Loading
امریکا ،یورپی ممالک، مشرقِ وسطیٰ اور جنوبی ایشیا میں کوئی بھی ملک اور حکمران آزاد صحافت اور آزاد منش صحافیوںکو پسند نہیں کرتا ۔ فرق صرف اتنا ہے کہ امریکا اور مغربی ممالک کی جمہوریتیں اور جمہوری حکمران اپنے ہاں صحافیوں اور میڈیا کو آزادانہ طور پر کچھ نہ کچھ کہنے اور لکھنے کی آزادیاں دیتے ہیں ۔ مگر یہ محدود آزادیاں بھی امریکی اور مغربی حکمرانوں کو بہت چبھتی ہیں ۔ مثال کے طور پر 16ستمبر2025 کو امریکی صدر، ڈونلڈ ٹرمپ، سے واشنگٹن میں ایک امریکی صحافی نے ٹرمپ کے مزاج کے خلاف سوال پوچھا تو ٹرمپ نے جواب دینے کے بجائے چیختے ہُوئے صحافی سے کہا:’’ مجھے معلوم ہے تمہارے دل میں (میرے خلاف) کتنی نفرت موجود ہے ۔‘‘ٹرمپ صاحب اِسی طرح اپنے کئی مخالف امریکی صحافیوں کی بے عزتی کر چکے ہیں اور اِس پر وہ کبھی نادم بھی نہیں ہُوئے ۔ بھارت میں مقتدر بی جے پی کے شدید دباؤ تلے آکراکثریتی بھارتی میڈیا مودی کی گود میں بیٹھ چکا ہے ۔پاکستان میں بھی جو صحافی، بوجوہ، سرکار دربار اور طاقتوروں کی پالیسیوں کو آگے بڑھاتے ہیں ، وہ سرکار دربار کی نظر میں محبوب کہلاتے ہیں۔ آزاد منش صحافیوں کی حیلوں بہانوں سے مشکیں کسنے کی مثالیں سامنے آتی رہتی ہیں۔ مشرقِ وسطیٰ کے مسلمان ممالک میں بھی آزاد منش صحافیوں اور ادیبوںکی جان پر بنی ہُوئی ہے ۔ مصر کے نامور فلسفی ادیب ، ثناء اللہ ابراہیم، کی کتابیں ہم اگر مطالعہ کریں تو واضح ہوتا ہے کہ مصری حکمران مصری ادیبوں اور صحافیوں پر کسقدر مظالم ڈھا رہے ہیں ۔ جناب ثناء اللہ ابراہیم اپنی آزادانہ فکری تحریروں کے باعث ہی زندگی کا زیادہ عرصہ پسِ دیوارِ زنداں رہے ۔ اگست 2025میں وہ نہائت کسمپرسی میں اپنے خالقِ حقیقی سے جا ملے ۔ مصر سے متصل ،غزہ، میں پچھلے دو برس سے غاصب و ظالم صہیونی اسرائیل نے فلسطینی صحافیوں پر جو مظالم ڈھا رکھے ہیں ، اِس کی مثال دُنیا میں کہیں نہیں ملتی ۔یکم اور دو اکتوبر2025کو خورو نوش اور ادویات کی امداد لے کر محصور غزہ پہنچنے کی کوشش کرنے والا صمود فلوٹیلا(جس کی قیادت ایک بہادر سویڈش نوجوان خاتون، گریٹا تھنبرگ، کررہی تھیں)جس طرح صہیونی اسرائیل کی بے درد جارحیت کا ہدف بنا ہے، ساری دُنیا اِس کی مذمت کررہی ہے۔ اِس فلوٹیلا پر کئی صحافی بھی سوار تھے۔ انھیں بھی اسرائیل نے دیگر افراد کے ساتھ قیدی بنایا، تشدد کیا اور پھر دو دن کے بعد استنبول روانہ کر دیا۔ساری دُنیا اور عالمی میڈیا غزہ کے صحافیوں پر ڈھائے جانے والے اسرائیلی مظالم و قہرمانیوں کی مذمت کرتے ہُوئے اِنہیں روکنے کی اپیلیں بھی کررہی ہے، مگر اسرائیل کا غزہ کے صحافیوں کے خلاف دستِ ستم رُک نہیں رہا۔ 16 ستمبر 2025ء کو سعودی عرب کے معروف اخبار ’’عرب نیوز‘‘ میں یوسی میکلبرگ(Yossi Mekelberg) کا غزہ کے شہید و جری صحافیوں پر ایک شاندار آرٹیکل شایع ہُوا ہے ۔ یوسی میکلبرگ بین الاقوامی تعلقات کے پروفیسر ہیں اور لندن میں بروئے کار مشہور تھنک ٹینک (چیٹم ہاؤس) کے فیلو بھی ۔ یوسی میکلبرگ اپنے مذکورہ آرٹیکل میں غزہ کی صحافت ، میڈیا اور غزہ کے بہادر و شہید صحافیوں (جنھوں نے غزہ میں بے پناہ اسرائیلی مظالم بارے دُنیا کو آگاہ کرتے ہُوئے اپنی جانیں تک قربان کر دی ہیں) بارے یوں لکھتے ہیں:’’ اسرائیل میں حکمران دائیں بازو کی جماعتیں میڈیا اور صحافیوں کے خلاف سخت مخالفت رکھتی ہیں۔ یہ رجحان غزہ میں جنگ کے آغاز کے بعد سے تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ حالانکہ غزہ کے صحافی سچائی کی رپورٹنگ کررہے ہیں ۔ پچھلے ہفتے ہی برطانیہ کا دَورہ کرتے ہوئے اسرائیلی صدر( مائیکل ہرزوگ) نے دعویٰ کیا کہ اسرائیل کے تمام اقدامات بین الاقوامی قانون کے دائرے میں ہیں۔لیکن اگر ایسا ہے، تو پھر سوال یہ ہے کہ اسرائیلی حکام غزہ میں بین الاقوامی میڈیا کی رسائی کیوں روک رہے ہیں؟ ایسی صورت میں مقامی فلسطینی صحافی ہی وہ ہیں جنھوں نے اسرائیلی آفتوں اور مظالم کی رپورٹنگ کی ذمے داری اٹھائی ہوئی ہے، اور جن میں سے ناقابلِ یقین تعداد پہلے ہی اپنی زندگیوں سے ہاتھ دھو چکی ہے۔’’کمیٹی ٹُو پروٹیکٹ جرنلسٹس‘‘ کے مطابق، اکتوبر 2023 سے اب تک غزہ میں کم از کم 189 صحافی شہید ہو چکے ہیں، جب کہ اقوامِ متحدہ کے انسانی حقوق کا دفتر غزہ میں شہید صحافیوں کی تعداد247 بتاتا ہے۔ یہ دونوں تعداد دل دہلادینے والی ہیں۔‘‘ یوسی میکلبرگ مزید لکھتے ہیں:’’ فلسطین میں یہ چھوٹا سا صحرائی علاقہ( غزہ کی پٹی) زمین پر رپورٹنگ کرنے کے لیے صحافیوں کے لیے اب دنیا کے اُن مقامات میں سے ایک بن چکا ہے جہاں جانا سب سے زیادہ خطرناک ہے۔انسانی حقوق کی عالمی تنظیموںکا اصرار ہے کہ جنگ کے دوران بھی صحافی محفوظ رہنے کے حق کے مستحق ہیں، مگر متعدد ایسے واقعات ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ اسرائیل نے غزہ میں صحافیوں کو جان بوجھ کر نشانہ بناکر قتل کیا ہے۔مثال کے طور پر غزہ میں ’’الجزیرہ‘‘ کے معروف صحافی، اَنس الشریف، کی شہادت۔ اُن کے قتل کے فوراً بعد اسرائیل نے دعویٰ کیا کہ اَنس الشریف ’’ حماس‘‘ کے ایک دہشت گرد گروہ کا سربراہ تھا جو اسرائیلی شہریوں پر حملے کرنے کی منصوبہ بندی کر رہا تھا۔ تل ابیب کی طرف سے مگر ابھی تک کوئی ٹھوس ثبوت سامنے نہیں آیا ہے کہ الشریف واقعی ایسا کچھ کر رہا تھا۔ ثبوت نہ ہونے کی وجہ سے اسرائیل کو اپنے دعوے کو ثابت کرنے کے لیے بہت کچھ کرنا پڑے گا۔ اَنس الشریف پر حملہ غزہ میں اُس خیمے پر ہُوا جس پر ’’ پریس ‘‘ لکھا ہوا تھا۔ اِس کے باوجود اسرائیل مہلک حملے سے باز نہ آیا۔پھر اُسی روز خان یونس (غزہ)کے ناصر اسپتال پر قریباً ایک منٹ کے وقفے سے دو بمباریاں کی گئیں۔ پہلی نے اسپتال کی بیرونی دیوار کو ہدف بنایا اور جب امدادی کارکن اور دیگر صحافی وہاں پہنچے تو دوسری بمباری ہوئی۔ نتیجتاً چار فلسطینی صحافی موقع پر مارے گئے۔ ایک بعد میں زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے اپنے خالقِ حقیقی سے جا ملا۔ اسرائیلی وزیر اعظم بنیامین نیتن یاہو نے اس پر بھی کوئی مکمل معافی نہیں مانگی،اور یہ وعدہ تک نہیں کیا کہ مستقبل میں غزہ میں صحافیوں کی ایسی ہلاکتوں سے بچنے کے لیے پوری کوشش کی جائے گی‘‘۔ دُنیا کے بہت سے حقیقت نگاروں اور تجزیہ کاروں کی طرح یوسی میکلبرگ بھی کہتے ہیں:’’دُکھ کی بات یہ ہے کہ موجودہ اسرائیلی حکومت کسی بھی ایسے صحافی کی دوست نہیں ہے جو کسی بھی معاملے میں اُن کے بیانیے کی تقلید نہ کرے۔ غزہ کے مقامی رپورٹرز اپنی جان کو مسلسل خطرے میں دیکھتے ہیں۔پچھلے مہینے، تقریباً 30ممالک( جن میں برطانیہ، جرمنی، کینیڈا، جاپان اور آسٹریلیا شامل ہیں) نے میڈیا فریڈم کولیشن کے بیان کی حمایت کی، جس نے غزہ میں صحافیوں اور میڈیا ورکرز کے خلاف ہر قسم کے تشدد کو سختی سے مسترد کیا۔ مزید برآں، انھوں نے میڈیا کے ذرایع اور سہولیات تک آزادانہ رسائی کا مطالبہ کیا بھی تاکہ غزہ کے صحافی اپنا کام آزادانہ اور محفوظ طریقے سے انجام دے سکیں۔جلد یا بدیر، غزہ میں جو کچھ ہو رہا ہے، اُس کی مکمل سچائی سامنے آجائے گی۔ لیکن پہلے ہی، مقامی فلسطینی صحافیوں کی بہادری کی بدولت، جنھوں نے اپنی زندگیوں کا نذرانہ پیش کیا، ہم اتنا جان چکے ہیں، اور کئی مہینوں سے جانتے ہیں کہ جنگ کو ختم کرنا کتنا ضروری ہے۔جو بہادر صحافی غزہ سے گزشتہ دو برسوں میں رپورٹنگ کر رہے ہیں (خاص طور پر وہ جنھوں نے اپنی جانوں کے بدلے یہ فرض نبھایا ہے) انھیں آنے والی نسلیں لمبے عرصے تک یاد رکھیں گی۔ اُن کی لگن، بہادری اور پیشہ ورانہ مہارت نے ہمیں غزہ میں متنوع اسرائیلی مظالم اور زیادتیوں سے آگاہ کیے رکھا‘‘۔ غزہ کے بہادر ، عظیم المرتبت اور جرأتمند صحافیوں(اور خصوصاً شہید صحافیوں) کو ہمارا سلام اور سیلوٹ پہنچے۔
اگر آپ اس خبر کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں۔
مزید تفصیل