Loading
سپریم کورٹ نے ٹیکس تنازع پر نظرثانی کیس کے فیصلے میں قرار دیا ہے کہ دہرے ٹیکسوں کے معاہدوں کی اس طرح سے متوازن تشریح کی جائے جس سے معاشی نمو کے تقاضوں کے ساتھ ساتھ ٹیکس بیس کو بھی تحفظ حاصل ہوسکے۔ ڈبل ٹیکسیشن کے معاہدے بین الاقوامی اقتصادی تعاون کو فروغ دینے کے لیے ایک اہم فریم ورک فراہم کرتے ہیں جس کا مقصد ممالک میں سرمایہ کاری میں آسانیاں میسر آنا اوردہرے ٹیکس سے بچنا ہے جو عالمی تجارت میں رکاوٹ بن سکتا ہے۔ فیصلے میں جرمن ٹیکس ماہر کلاؤس واجل کا حوالہ دیا گیا جو اس بات پر زور دیتا ہے کہ یہ معاہدے قوموں کے درمیان پل کے طور پر کام کرتے ہیں، ان بیان الاقوامی معاہدوں کا مقصد ٹیکس تنازعات کو روکنے کے ساتھ ساتھ اقتصادی تعاون کی حوصلہ افزائی کرنا ہے۔ ان معاہدوں کی سختی سے تشریح نہیں کی جانی چاہئے بلکہ ان سے عالمی سطح پر مساوی معاشی ترقی کے وسیع تر مقصد کی عکاسی ہونی چاہئے۔ 8 صفحات پر مشتمل نظرثانی فیصلہ تین رکنی بنچ کے سربراہ جسٹس سید منصور علی شاہ نے تحریر کیا۔ عدالت نے جسٹس ریٹائرڈ قاضی فائز عیسیٰ کے تحریر کردہ فیصلے کو کالعدم قرار دیتے ہوئے کمپنی کی اپیلیں منظور کرلیں، سابق چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے فیصلے کی توثیق کی تھی جبکہ اصل کیس میں جسٹس منصور شاہ کا اقلیتی فیصلہ تھا۔ اب نظرثانی کی درخواست جسٹس سید منصور علی شاہ کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے سماعت کی۔ درخواست گزار، ہالینڈ میں قائم کمپنی تھی اور پاکستان میں اسکا شمار نان ریذیڈنٹ میں ہوتا تھا۔ اس نے پاکستان میں کام کرنے والی کمپنی Schlumberger Seaco, Inc. کے ساتھ دو معاہدے کیے اور ہالینڈ اور پاکستان کے درمیان طے پانے والے کنونشن کے آرٹیکل 7 کے تحت پاکستان میں کاروباری منافع کو انکم ٹیکس سے استثنیٰ کا مطالبہ کیا تاہم ٹیکس حکام نے آرٹیکل 12 کے تحت اس کاروباری منافع کو رائلٹی کی مد میں شمار کیا اور ان پر پندرہ فیصد کی شرح سے انکم ٹیکس عائد کیا۔ عدالت نے نوٹ کیا کہ اکثریتی فیصلے میں یہ عدالت اس بات کا تعین کرنے میں ناکام رہی کہ آیا ہائی کورٹ کی طرف سے قانون کے سوالات کا صحیح طریقے سے جواب دیا گیا اور یہ منافع کس شق کے تحت رائلٹی کی تعریف میں آتا ہے۔ عدالت نے مدعا علیہ کی اپیلیں خارج کرتے ہوئے ہائیکورٹ کا فیصلہ برقرار رکھا۔
اگر آپ اس خبر کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں۔
مزید تفصیل