریکا کو انگیج کر رہے تھے یا اس سے انگیج ہو رہے تھے، کیا ائیسولیشن میں ایسا کر رہے تھے یا وہ حماس سے بھی رابطے میں تھے؟ عین ان ہی دنوں اسحاق ڈار نے کہا تھا کہ ایک مسلمان ملک کے ذریعے حماس نے یقین دلایا ہے کہ وہ جنگ بندی کی اس کوشش کو ڈی ریل نہیں کریں گے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ مسلم دنیا کی یہ سرگرمی نہایت سوچی یا سمجھی تھی جس میں حماس کی مشاورت بھی شامل تھی۔ ٹرمپ کے بیس نکاتی فارمولے کے بارے میں شکوک و شبہات پہلی بار اس وقت پیدا ہوئے جب پاکستان میں یہ معاملہ داخلی سیاست کا شکار ہوا۔ اس ضمن میں بہت سے اعتراضات ہوئے اور حکومت کو دباؤ میں لانے کی کوشش کی گئی۔ حکومت اس دباؤ کا شکار ہوئی جب اس نے یہ کہا کہ ٹرمپ کے جاری کردہ نکات وہ نہیں ہیں جن پر اتفاق رائے ہوا تھا۔ اس موقع پر دیگر مسلمان ممالک پاکستان کی مدد کو بھی آئے۔ اس صورت حال میں ایک اور مشکل مرحلہ اس وقت پیدا ہوا جب صدر ٹرمپ نے حماس کو اتوار تک کی ڈیڈ لائن دیتے ہوئے ناقابل یقین تباہی کی دھمکی دی۔ ٹرمپ ایسے معاملات میں ناقابل یقین رہے ہیں اس لیے خدشہ محسوس کیا گیا کہ کہیں غزہ کی مشکلات میں مزید اضافہ نہ ہو جائے لیکن حماس نے اس موقع پر دانش مندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کچھ ردو بدل کے ساتھ ٹرمپ امن منصوبے کو تسلیم کرنے کا اعلان کر دیا۔ اس سے دو باتیں ثابت ہوتی ہیں: ۱۔ جنگ بندی کی یہ کوششیں حماس کے اعتماد کے ساتھ ہو رہی تھی۔ جن میں پاکستان کا کردار کلیدی ہے۔ ۲۔امن فارمولا ایک ہی تھا جس پر حماس سمیت سب متفق تھے۔ دنیا کے ہر کام یاب فارمولے میں ایڈجسٹمنٹ کی گنجائش ہوتی ہے۔ یہ گنجائش اس فارمولے میں بھی تھی۔ اس سلسلے میں ٹرمپ سمیت سب نے ذمے داری کا مظاہرہ کیا۔ اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ حماس کا مستقبل کیا ہو گا؟ مسئلہ فلسطین بلکہ فلسطین کی آزادی کا دار و مدار اسی سوال سے وابستہ ہے۔ امن فارمولے کا نکتہ نمبر 19 اس کی وضاحت کرتا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ فلسطین کی خود مختار ریاست کے قیام کے لیے مذاکرات کا راستہ کھولا جائے گا۔ اس نکتے کو نکتہ نمبر 8 کے ساتھ ملا کر پڑھا جائے تو صورت حال واضح ہوتی ہے۔ اس نکتے میں معاہدے کو تسلیم کرنے والوں کو امان دی گئی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ فلسطین میں اب سیاسی جدوجہد شروع ہو گی۔ جناب خورشید احمد ندیم نے کبھی حسرت کے ساتھ کہا تھا کہ کاش فلسطین کو بھی قائد اعظمؒ جیسا کوئی راہ نما ملا ہوتا۔ حماس نے امن فارمولا تسلیم کر کے یہ راستہ کھول دیا ہے۔
اگر آپ اس خبر کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں۔
مزید تفصیل