Loading
مودی سرکار کے دور میں مسلمانوں کی مساجد اور مقدس مقامات پر قبضے کرنے کی رفتار میں اضافہ ہوگیا، حال ہی میں بھارتی ریاست سنبھل میں صدیوں پرانی تاریخی مسجد بھی انتہا پسند ہندوؤں کے نشانے پر آگئی۔ انتہا پسند ہندوؤں نے مسجد کو مندر پر تعمیر کرنے کا ایک جھوٹا دعویٰ کیا ہے اور اپنے دعوے کو سچ ثابت کرنے کے لیے عدالت پہنچ گئے۔ ہندو قوم پرستوں نے تاریخی مسجد کی حفاظت پر مامور مسلمانوں پر تشدد اور ظلم کی انتہا کرتے ہوئے 4 نمازی بھی شہید کر دیے۔ اپوزیشن رہنمائوں نے مسجد پر قبضے کی کوشش پر مودی سرکار کو آڑے ہاتھ لیتے ہوئے اسے متصبانہ سوچ قرار دیا ہے۔ اپوزیشن رہنما کا کہنا ہے کہ مسجد پر قبضے کی کوشش مذہبی نہیں بلکہ مودی سرکاری کا سیاسی ایجنڈا ہے، مسجد تنازع کو بڑھا کر مودی سرکار آئندہ انتخابات میں یہاں سے ہندو ووٹوں کی تعداد بڑھنا چاہتی ہے۔ مسجد تنازع پر مذہبی تناؤ میں اضافے کے بعد سڑکیں بند اور علاقے میں کشیدگی پائی جاتی ہے۔ انسانی حقوق کی کارکن سوشیتا مہاجن کا کہنا ہے کہ مودی حکومت اور آر ایس ایس مسلسل تاریخ کا غلط استعمال کر کے اپنی غلط روایات کو دہرا رہی ہے۔ مسجد انتظامیہ کے رکن مشہود علی فاروقی کا کہنا ہے کہ انتہا پسند ہندوؤں کی جانب سے مسجد کا مندر پر تعمیر کا دعویٰ جھوٹ اور بے بنیاد ہے۔ ہمارے پاس مسجد کی تعمیر کے حوالے سے تمام دستاویزات موجود ہیں، اس کے باوجود اس کیس کے نتائج کے لیے ہمیں 10 سے 20 سال انتظار کرنا ہوگا۔ ہندو قوم پرست راکیش کمار جین کا کہنا ہے کہ مسلمانوں سے اپنے تمام مندر چھین کر رہیں گے، ہمارے پاس مودی سرکار کی بھرپور حمایت حاصل ہے۔ معروف وکیل شارخ عالم کا کہنا ہے تھا کہ بھارتی قانون میں مسلمانوں سمیت تمام شہریوں کو برابر شہری حقوق حاصل ہیں، بھارتی آئین کے مطابق عبادت گاہوں کی حیثیت کو تبدیل نہیں کیا جا سکتا۔ مودی کے بھارت میں مسلمانوں کی عبادت گاہوں کو مندروں میں تبدیل کرنا ثابت کرتا ہے کہ انتہا پسند ہندوؤں کے ہوتے ہوئے دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت میں مذہبی آزادی نہیں ہے۔
اگر آپ اس خبر کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں۔
مزید تفصیل