Loading
پاکستان کی 78 سالہ تاریخ میں پہلا موقعہ ہے کہ عالمی سطح پر ملک کو جتنی اہمیت ملی ہے اور 2025 میں دنیا میں ہمارے ملک کا جو وقار بلند ہوا ہے اس کی ماضی میں کوئی مثال نہیں ملتی جب کہ بدقسمتی سے ملک میں اس کی کوئی قدر نہیں کی جا رہی اور محض اپنے ذاتی مفاد اور سیاست کے لیے حکومت اور اداروں کو تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے ۔ امریکا، عرب اور مسلم ممالک ہی نہیں بلکہ غیر مسلم بڑے اور اہم ممالک بھی اس وقت پاکستان کو عزت دے رہے ہیں اس کی ایک وجہ ملک کی حکمران سیاسی اور عسکری قیادت کا ایک ہو کر ملک کے لیے کام کرنا بھی ہے مگر ملک کے بعض سیاسی حلقے ملکی وقار کو اہمیت نہیں دے رہے اور انھیں اپنی سیاست اور رہائی کی فکر ہے۔ دنیا بھر میں پاکستان کی فوجی صلاحیت کو سراہا جا رہا ہے جس سے بعض سیاسی جماعتوں کی سیاست متاثر ہو رہی ہے یا انھیں سیاسی نقصان کون سا پہنچ رہا ہے کہ وہ ملکی وقار کو نظرانداز کرکے اپنی سیاست چمکانے کے لیے بے سروپا بیانات دے رہے ہیں جو اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ انھیں عالمی سطح پر ملنے والی اہمیت کی قدر نہیں جب کہ دنیا بھر میں پاکستان کی قدر ہو رہی ہے مگر بعض عناصر پاکستان کی دنیا میں اس عزت افزائی سے خوش نہیں اور ملک کی دنیا میں بڑھی اس عزت کو اپنی سیاست کے لیے خطرہ سمجھتے ہیں۔ اپریل 2022 میں جب ملک معاشی طور پر تباہی کا شکار اور دیوالیہ ہونے کے قریب تھا تو اس بدتر حالات کا ذمے دار پی ٹی آئی کے وزیر اعظم کو سمجھ کر ان کے سر سے ہاتھ ہٹا لیا گیا تھا جس کے بعد اپوزیشن جماعتوں نے وزیر اعظم کو ہٹانے کے لیے آئینی طور پر تحریک عدم اعتماد پیش کی تھی جو ملک میں کامیاب ہونے والی پہلی تحریک عدم اعتماد تھی۔ اس وقت ملک کے ابتر معاشی حالات نے اپوزیشن کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا تھا۔ ایک گروپ ملک میں نئے انتخابات کے انعقاد کا حامی تھا جب کہ دوسرے گروپ کا خیال تھا کہ بدترین معاشی حالات میں نئے انتخابات مناسب نہیں اس لیے اسمبلیوں کو مدت پوری کرنے کا موقعہ ملنا چاہیے کیونکہ اس سے قبل تین اسمبلیوں نے مدت پوری کی تھی اس لیے شہباز شریف کی قیادت میں تمام جماعتوں کی مخلوط حکومت بنائی گئی مگر سابق وزیر اعظم نے اپنی آئینی برطرفی کو امریکا کی سازش قرار دے کر ملک میں جلسے جلوس شروع کر دیے اور پوری کوشش کی حکومت نہ چلے اور نئے الیکشن ہوں جس میں وہ امریکا مخالف مہم چلا کر قوم کو گمراہ کرکے پھر اقتدار میں آ جائیں اس لیے وہ صرف قومی اسمبلی کے انتخابات چاہتے تھے کیونکہ پنجاب اور کے پی میں پی ٹی آئی کی حکومت تھی جس کی مدد سے وہ دوبارہ اقتدار چاہتے تھے۔ اس وقت آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان میں بھی پی ٹی آئی کی حکومت تھی اور وہ پنجاب و کے پی کی اپنی حکومتوں کو برقرار رکھ کر آسانی سے قومی اسمبلی میں پی ٹی آئی کو اکثریت دلا سکتے تھے مگر ملک کے حالات نئے انتخابات کے متحمل نہیں ہو سکتے تھے اس لیے وفاقی حکومت نے بقایا مدت پوری کرکے ملکی حالات میں بہتری لا کر انتخابات کرانے سے انکار کیا۔ اس حکومت کو 27 کلو میٹر کی حکومت قرار دے کر پنجاب و کے پی حکومتوں کے ذریعے کوشش کی گئی کہ مخلوط حکومت کو آئی ایم ایف سے قرض نہ ملے۔ آئی ایم ایف کو پی ٹی آئی حکومت پہلے ہی ناراض کر چکی تھی اور آئی ایم ایف اگر راضی نہ ہوتا تو ہمارے دوستوں نے بھی قرضے نہیں دینے تھے جس کی وجہ سے حکومت سخت پریشان تھی اور خود بھی نئے انتخابات کا سوچ رہی تھی مگر سابق وزیر اعظم نے حکومت کو دھمکی دی مگر حکومت نے دباؤ کی کوشش ناکام بنائی جب کہ برطرف وزیر اعظم اپنے صدر مملکت کے ذریعے ذریعے ایوان صدر میں خفیہ ملاقاتیں کرتے رہے مگر مقتدر قوتوں نے ان کی باتوں میں آنے سے انکار کر دیا تو ملک میں چالیس سے زائد جلسے کرنے کے بعد اپنا دباؤ بڑھانے کے لیے راولپنڈی لانگ مارچ شروع کر دیا تاکہ نئے آرمی چیف کی تقرری روکی جائے مگر حکومت نے وقت سے پہلے ہی نئے آرمی چیف کا تقرر کر دیا تھا جب سے اب تک پی ٹی آئی کے بانی مخالفانہ بیانات دے کر دوریاں اور اپنے لیے مسائل پیدا کر چکے ہیں۔ 10 مئی کو بھارت کو شکست دے کر پاک فوج نے کامیابی کیا حاصل کی اور دنیا کو پاک فوج کی طاقت دکھائی تو دنیا ہی بدل گئی اور طاقت کا توازن جو پہلے بھارت کی طرف تھا تبدیل ہو گیا اور دنیا بھر میں پاک فوج کی صلاحیت آشکار ہوئی اور پاکستان کا وقار بلند ہوا۔ جو ممالک بھارت کا جواب نہ دینے کے مشورے دے رہے تھے انھوں نے بھارت کو دیے گئے کرارے جواب کے بعد پاکستان سے متعلق اپنی پالیسی بدل لی کیونکہ دس مئی کی فوجی کامیابی نے بھارت کو دنیا اکیلا دیکھ رہی تھی جس کے ساتھ صرف اسرائیل کھڑا رہ گیا تھا اور عرب ممالک دوبارہ اس ملک کی طرف راغب ہو گئے جو یہ سمجھ رہے تھے کہ پاکستان ان سے صرف قرضے اور مدد ہی مانگتا ہے۔ پاکستان کو دنیا میں جو وقار حاصل ہوا اس کا تقاضا بھی یہی تھا کہ اب دنیا کے آگے ہاتھ نہ پھیلایا جائے اور حالیہ تباہ کن سیلاب میں بلاول بھٹو کے کہنے کے باوجود عالمی امداد کی کوئی اپیل نہیں کی اور اپنے وسائل سے ہی متاثرین کی بحالی کا کام شروع کر رکھا ہے۔ دنیا میں حاصل ہونے والے وقار کا بھی تقاضا ہے کہ ملک کی سیاسی جماعتیں حکومت سے اختلافات عارضی طور پر ہی بالائے طاق رکھ کر دنیا کو دکھائیں کہ ہمارے اختلافات ملک کے اندر ہیں جو طے بھی ہو سکتے ہیں۔ ان اختلافات کو آپس میں مل بیٹھ کر ہی حل ہونا ہے جو ہو بھی جائیں گے۔ اس وقت عالمی طور پر حاصل ہونے والا وقار اہم ہے، سیاست نہیں۔ سیاست تو 78 سال سے ہو ہی رہی ہے اس لیے سیاسی اختلافات کے بجائے ملکی وقار کو اہمیت دی جائے کیونکہ ایسا موقعہ بار بار نہیں ملتا اب ہمیں اپنے وقار کا بھی خیال رکھنا ہے اور کشکول بھی توڑنا ہوگا۔
اگر آپ اس خبر کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں۔
مزید تفصیل