Loading
کل آٹھ فروری ، بروز ہفتہ انتخابات کے انعقاد کو ایک سال مکمل ہو جائے گا ۔ اِن انتخابات کے نتائج کو سبھی سیاسی جماعتیں ، چاروناچار، تسلیم کر چکی ہیں۔ اگر 8فروری2024 کے انتخابات کو سبھی نے تسلیم نہ کیا ہوتا تو آج مرکز اور صوبوں میں حکومتیں اور اسمبلیاں نظر نہ آ رہی ہوتیں۔ بانی پی ٹی آئی اور پی ٹی آئی مگر پچھلے ایک سال سے مسلسل محاذ آرائیاں کیے ہُوئے ہیں۔ عجب رویہ ہے۔ ایک طرف پی ٹی آئی والے 8فروری کے انتخابات کو متنازع بھی قرار دیتے ہیں، دوسری جانب اِن کے ارکانِ اسمبلی حلف بھی اُٹھا چکے ہیں۔ ہر قسم کی مراعات سے لطف اندوز بھی ہو رہے ہیں۔ پی ٹی آئی والے جب مقتدر نون لیگ اور پیپلز پارٹی کو ’’فارم 47کی حکومت ‘‘ کا مہنا اور طعنہ مارتے ہیں تو اُنہیں ترنت 2018 کے انتخابات میں پُراسرار آر ٹی ایس کے بیٹھنے کا طعنہ سُننا پڑتا ہے۔ یہی آر ٹی ایس تو پی ٹی آئی اور بانی پی ٹی آئی کو مبینہ طور پر اقتدار میں لایا تھا۔ دیکھا جائے تو طعنے، مہنے مارنے والے مذکورہ سبھی فریقین ایک دوسرے کے سامنے (ایک پنجابی محاورے کے مطابق) چھاج اور چھاننی بن کر رہ گئے ہیں ۔ ویسے تو وطنِ عزیز میں ہر حکومت میں ہر لمحہ بڑھتی مہنگائی ، بے روزگاری ، ٹیکسوں کی زیادتیوںنے غریب آدمی کا اتنا جینا حرام کررکھا ہے کہ ہر غریب اور تنگدست پاکستانی کے لیے ہر دن یومِ سیاہ کے مترادف ہے ۔ حیرانی کی بات مگر یہ ہے کہ اسمبلیوں اور سینیٹ کے انتخاب پر کروڑوں روپے خرچ کرکے منتخب ہونے والا پی ٹی آئی کا ہر نمایندہ8فروری2025 کو ’’یومِ سیاہ‘‘ کے طور پر منانے کا عندیہ دے رہا ہے۔ کیا اِسے تماشہ کہا جا سکتا ہے ؟ ویسے یہ ’’یومِ سیاہ‘‘ بھی عجب اصطلاح ہے۔ پاکستان میں لاتعداد بار یومِ سیاہ منائے گئے ہیں۔ابھی31جنوری کو پاکستان بھر کے صحافیوں نے PECAکے متنازع ایکٹ کے خلاف یومِ سیاہ منایا ہے۔ چار بار ملک میں مارشل لا نافذ ہُوا ۔ چار بار آئین ٹوٹا۔ اور چار بار ہی ایامِ سیاہ منائے گئے۔ مگر کہیں اورکسے کوئی فرق پڑا؟ملک دولخت ہو گیا، مگر کوئی بھی17 دسمبر کے طلوع ہونے پر ’’یومِ سیاہ‘‘ نہیں مناتا۔ البتہ4اپریل کو زیڈ اے بھٹو کی پھانسی کی یاد میں پیپلز پارٹی والے اور بھٹو کے عشاق یومِ سیاہ ضرور مناتے ہیں۔ اب مگر اِس میں بھی حدت اور شدت ماند پڑ چکی ہے۔نون لیگئے 12اکتوبر کو اپنا یومِ سیاہ مناتے ہیں ، جب جنرل مشرف نے اپنی سرکاری طاقت سے نواز شریف سرکار کا دھڑن تختہ کیا تھا ۔ اُنہیں سزا بھی دی اور جلاوطن بھی کر دیا ۔ جب سے جناب شہباز شریف اور محترمہ مریم نواز شریف کی صورت میں نون لیگ اقتدار میں آئی ہے، نون لیگ نے اپنا یومِ سیاہ مناناترک کر دیا ہے ۔ اور اب 8فروری کو پی ٹی آئی یومِ سیاہ منانے کا عندیہ دے رہی ہے ۔ پی ٹی آئی کے منتخب ارکانِ اسمبلی اور وابستگانِ پی ٹی آئی کے بانی رہبرورہنما اسیری کی زندگی گزار رہے ہیں۔ پی ٹی آئی کے فراموش شدگان لیڈرز ( شاہ محمود قریشی، ڈاکٹر یاسمین راشد ، اعجاز چوہدری ، عمر سرفراز چیمہ، محمود الرشید وغیرہ) بھی زندانی ہیں ۔ پی ٹی آئی کے کئی عشاق کو عدالتیں لمبی لمبی سزائیں بھی دے چکی ہیں۔کئی سزائیں کاٹ کررہا بھی ہو چکے ہیں مگر اپنے زخم چاٹ رہے ہیں۔ یوں پی ٹی آئی کا یومِ سیاہ منانا ’’بنتا ‘‘ ہے ۔اِس ضمن میں مبینہ طور پر جلی اور خفی تیاریاں بھی جاری ہیں۔ سوال مگر یہ ہے کہ پی ٹی آئی اپنی آرزوؤں کے عین مطابق ’’یومِ سیاہ‘‘ منانے میں کامیاب ہو بھی جائے گی؟ پی ٹی آئی اور بانی پی ٹی آئی کو گزشتہ ایک برس کے دوران جن پے در پے ہزیمتوں کا سامنا کرنا پڑا ہے ، اِس پس منظر میں تو یہی کہا جائے گا کہ یہ کوشش بھی ناکامی سے دوچار ہوگی ۔ واقعہ یہ ہے کہ اِن شکستوں نے پی ٹی آئی کی ہمتیں توڑ کر رکھ دی ہیں۔ اب یلغار کے انداز میں حکومت اور اداروں کے خلاف نکلنا دشوار تر ہو چکا ہے۔ 8فروری سے قبل بانی پی ٹی آئی نے اپنے عشاق کے دل گرمانے اور خفیہ مقاصد حاصل کرنے کے لیے چیف جسٹس آف پاکستان اور آرمی چیف کے نام لمبے لمبے خط بھی لکھے ہیں مگر گوہرِ مقصود نہیں پا سکے۔ 8فروری سے قبل بانی پی ٹی آئی نے پارٹی میں نئے لوگوں کو نئی ذمے داریاں تفویض کی ہیں۔ بانی صاحب کو اِن لوگوں سے ، پچھلوں کے مقابل، زیادہ بلند توقعات ہیں۔ جناب جنید اکبر خان کو خیبر پختونخوا میں پی ٹی آئی کا صوبائی صدر بنایا گیا ہے اور محترمہ عالیہ حمزہ ملک کو پنجاب کا چیف آرگنائزر ۔ اول الذکر (ملاکنڈ ، کے پی سے) تین بار قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہو چکے ہیں اور بانی پی ٹی آئی کے معتمدین میں شمار ہوتے ہیں۔ جنید اکبر کا مسلسل تین بار رکن قومی اسمبلی منتخب ہونا اِس امر کا ثبوت ہے کہ وہ اپنے انتخابی حلقے کے مقبول سیاستدان ہیں ۔ اور عالیہ حمزہ ملک صاحبہ پی ٹی آئی کے ٹکٹ پر خواتین کی مخصوص نشستوں پر پانچ سال رکن قومی اسمبلی رہ چکی ہیں ۔ 8فروری کے عام انتخابات میں اُنھوں نے حمزہ شہباز کے مقابلے میں قومی اسمبلی کا الیکشن لڑا اور خوب ہمت سے لڑا تھا۔ ایک لاکھ سے زائد ووٹ لیے اور صرف چار ہزار ووٹوں کے فرق سے ہار گئی تھیں۔ عدالت میں نتائج کو چیلنج بھی کیا مگر بات نہ بنی۔ 9مئی کے سانحات کے نتیجے میں وہ کوٹ لکھپت جیل (لاہور) اور گوجرانوالہ کی سینٹرل جیل میں تقریباً آٹھ مہینے قیدو بند کی سزا کاٹ چکی ہیں۔ یوں اپنے بانی چیئرمین کی نظر میں سرخرو ہیں ۔ پارٹی کی کمٹڈ اور ہارڈ لائنر رکن ہیں ۔اِسی ناتے سے اب عالیہ کو پنجاب کی چیف آرگنائزر بنایا گیا ہے ۔ یوں کہا جا سکتا ہے کہ 8فروری کا احتجاج یا یومِ سیاہ جنید اکبر اور عالیہ حمزہ کے لیے کسی بڑے امتحان سے کم نہیں ہے۔ محترمہ مریم نواز شریف پنجاب میں پی ٹی آئی کا چراغ نہیں جلنے دے رہیں۔ اُن کی عوامی خدمات کا زور اس قدر زیادہ ہے کہ پی ٹی آئی کو آگے بڑھنے میں بڑی دشواریوں کا سامنا ہے۔ عالیہ حمزہ صاحبہ خاتون وزیر اعلیٰ کی موجودگی میں اپنا اور پارٹی کا چراغ کیسے روشن کرنے میں کامیاب ہوں گی ، ایک بڑا سوالیہ نشان ہے ۔ پھر بھی وہ اپنا آپ منوانے کے لیے ایڑھی چوٹی کا زور لگا رہی ہیں ۔ بذریعہ عدالت اجازت لے کر لاہور میں8فروری کو جلسہ کرنے کی خواہشمند ہیں۔ دونوں قائدین مگر اسلام آباد پر یلغار کرنے کی ہمت نہیں کریں گے۔ ہاں ، البتہ جنید اکبر خان اپنے صوبے میں سرخرو ہونے کے لیے ہر ممکنہ کوشش کریں گے۔ شائد صوابی میں ایک آدھ جلسہ کرکے دل پشوری کر لیں۔ وہ اپنے متعدد انٹرویوز میں متعدد بار کہہ چکے ہیں کہ8فروری کے حوالے سے حکومت اور طاقتوروں سے کوئی مکالمہ نہیں ہوگا۔ اُن کے لہجے میں جارحیت نظر آتی ہے ۔ کامیابی مگر مشکوک اور مشتبہ ہے۔ ایسے میں وزیر اعلیٰ کے پی ، جناب علی امین گنڈا پور، کے سر پر دو دھاری تلوار لٹک رہی ہے ۔ کے پی میں 8فروری کا احتجاج یا مبینہ یومِ سیاہ کامیابی سے ہمکنار ہو جاتا ہے ، تب بھی وہ سخت تنقیدات کی زد میں رہیں گے ۔ اِس شک کے ساتھ کہ وہ صوبائی صدارت کے منصب سے ہٹائے گئے ہیں تو دیکھا احتجاج کامیاب ہو گیا ہے ۔ اور اگر 8 فروری ناکامی پر منتج ہوتا ہے، تب بھی ناکامی کا ملبہ علی امین گنڈا پور پر گرنے کا خدشہ ہے ، اِس اظہاریئے کا ساتھ کہ علی امین صاحب نے جنید اکبر خان سے مطلوبہ تعاون نہیں کیا ۔ وزیر داخلہ بھی کہہ چکے ہیں کہ پی ٹی آئی 8فروری کو جلسے نہ کرے تو یہ اُن کے لیے ’’مناسب‘‘ ہوگا۔ دعا ہے 8فروری امن سے گزر جائے ۔
اگر آپ اس خبر کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں۔
مزید تفصیل