Loading
(تحریر: ڈاکٹر محمد زید) حال ہی میں سوشل میڈیا پر گردش کرتا ہوا ایک صاحب کا ویڈیو کلپ نظر سے گزرا جس میں وہ زور شور سے گھر سے باہر کام کرنے والی اور یونیورسٹیوں میں اعلیی تعلیم حاصل کرنے والی خواتین کی مخالفت کرتے پائے گئے ہیں۔ یہاں میں نے ایک مختلف نقطہ نظر دینے کی کوشش کی ہے۔ آئیے پہلے بات کرتے ہیں تعلیم کی اہمیت پہ: اسلام ایک ایسا دین ہے جو علم اور تعلیم کو بے حد اہمیت دیتا ہے اور مرد و خواتین دونوں پر علم حاصل کرنا فرض قرار دیتا ہے۔ قرآن اور حدیث میں علم کی اہمیت کو بار بار اجاگر کیا گیا ہے، اور خواتین کی تعلیم کی مخالفت یا اسے غیر ضروری سمجھنا اسلامی تعلیمات کے متصادم ہے۔ بعض لوگ خواتین کی اعلیٰ تعلیم، خاص طور پر یونیورسٹی کی سطح پر، کے حوالے سے یہ دلیل دیتے ہیں کہ یہ ماحول ’’بہت بولڈ‘‘ ہوتا ہے، یا وہاں غیر اخلاقی سرگرمیاں عام ہیں، جس کی وجہ سے خواتین ایک ’’اچھی بیوی‘‘ نہیں بن سکتیں۔ یہ نظریہ نہ صرف اسلامی تعلیمات سے متصادم ہے بلکہ تاریخ اور حقیقت سے بھی دور ہے۔ اسلام میں خواتین پر تعلیم حاصل کرنے کی اہمیت کا ذکر کرتے ہوئے، حدیث شریف میں آتا ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: "علم حاصل کرنا ہر مسلمان پر فرض ہے۔" (سنن ابن ماجہ)۔ یہ حکم عمومی ہے اور اس میں کسی جنس کی تخصیص نہیں کی گئی۔ قرآن مجید بھی بارہا علم کی فضیلت پر زور دیتا ہے: "کہہ دیجیے! کیا علم رکھنے والے اور بے علم برابر ہو سکتے ہیں؟" (الزمر: 9)۔ یہ آیت واضح کرتی ہے کہ علم انسانی عظمت اور برتری کا معیار ہے، خواہ وہ مرد ہو یا عورت۔ قرآن مجید مختلف شعبوں میں علم حاصل کرنے کی ترغیب دیتا ہے، اور اس علم کو صرف دینی علوم تک محدود نہیں کرتے: ’’(اور اللہ نے آدم کو تمام چیزوں کے نام سکھائے۔)‘‘ البقرہ: 31 یہ آیت ظاہر کرتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت آدمؑ کو تمام چیزوں کے نام سکھائے، جو اس بات کی علامت ہے کہ دنیا کو سمجھنے اور جاننے کا علم بھی اہمیت رکھتا ہے۔ اسی طرح نبی اکرم ﷺ نے عملی علم کی بھی تعریف کی ہے۔ مثال کے طور پر، آپؐ نے کسانوں کو کھجور کے درختوں کی پولی نیشن کے طریقے سکھانے میں ان کی رہنمائی فرمائی، جو دنیاوی علم کی اہمیت کو ظاہر کرتا ہے۔ نبی اکرم ﷺ نے دعا کی: ’’(اے اللہ! میں تجھ سے فائدہ مند علم مانگتا ہوں۔)‘‘ سنن ابن ماجہ: 925 یہ دعا اس بات کا ثبوت ہے کہ فائدہ مند علم صرف دینی علوم تک محدود نہیں بلکہ ہر وہ علم شامل ہے جو زندگی میں بہتری لائے، مسائل حل کرے، اور انسانی ضروریات کو پورا کرے۔ اب کچھ بات کرتے ہیں خواتین کے عملی زندگی میں کردار پر؛ اسلامی تاریخ میں خواتین کی تعلیم اور عملی کردار کی بے شمار مثالیں موجود ہیں۔ حضرت خدیجہؓ، نبی اکرم ﷺ کی پہلی زوجہ، ایک کامیاب کاروباری خاتون تھیں۔ ان کی بصیرت اور تعلیم نے ان کے کاروبار کو غیر معمولی کامیابی دلائی۔ حضرت عائشہؓ، جنہوں نے دو ہزار سے زائد احادیث روایت کیں، فقہ اور اسلامی قانون میں مرد صحابہ اکرام ان سے رہنمائی لیتے تھے۔ یہ اسلامی تعلیمات کی روشنی میں خواتین کی تعلیم کی حمایت کا ایک اور بہترین نمونہ ہے۔ مزید برآں، فاطمہ الفہری نے نویں صدی میں مراکش میں ’’جامعہ القروین‘‘ کی بنیاد رکھی، جو دنیا کی قدیم ترین یونیورسٹیوں میں شمار ہوتی ہے۔ یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ اسلام خواتین کو تعلیم حاصل کرنے اور معاشرتی ترقی میں کردار ادا کرنے کی اجازت اور حوصلہ دیتا ہے۔ جو لوگ یہ دلیل دیتے ہیں کہ یونیورسٹی کا ماحول خواتین کے لیے غیر موزوں ہے، ان کے لیے یہ سمجھنا ضروری ہے کہ اسلام انسان کو ہر قسم کے ماحول میں اپنی عزت و وقار برقرار رکھنے کا درس دیتا ہے۔ نبی اکرم ﷺ نے معاشرے کے چیلنجز کے باوجود خواتین کو تعلیم حاصل کرنے اور سماجی سرگرمیوں میں حصہ لینے کی ترغیب دی۔ آپؐ نے خواتین کے لیے خصوصی دن مقرر کیے جن میں وہ آپؐ سے تعلیم حاصل کرتی تھیں۔ جہاں تک منشیات اور دیگر غیر اخلاقی سرگرمیوں کا تعلق ہے، یہ مسائل صرف یونیورسٹیوں تک محدود نہیں ہیں اور نہ ہی صرف خواتین کو متاثر کرتے ہیں۔ ان مسائل کو جڑ سے ختم کرنے کے لیے سماجی اصلاحات کی ضرورت ہے، نہ کہ خواتین کو تعلیم، کام سے دور رکھنے اور اپنی اکیاون فیصد آبادی کو عملی طور پر گھرتک محدود کرنے کی۔ اسلام خواتین کو نہ صرف تعلیم بلکہ معاشی اور سماجی زندگی میں حصہ لینے کی بھی اجازت دیتا ہے۔ خواتین کی مالی خودمختاری کو تسلیم کیا گیا ہے، حضرت شفاء بنت عبداللہؓ، نبی اکرم ﷺ کے دور کی ایک مشہور طبیبہ اور معلمہ تھیں، جنہیں آپؐ نے مدینہ میں ایک اہم سماجی کردار ادا کرنے کی اجازت دی۔ تعلیم کا مقصد صرف دنیاوی علم حاصل کرنا نہیں بلکہ انسان کو اپنی ذات اور معاشرے کے لیے بہتر بنانا ہے۔ ایک تعلیم یافتہ عورت ایک بہتر بیوی، ماں، اور معاشرے کی ذمہ دار شہری بن سکتی ہے۔ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ’’تم میں سے بہترین وہ ہے جو اپنے گھر والوں کے لیے بہترین ہو۔‘‘ (ترمذی)۔ تعلیم ایک عورت کو اس قابل بناتی ہے کہ وہ اپنی گھریلو اور معاشرتی ذمہ داریاں زیادہ بہتر طریقے سے نبھا سکے۔ خواتین کی تعلیم کے خلاف جو لوگ دلائل دیتے ہیں وہ یا تو اسلام کی حقیقی تعلیمات سے ناواقف ہیں یا پھر ثقافتی تعصبات کا شکار ہیں۔ خواتین کو تعلیم سے دور رکھنا نہ صرف ان کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہے بلکہ معاشرتی ترقی میں بھی رکاوٹ بنتا ہے۔ اسلام نے علم کو ایک لازمی فرض قرار دیا ہے، اور یہ فرض صرف مردوں کے لیے مخصوص نہیں۔ جو لوگ یونیورسٹی کے ماحول کے چیلنجز کو بہانہ بنا کر خواتین کو تعلیم سے روکنا چاہتے ہیں، انہیں چاہیے کہ وہ اسلامی تعلیمات اور تاریخ کے ان روشن پہلوؤں کو اپنائیں جو علم کے حصول کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ خواتین کی تعلیم معاشرے کو مضبوط بنانے کا ذریعہ ہے، اور اس کی مخالفت اسلامی تعلیمات سے متصادم ہے۔ مختصر تعارف راقم نے مائیکروبائیلوجی اینڈ مالیکیولر جنیٹکس میں پی ایچ ڈی کی ہے اور یونیورسٹی آف مینجمینٹ اینڈ ٹیکنالوجی، لاہور میں بحیثیت اسسٹنٹ پروفیسر مائیکروبائیلوجی پڑھا رہا ہوں۔ سماجی اور معاشرتی پہلوؤں پہ لکھنے کا شوق رکھتا ہوں
اگر آپ اس خبر کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں۔
مزید تفصیل