Sunday, October 05, 2025
 

موراں سرکار!

 



مہاراجہ رنجیت سنگھ 1780میں گوجرانوالہ میں پیدا ہوا۔ اوائل عمری ہی سے مشکلات کا سامنا کرنا شروع کر دیا۔عجیب بات ہے کہ کسی قسم کی کوئی تعلیم حاصل نہیں کی ۔ صرف گرمکھی زبان پڑھ سکتا تھا اور لکھتا بھی تھا۔ دوسرا پہلو یہ تھا کہ بچپن سے ہی گھڑ سواری ‘ نیزہ بازی اور تلوار چلانے کی مہارت حاصل کر چکا تھا۔ بارہ سال کا تھا کہ والد مہا سنگھ انتقال کر گئے ۔والدہ راج کور اور لکھپت رائے نے جاگیر سنبھالنے میں بہت مدد کی ۔ تیرہ سال کی عمر میں اس پر پہلا قاتلانہ حملہ ہوا۔ مگر کمال بہادری سے رنجیت سنگھ نے حملہ آور کو قتل کر ڈالا ۔ یہ وہ زمانہ تھا جب مغل سلطنت زوال پذیر ہو چکی تھی ۔ شمال مغربی علاقوں سے آنے والے مسلح جتھے اکثر شہروں پر حملہ کر کے لوٹ مار میں مصروف کار تھے ۔ رنجیت سنگھ نے صرف سترہ سال کی عمر میں ایک مضبوط اور طاقتور فوج تیار کی ۔ جس نے لوٹ مار کرنے والے جتھوں کو فنا کر کے رکھ دیا ۔ اس کی طاقت کا اندازہ لگایئے کہ موجودہ پنجاب ‘ کشمیر اور خیبر پختونخواکا کثیر علاقہ اس کی زیر سلطنت تھا ۔ رنجیت سنگھ مجموعہِ تضادات تھا ۔ سکھ دھرم پر مضبوط ایمان رکھتا تھا۔ اس کے ساتھ ساتھ دیگر مذاہب کے لوگوں کے ساتھ رواداری کا قائل بھی تھا۔ آپ حیران ہوںگے کہ اس کی فوج میں ہندو‘ مسلمان ‘ سکھ ‘ فرانسیسی ‘ روسی اور دیگر مغربی ممالک کے افراد شامل تھے۔ رنجیت سنگھ نے بڑی شان و شوکت سے چالیس سال حکومت کی ۔رنجیت سنگھ کو تاریخ ایک سخت گیر حکمران کے طور پر یاد رکھتی ہے ۔ مگر اس کی شخصیت کا ایک حد درجہ رومانوی پہلو بھی تھا۔ بادشاہ بننے سے پہلے ‘ رنجیت سنگھ کوامرتسر سے تعلق رکھنے والی ایک لڑکی سے عشق ہو گیا ۔ موراں طوائف تھی ۔ لاہور اور امرتسر کے درمیان ایک بارہ دری تھی جو رنجیت سنگھ کی ملکیت تھی ۔ موراں وہاں اکثر رنجیت سنگھ کے روبرو رقص پیش کرتی تھی ۔ دونوں کی محبت اتنی پروان چڑھی کہ نوجوان سپہ سالار اس کے بغیر رہ نہیں سکتا تھا۔ اکیس سال کی عمر میں رنجیت سنگھ بادشاہ بن گیا۔ مورن کے متعلق اس کے جذبات بھرپور تھے ۔ ایک دن مہاراجہ نے موراں کو لاہور اپنے محل میں رقص کے لیے بلایا تو اس نے آنے سے انکار کر دیا۔ قصہ کچھ یوں ہے کہ امرتسر سے لاہور آتے ہوئے ‘ ایک چھوٹی نہر پڑتی تھی جو دریائے راوی سے منسلک تھی ۔ اس پر کسی قسم کا پل نہیں تھا ۔ جس دن مہاراجہ نے موراں کو طلب کیا ‘ اس وقت اس نے چاندی کے جوتے پہنے ہوئے تھے ۔چھوٹی سی نہر کو عبور کرتے ہوئے دونوں جوتے پانی میں بہہ گئے اور موراں ننگے پاؤں رہ گئی۔ سوچا کہ دربار میں بغیر جوتوں کے کیسے جائے گی اس لیے اپنے گھر واپس چلی گئی۔ جب رنجیت سنگھ کو اس مجبوری کا علم ہوا تو فوری طور پر نہر پر پل بنانے کا حکم دیا جو چند ہفتوں میں مکمل ہو گیا۔ وجہ صرف یہ کہ موراں کو امرتسر سے لاہور آنے میں کوئی تکلیف نہ ہو۔ اس زمانے میں رقاصائیں کسی طرح بھی احترام کے قابل نہیں سمجھی جاتی تھیں۔ شاید آج بھی ہمارے ملک کی یہی روایت ہے ۔ مگر مہاراجہ رنجیت سنگھ نے موراں کو حد درجہ عزت و احترام دیا ۔ یہ پل آج بھی موجود ہے اور اسے موراں پل کہا جاتا ہے ۔ بادشاہ بنتے ہی رنجیت سنگھ نے موراں سے شادی کرلی اور اسے مہارانی صاحبہ کا خطاب دیا۔اکال تخت کو جب اس شادی کا علم ہوا تو وہاں مقیم سکھ جتھے داروں نے حد درجہ ناراضی کا اظہار کیا ۔ رنجیت سنگھ کو اکال تخت طلب کیا گیا۔ پوچھا گیاکہ اس نے ایک رقاصہ سے کیسے شادی کی ۔ رنجیت سنگھ کا جواب بالکل سیدھا تھا کہ اسے موراں سے شدید محبت ہے ۔ سکھ گروؤں کو اس کا یہ جواب پسند نہ آیا ۔ انھوں نے حکم دیا کہ رنجیت سنگھ کو درخت سے باندھ کر کوڑے مارے جائیں۔ مہاراجہ کو درخت سے باندھ دیا گیا اور اس کی قمیص جتھے داروں نے اتار دی ۔ پہلا کوڑا پڑا تو رنجیت سنگھ خاموشی اور ادب سے کھڑا رہا ۔ اس کی خود اعتمادی دیکھ کرمذہبی رہنماؤں نے فیصلہ کیا کہ مزید کوڑے نہ مارے جائیں اور آزاد کر دیا جائے۔ جب یہ خبر موراں کو ملی تو وہ بے تحاشا روئی۔ اس نے مرتے دم تک رنجیت سنگھ سے وفا نبھائی ۔ موراں کو موراں سرکار کہا جاتا تھا ۔ مہاراجہ نے سکے بنوائے جس پر موراں شاہی لکھا ہوا تھا۔  مہارانی موراں حد درجہ ذہین خاتون تھیں۔ غریب آدمیوں سے گھل مل کر رہتی تھیں ۔ مہارانی ہونے کی وجہ سے اس کے پاس دولت کی بہتات تھی ۔ جسے بڑی فیاضی سے غریب لوگوں میں تقسیم کرتی رہتی تھیں۔کئی بار ایسے ہوا کہ عام لوگوں کے مسائل سننے کے بعد بادشاہ کے پاس گئی اور رنجیت سنگھ کو مسائل حل کرنے کی درخواست کی۔ رنجیت سنگھ نے کبھی بھی مہارانی موراں کی درخواست رد نہ کی ۔ موراں نے بادشاہ کو ایک مسجد بنانے کا مشورہ دیا ۔ چنانچہ شاہ عالمی گیٹ کے نزدیک ایک مسجد تعمیر کی گئی جسے آج مائی موراں مسجد کہا جاتا ہے۔ مہاراجہ کے ذہن کی فراخ دلی کا اندازہ لگایئے کہ اس کا وزیراعظم دھیان سنگھ ہندو ڈوگرہ تھا ۔ وزیرخارجہ فقیر عزیز الدین مسلمان تھا اور وزیر خزانہ دینا ناتھ ہندو براہمن تھا۔ سپہ سالار میاں غوث جو ماہرترین توپچی بھی تھا‘ وہ بھی مسلمان تھا۔  تاریخ میں رنجیت سنگھ کے متعلق متضاد واقعات درج ہیں ۔ جیسے شاہ آمد علی جو کہ انیسویں صدی کا تاریخ دان تھا ۔ درج کیا کہ رنجیت سنگھ حد درجہ ظالم بادشاہ تھا ۔ اس کے اندر مغلوں جیسی صلہ رحمی موجود نہیں تھی۔ یہ بھی لکھتا ہے کہ رنجیت سنگھ کی قیادت میں خالصہ فوج حد درجہ لوٹ مار کرتی تھی ۔ شہر کے شہر اجاڑ دیتی تھی ۔ اشتیاق احمد نے رنجیت سنگھ کے متعلق درج کیا ہے کہ کشمیر فتح کرتے ہوئے مسلمانوں پر بہت ظلم و ستم کیے ۔ اس بحث کو سکھ لکھاریوں نے کسی اور طریقے سے پیش کیا ہے۔ جیسے رتن سنگھ بھنگو نے 1847میں لکھا کہ مہاراجہ نے مسلمانوں پر کوئی سختی نہیں کی۔ برطانوی لکھاری کیونکہ رنجیت سنگھ سے حد درجہ تعصب رکھتے تھے ، رنجیت سنگھ نے انھیں ہمیشہ اپنی مضبوط فوج کے ذریعے پنجاب سے دربدر کیا ۔ لہٰذا کئی برطانوی تاریخ دانوں اور فوجی افسروں نے رنجیت سنگھ کے دور کو ظلم اور بربریت کا دور قرار دیا ۔ دراصل انسان کی شخصیت ہمیشہ سے تضادات کا شکار رہی ہے ۔ تاریخ کو دیکھیں تو رومن حکمرانوں سے لے کر فراعین مصر تک ‘ ہندو بادشاہوں سے لے کر ترک سلاطین تک ‘ بادشاہ محیر العقول تضادات کا شکار رہے ہیں۔ کوئی بھی حکمران ایسا نظر نہیں آتا جو خواتین سے بھرے ہوئے حرم نہ رکھتا ہو ۔ عجیب بات ہے کہ اس میں مسلمان اور غیر مسلمان شہنشاہوں میں بہت کم فرق ہے ۔ مقصد کسی خاص شہنشاہ کے متعلق کوئی منفی بات کرنا نہیں بلکہ استدلال یہ ہے کہ دنیا میں حکمرانوں کے متعدد چہرے نظر آتے ہیں ۔ اگر ایک طرف جنگ میں ہزاروں لوگوں کا سر قلم کر رہے ہیں تو دوسری طرف بہترین شعر بھی قلم بند کر رہے تھے۔ برصغیر پر غور کیجیے تو یہ معاملات بے حد عجیب و غریب معلوم پڑتے ہیں۔ مغل سلطنت میں اورنگزیب عالم گیر کو تاریخ دانوں نے بہت غیر انصافی سے پیش کیا ہے۔ اگر ایک طرف وہ بادشاہ مساجد بنوا رہا تھا تو دوسری طرف مندروں کو بڑی بڑی جاگیریں بھی عطا کر رہا تھا ۔ اگر ایک طرف وہ فتاویٰ عالمگیری لکھ رہا تھا تو دوسری طرف اس کے لشکر میں غیر مسلم کمانڈر اور سپہ سالار بھی شامل تھے۔ ایسا لگتا ہے کہ کسی بھی حکمران کا صرف ایک رخ نہیں ہوتا ۔ اس کا روپ اور چہرہ واقعات اور حالات کے حساب سے بدلتا رہتا ہے ۔ جتنا مرضی فولادی یا کرخت نظر آئے کئی معاملات میں وہ بہت نازک مزاج اور رومان پسند پایا جاتا ہے۔ کئی بار تو ایسے لگتا ہے کہ ہم جس شخصیت کا احاطہ کر رہے ہیں اس کا ایک پہلو اس کے دوسرے عنصر سے اتنا مختلف ہوتا ہے کہ یقین ہی نہیں آتا کہ یہ وہی شخص ہے ۔ بابر نامہ پڑھ کر دیکھئے تو اس میں برصغیر کے موسم سے لے کر پھلوں تک کی بدتعریفی کی گئی ہے۔ مگر سلطنت پانے کے بعد بابر نے اسی علاقے میں رہنے کو ترجیح دی جس کی وہ برائی کرتا رہا تھا۔ بھول کر بھی کبھی فرغانہ واپس جانے کا خیال تک نہیں کیا ۔ خاندان غلاماں کا بھی یہی حال تھا۔طالب علم کی دانست میں بادشاہ صرف اور صرف اپنے مفادات کا محافظ ہوتا ہے۔ اس میں کوئی معاشرتی یا مذہبی اصول کار فرما نہیں ہوتا ۔ رنجیت سنگھ اور مہارانی موراں کی محبت بھی انھی تضادات کی ایک خوبصورت اور عمدہ مثال ہے۔جو آج بھی ایک سخت گیر بادشاہ کی رومان پسندی کی حقیقی تصویر ہے۔شاید انسان ایک الماری کی طرح ہوتا ہے۔ اس کے ہر خانے میں ایک دوسرے سے مختلف چیزیں چھپی ہوتی ہیں ۔ایک خانے میں جو کچھ موجود ہے ‘دوسرے حصے کو اس کا کچھ پتہ نہیں۔ شاید ہر انسان اسی طرح مختلف حصوں میں تقسیم ہے!بس اسی معلوم اور نامعلوم کے درمیان زندگی گزر جاتی ہے۔   

اگر آپ اس خبر کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں۔

مزید تفصیل