Loading
کسی بھی قوم کے لیے جدوجہد آزادی اور ریاستی جبر کے خلاف برسرپیکار رہنا ایک بہت کٹھن مرحلہ ہوتا ہے، اس میں پوری قوم کے مختلف طبقات اور الگ الگ نظریات رکھنے والے افراد اپنا اپنا کردار ادا کرتے رہتے ہیں۔ اس تحریک میں وہ اپنی جوانیاں، اپنے خواب اور اپنی زندگیاں خوشی خوشی تج دیتے ہیں، لیکن طاقت وَروں کے آگے شکست تسلیم نہیں کرتے، ایسے ہی کچھ اہم اور دل چسپ عوامل کے ساتھ مسئلہ کشمیر سے جڑے ہوئے کچھ اہم واقعات کو ہم نے مندرجہ ذیل میں ذکر کیا ہے۔ ’ہم پاکستانی ہیں، اور پاکستان ہمارا ہے!‘ اپنے ملک پاکستان کے نظام کی بے شمار خرابیوں پر شاکی رہنے کے دوران جب مقبوضہ وادی سے حریت پسند کشمیری قائد سید علی گیلانی کے یہ پرجوش نعرے ہماری سماعتوں تک پہنچتے تھے، کہ ’’ہم پاکستانی ہیں اور پاکستان ہمارا ہے!‘‘ تو دل پر ایک عجیب سی کیفیت طاری ہوئی جاتی تھی۔ ایک طرف ہمیں ایک شرمندگی کا احساس آ لیتا کہ کیسے ہم سے زمینی طور پر الگ ہو جانے کے باوجود یہ ’بوڑھا درویش‘ جوش وخروش سے اِس ملک پر اپنا تاریخی اور نظریاتی حق جتا رہا ہے اور خود کو ہمارا شہری قرار دے رہا ہے۔ دوسری طرف ہم ہیں کہ ان کے لیے بہ حیثیت شہری شاید اب بھولی بسری داستان سمجھ بیٹھے ہیں۔ کشمیر کی تحریک کے ڈھب کچھ بھی رہیں، لیکن کبھی کبھی تحریکیں صرف ہتھیاروں سے نہیں دل سے بھی لڑی جاتی ہیں۔ اس میں ہمارے نظریات سب سے مقدم رہتے ہیں، ہمارے اصولوں کے عَلم ہمیشہ بلند رہتے ہیں۔ اب چاہے لوگ سید علی گیلانی کی موجودہ کام یابی کو خاطرخواہ قرار نہ دیں اور بہت سے بے رحم تجزیہ کار انھیں ’ناکام‘ بھی قرار دے دیں، لیکن کشمیریوں کی تحریک آزادی کے باب میں سید علی گیلانی کا مرتبہ بلندتر رہے گا۔ سیاسی اصولوں اور نظریات کے باب میں وہ اس پورے خطے میں وہ بہت اونچے سنگھاسن پر براجمان ہیں۔ اگرچہ وہ یکم ستمبر 2021ء کو 91 سال کی عمر میں انتقال کرگئے، لیکن کشمیری نوجوانوں کے دلوں میں آج بھی ان کے افکار زندہ ہیں، جو انھیں ہر لمحہ تحریک دیتے رہیں گے اور وہ ایک دن ضرور جنت نظیر کشمیر کی آزادی کا سورج دیکھ سکیں گے۔ چھے سال سے اسیر یاسین ملک فروری 2019 ء سے ہندوستانی قید میں موجود ممتاز حریت پسند جموں کشمیر لبریشن فرنٹ کے راہ نما یاسین ملک کو دہشت گردی کے الزام میں عمرقید کی سزا سنائی جا چکی ہے، جسے ہندوستان کے انتہاپسند حلقے سزائے موت میں تبدیل کرنے کے لیے بہت زیادہ شور مچا رہے ہیں۔ دوسری طرف پاکستان میں موجود ان کی اہلیہ مشعال ملک اپنے شوہر یاسین ملک کی جان اور صحت کے حوالے سے کئی بار اپنی تشویش ظاہر کر چکی ہیں، لیکن وہ بدستور ہندوستان کی سخت حراست میں موجود ہیں۔ نہ جانے کشمیر کی حریت کے خواب پر اپنی جوانی لُٹا دینے والے اِس جی دار کشمیری کو قفس سے آزادی دیکھنی کب نصیب ہوسکے گی؟ ماضی قریب میں مزاحمت کے نمایاں واقعات ہندوستانی تسلط میں موجود کشمیر میں کچھ برسوں کے ٹھیراؤ کے بعد 2015ء میں مزاحمت کی ایک نئی لہر سامنے آئی، جس نے قابض افواج پر حملوں کا ایک سلسلہ شروع کیا۔ جس میں جولائی 2015ء میں گورداس پور میں پولیس اسٹیشن اور بس پر تین مسلح افراد نے حملہ کیا، چار بھارتی پولیس اہل کار ہلاک ہوئے۔ جنوری 2016ء میں پٹھان کوٹ فضائیہ فوجی اڈے پر چار سے چھے مسلح افراد نے حملہ کیا، جس میں سات بھارتی فوجی ہلاک ہوگئے۔ پمپور میں فروری 2016ء نو اور جون 2016ء میں آٹھ بھارتی اہل کاروں کو مارا گیا۔ اُڑی میں 18ستمبر 2016ء میں چار حملہ آوروں نے بھارتی فوجی بریگیڈ کے صدر دفتر پر حملہ کر کے 19 سپاہی مار دیے۔ 31 دسمبر 2017ء کو لیتھ پورہ میں واقع کمانڈو تربیتی مرکز پر بھی حملہ کیا گیا، اس میں پانچ سیکیوریٹی اہل کار ہلاک ہوئے۔ 18فروری 2019 کو پلوامہ میں 40 بھارتی فوجی ہلاک اور 35 زخمی کیے گئے، اِس کارروائی کو 1989ء کے بعد مقبوضہ کشمیر میں ہونے والا سے سب سے بڑا حملہ قرار دیا جاتا ہے۔ مقبول بٹ سے برہان وانی تک کی جدوجہد کشمیری جدوجہد آزادی میں جہاں ہزاروں جوانوں نے اپنی جانوں کے نذرانے پیش کرتے رہے ہیں، وہیں کچھ نام آج کی نسل کو بھی جذبہ آزادی سے سرشار کرتے ہیں، جن میں 11 فروری 1984 ء کو دلی کی تہاڑ جیل میں پھانسی دیے جانے والے 45 سالہ مقبول بٹ بھی شامل ہیں، اُن پر دو افراد کے قتل کا الزام عائد کیا گیا۔ وہ نظریہ خود مختار جموں و کشمیر کی عَلم بَردار گوریلا جماعت جموں کشمیر نیشنل لبریشن فرنٹ اور سیاسی جماعت جموں کشمیر محاذ رائے شماری کے بانی صدر تھے۔ اس کے بعد 1989ء کے بعد مسلح جدوجہد شروع ہوئی، تو اس نے سب سے زیادہ ہندوستانی حکومت کے ناک میں دَم کیے رکھا، پھر مسلح جدوجہد کے بہ ظاہر ٹھنڈے پر جانے کے بعد ایک اور شیر دل کشمیری مجاہد برہان وانی سامنے آگیا۔ عالَم یہ تھا کہ ہندوستانی حکومت نے برہان وانی کے سر کی قیمت 10 لاکھ روپے رکھ دی تھی۔ انھوں نے اپنے ایک ویڈیو پیغام میں جنوبی کشمیر کے نوجوانوں کو اپنی تنظیم میں بھرتی ہونے کی اپیل کی اور کہا کہ اب تک اس تنظیم میں 30 کے قریب نوجوان شامل ہوچکے ہیں۔ برہان وانی نے 8 جولائی 2016ء کو اپنے دو ساتھیوں کے ساتھ دو گھنٹے مزاحمت کے بعد جام شہادت نوش کیا۔ ان کی شہادت کے بعد وادی میں انٹرنیٹ سروس بند اور کرفیو نافذ رہا۔ وہ پانچ، چھے برس جدوجہد میں مصروف رہے۔ 2015ء میں بھارتی فوج نے ان کے بڑے بھائی خالد مظفر وارثی کو بھی شہید کردیا تھا، ان پر یہ الزام عائد کیا گیا تھا کہ وہ نوجوانوں کو مسلح تنظیم میں شامل کرنے جا رہے تھے۔ برہان وانی کشمیر میں ہندوؤں کی آبادکاری کے خلاف تھے وہ کشمیر کو اسرائیل فلسطین طرز پر بدلنے کی مخالفت کرتے تھے۔ شہلا رشید جیسی صداؤں کا خسارہ! آپ اِسے سمجھوتا کہیے یا کچھ اور 2016ء میں دلی کی ’جواہر لال نہرو یونیورسٹی‘ کی طلبہ یونین کی قائم مقام صدر رہنے والی شہلا رشید کو مستقبل میں مقبوضہ ریاست کے لیے ایک نئی بلند آہنگ نمائندگی قرار دیا جا رہا تھا، لیکن ایسا ہو نہ سکا۔ جب وہ تعلیم مکمل کرکے عملی زندگی میں آئیں، تو اپنے بدل جانے والے نظریات سے دنیا کو حیران کرگئیں کہ فقط چند سال ہی میں وہ اُسی ’بھارتیہ جنتا پارٹی‘ اور انھی بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کی طرف جھکاؤ رکھنے لگیں! یعنی جب 2019ء میں کشمیر کا خصوصی درجہ ختم کیا گیا، تو بہ جائے کم از کم اسی عمل کی مزاحمت کرنے کے، انھوں نے اِس غیر اخلاقی اور غیر قانونی عمل کے حق میں باتیں کرنا شروع کر دیں اور اُسے حیرت انگیز طور پر کشمیریوں کے لیے ’بہتر‘ قرار دینا شروع کر دیا۔ حال ہی میں ہندوستانی مسلمانوں کے حوالے سے ان کی ایک کتاب بھی منظر عام پر آئی ہے، جس کے بعد وہ آئے دن کسی نہ کسی ادبی میلے اور تقریب رونمائی میں اظہارخیال کر رہی ہیں۔ اس سے پہلے وہ کچھ عرصے منظر سے غائب رہیں۔ تاہم انھوں نے 17 مارچ 2019ء تا اکتوبر 2019ء میں سابق سول سروس افسر شاہ فیصل کی قائم کردہ ’جموں کشمیر پیپلز موومنٹ‘ میں شمولیت رکھی، پھر اس سے الگ ہوگئیں اور شاہ فیصل بھی ڈرامائی انداز میں سیاست سے واپس سول سروس میں لوٹ گئے، اِدھر شہلارشید بھی اگست 2019ء میں کشمیر کے ہندوستان میں باقاعدہ انضمام کے بعد ’نامعلوم سیاسی اصولوں‘ کی اسیر ہو کر رہ گئیں۔ یہ مانا جاسکتا ہے کہ سیاست میں زمینی حقائق کے تحت لچک دکھائی جاسکتی ہے اور سمجھوتے بھی کیے جاسکتے ہیں، کہیں آپ اپنے موجودہ حالات کے تحت جھکنے اور سابقہ موقف بدلنے پر مجبور بھی ہو جاتے ہیں، لیکن اس کے بدلے میں آپ حاصل کیا کر رہے ہیں، یہ اہم ہوتا ہے۔ شہلا رشید تو بدل گئی ہیں، لیکن لوگ ابھی تک اس کے بدلے میں مقبوضہ وادی میں اس کے ثمرات دیکھنے کے منتظر ہیں۔ آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان ’آزاد کشمیر‘ جغرافیائی طور پر ہمیں ایک لمبوتری سی شکل میں دکھائی دیتا ہے۔ جو کہ ہندوستان اور پاکستان کے درمیان واقع ہے۔ پاکستان میں یہ ایک خودمختار ریاست کے طور پر ہے۔ سوائے دفاع اور کرنسی کے اس کی ہر چیز جیسا کہ پرچم، صدر، وزیراعظم، سپریم کورٹ وغیرہ سبھی مملکت پاکستان سے جدا ہے۔ تاہم وفاق میں کشمیر کے امور کے حوالے سے ایک خصوصی وزارت ضرور موجود ہے۔ آزاد کشمیر کے ساتھ ایک خطہ ’گلگت بلتستان‘ بھی ہے۔ چین، افغانستان، مقبوضہ کشمیر، آزاد کشمیر اور خیبر پختونخواہ سے ساجھے داری کرنے والا گلگت بلتستان نومبر 1948ء میں آزاد ہوا۔ اِسے بھی کشمیر کی متنازع ریاست کا ہی حصہ قرار دیا جاتا ہے۔ پاکستان میں کشمیری بھی ببانگ دہل اِسے اپنا حصہ قرار دیتے رہے ہیں، لیکن ’گلگت بلتستان‘ کے شہری بھی جواباً یہ سوال کرتے تھے کہ اگر ایسا ہے تو آزاد کشمیر کی اسمبلی میں ہماری نشستیں کبھی کیوں نہیں رہیں؟ اسی صورت حال کے درمیان 29 اگست 2009ء کو صدر مملکت آصف علی زرداری نے گلگت بلتستان کو نیم صوبائی درجہ دیا۔ ناقدین اس اقدام پر تنقید کرتے ہیں، کیوں کہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کے تحت مقبوضہ وادی اور ’آزاد کشمیر‘ کی طرح متنازع حیثیت رکھتا ہے۔ تاہم اب گلگت بلتستان کی اپنی صوبائی اسمبلی موجود ہے، لیکن قومی اسمبلی اور سینیٹ میں ان کی نشستیں نہیں، اس لیے گلگت بلتستان کو پاکستان کا باقاعدہ صوبہ قرار نہیں دیا جاتا۔
اگر آپ اس خبر کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں۔
مزید تفصیل