Loading
حماس نے بھی غزہ جنگ بندی معاہدے میں جس قیدی کی رہائی کو سرفہرست مطالبے کے طور پر رکھا تھا وہ 66 سالہ مروان برغوثی ہیں جو 23 سال سے قید کاٹ رہے ہیں۔ عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق صدر ٹرمپ سے مروان غوثی کی رہائی اپیل کی بات ان کے بیٹے عرب برغوثی نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتائی۔ جنھوں نے تصدیق کی کہ میری ماں فدویٰ برغوثی نے امریکی صدر کے نام ایک اپیل جاری کی ہے۔ جس میں مروان برغوثی کی رہائی کی اپیل کی گئی ہے۔ فدویٰ برغوثی نے ڈونلڈ ٹرمپ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ جناب صدر، ایک ایسا حقیقی شراکت دار آپ کا منتظر ہے جو خطے میں پائیدار امن کے خواب کو حقیقت میں بدلنے میں مدد دے سکتا ہے۔ اپنے بیان میں انھوں نے صدر ٹرمپ سے مزید کہا کہ فلسطینی عوام کی آزادی اور آئندہ نسلوں کے امن کے لیے مروان برغوثی کی رہائی میں مدد کریں۔ سیاسی ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر مروان برغوثی کو رہا کیا جاتا ہے تو وہ فلسطینی سیاست میں محمود عباس کے ممکنہ جانشین کے طور پر ابھر سکتے ہیں۔ بعض مبصرین کے نزدیک ان کی رہائی فلسطینی دھڑوں کے درمیان مفاہمت کے عمل کو تیز کر سکتی ہے، جبکہ اسرائیلی حلقوں میں اس پر شدید مخالفت متوقع ہے۔ یاد رہے کہ آج ہی ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک بیان میں کہا ہے کہ فلسطینیوں کے پاس کوئی متحرک قیادت نہیں ہے۔ محمود عباس بزرگ ضرور ہیں لیکن لیڈر نہیں۔ یاد رہے کہ مروان برغوثی پر الزام ہے کہ انھوں نے اسرائیلی شہریوں پر مہلک حملوں میں کردار ادا کیا تاہم فلسطینی عوام کی ایک بڑی تعداد انھیں “فلسطین کا نیلسن منڈیلا” قرار دیتی ہے۔ مروان برغوثی فتح تحریک کے ایک اہم رہنما ہیں اور ماضی میں اسرائیل سے جنگ میں نمایاں کردار ادا کر چکے ہیں۔ وہ کئی مرتبہ جیل کے اندر سے بھوک ہڑتال کی قیادت بھی کر چکے ہیں، جس نے انھیں فلسطینی مزاحمت کی علامت بنا دیا ہے۔ امریکی جریدے ٹائم میگزین کو 15 اکتوبر کو دیے گئے ایک انٹرویو میں صدر ٹرمپ سے جب مروان برغوثی کی رہائی کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے کہا کہ وہ اس معاملے پر فیصلہ کرنے والے ہیں تاہم کوئی ٹائم لائن نہیں دی۔ دوسری جانب اسرائیل میں ایک بریفنگ کے دوران امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو نے کہا تھا کہ میرے پاس اس موضوع پر اس وقت کہنے کو کچھ نیا نہیں ہے۔ اسرائیلی اخبار ٹائمز آف اسرائیل نے اس ماہ کے آغاز میں انکشاف کیا تھا کہ امریکی یہودی برادری کے معروف رہنما رونالڈ لاؤڈر بھی مروان برغوثی کی رہائی کے لیے خاموش سفارتی کوششیں کر رہے ہیں۔
اگر آپ اس خبر کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں۔
مزید تفصیل