Monday, July 14, 2025
 

پاکستان اور افغانستان میں بڑھتی قربت

 



ایک ڈرامائی پیش رفت میں پاکستان اور افغانستان نے اپنے سفارتی تعلقات سفیر کی سطح تک بڑھانے پر اتفاق کیا ہے جو افغان طالبان حکومت کی واپسی کے بعد سے کشیدہ دو طرفہ تعلقات میں ایک بڑی تبدیلی کا اشارہ ہے۔ یہ اعلان چند ماہ قبل بیجنگ میں چین، افغانستان اور پاکستان کے وزرائے خارجہ کے غیر رسمی سہ فریقی اجلاس کے بعد کیا گیا۔ اس حیران کن اقدام کو تیزی سے ترقی پذیر علاقائی جغرافیائی سیاست میں انتہائی اہم سمجھا جا رہا ہے۔ صرف چند دوسرے ممالک …چین، روس، متحدہ عرب امارات اور ازبکستان نے 2021ء میں دوبارہ اقتدار سنبھالنے کے بعد طالبان حکومت کی نمائندگی کرنے والے سفیروں کی میزبانی کرنے پر اتفاق کیا ہے۔ پاکستان اس سے قبل کابل میں قونصل خانے کی سطح پر موجودگی برقرار رکھتا تھا۔ تاہم ابھی تک روس کے علاوہ کسی اور ملک نے طالبان انتظامیہ کو باضابطہ طور پر تسلیم نہیں کیا۔ اس کی ایک بنیادی وجہ طالبان کی خواتین کو تعلیم اور کام کے حق کے استعمال سے روکنے کی پالیسی ہے۔ قیادت میں سخت گیر افراد کے غلبے کے پیش نظر طالبان حکومت سے اپنی قدامت پسندانہ پالیسی کو معتدل کرنے کی توقع کرنا مشکل ہے۔ برف پگھل گئی دلچسپ بات یہ کہ پاک افغان دوستی کی پیش رفت بھارت اور پاکستان کے درمیان چار روزہ لڑائی کے بعد ہوئی جس نے خطے کو ایک وسیع تر تنازع کی طرف دھکیلنے کا خطرہ پیدا کر دیا ہے۔ اس وقت کابل نئی دہلی کے قریب ہو رہا تھا لیکن بیجنگ اجلاس ایک نمایاں تبدیلی لے آیا۔ دونوں ہمسایہ ممالک ،پاکستان اور افغانستان کے درمیان معاملات ٹھیک کرنے میں چین کا کردار واضح ہے، مگر دونوں طرف سے سفارتی حساسیت بھی تھی جس نے برف پگھلانے میں مدد کی۔ سفارتی تعلقات بلند کرنے کا فیصلہ واقعی ایک مثبت اقدام ہے۔ یہ مختلف شعبوں میں دو طرفہ تعاون کو بڑھانے کی راہ ہموار کرتا ہے۔ وزیر خارجہ اسحاق ڈار نے سوشل میڈیا پر لکھا "مجھے یقین ہے ، یہ قدم بڑھے ہوئے روابط، اقتصادی، سیکیورٹی، انسداد دہشت گردی اور تجارتی شعبوں میں پاک افغان تعاون مزید گہرا کرنے اور دو برادر ممالک کے درمیان مزید تبادلوں کو فروغ دے گا۔‘‘ لیکن اب بھی کچھ بڑی رکاوٹیں موجود ہیں جو دونوں ممالک کے لیے اختلافات دفن کرنا مشکل بنا دیتی ہیں۔ طالبان کی حکمرانی کے ابتدائی چند ماہ چھوڑ کر دونوں ممالک کے درمیان تعلقات نیچے ہی گئے ہیں۔ حالیہ دنوں میں سرحدی جھڑپوں اور تجارت کی بندش کے بڑھتے واقعات کے ساتھ تعلقات دشمنی میں بدل گئے تھے۔ لیکن سب سے زیادہ آگ لگانے والا مسئلہ پاکستانی ریاست کے خلاف جنگ کرنے والے عسکریت پسندوں کی طرف سے افغان سرزمین کا استعمال ہے۔ زیادہ تر معاملات میں عسکریت پسند نیٹ ورکس، خاص طور پر کالعدم ٹی ٹی پی افغان طالبان کمانڈروں کی خفیہ حمایت سے کام کر رہے ہیں۔ طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد سے ٹی ٹی پی کے دہشت گردانہ حملوں میں ڈرامائی اضافہ ہوا ہے۔ عسکریت پسند اب بہت بہتر طریقے سے لیس اور تربیت یافتہ ہیں۔ وہ جدید ترین ہتھیاروں سے لیس ہیں جو امریکی اور نیٹو افواج کے2021ء میں افغانستان سے انخلا کے بعد چھوڑ گئے تھے۔ لیکن ٹی ٹی پی کے دوبارہ وجود میں آنے اور پاکستان کے خلاف بڑھتے ہوئے دہشت گرد حملوں کا سارا الزام کابل پر ڈالنا درست نہیں ۔ حقیقی دوست پیچیدہ علاقائی حرکیات کے باوجود پاکستان نے مستقل طور پر ایک پُرامن اور خوشحال افغانستان کی حمایت کی ہے۔اسے نہ صرف پڑوسی کی ذمے داری کے طور پر بلکہ علاقائی استحکام کے لیے ایک سٹریٹجک ناگزیر طور پر دیکھا ہے۔ بار بار پاکستان نے اپنے آپ کو ایک قابل اعتماد اور ہمدرد اتحادی ثابت کرتے ہوئے حقیقی دوستی کا ہاتھ بڑھایا ہے۔ ہماری قومیں صدیوں پر محیط ایک رشتہ رکھتی ہیں۔ قدیم افغانستان برصغیر کے لیے ایک اہم تجارتی گیٹ وے تھا جس نے گہرے ثقافتی، مذہبی اور تجارتی تبادلوں کو فروغ دیا اور جنھیں پاکستان آج بھی بحال کرنے کا خواہاں ہے۔ اقتصادی، سماجی اور سلامتی کے لحاظ سے دونوں ممالک اندرونی طور پر جڑے ہوئے ہیں۔ ایک میں امن دوسرے پر براہ راست اثر انداز ہوتا ہے۔ایک مستحکم افغانستان سرحد پار سے ہونے والے جرائم، دہشت گردی اور پناہ گزینوں کے بہاؤ کم کرنے میں مدد کرتا ہے، جس سے پاکستان کی سلامتی کو براہ راست فائدہ پہنچتا ہے۔ اس لیے افغان لیڈروں کی زیر قیادت امن عمل کے لیے ہم ان کی پرُجوش وکالت کرتے رہے ۔ پاکستان کا استحکام تجارت اور علاقائی روابط بڑھاتا ہے جو افغانستان کی بحالی کے لیے بہت ضروری ہیں۔ منفرد انسانی رشتے عالمی مفادات کی اکثر عارضی نوعیت کے برعکس پاکستان کی افغانستان کے لیے حکمت عملی طویل مدتی ہے اور اس کی جڑیں مشترکہ علاقائی خوشحالی پر مبنی ہیں۔یہ تعلق حکومتی پالیسیوں سے زیادہ گہرا ہے۔ ہماری 2600کلومیٹر طویل سرحد عقیدے اور نسلی ورثے میں شریک برادریوں کو جوڑتی ہے- منفرد انسانی رشتوں کو فروغ دینے والی یہ سماجی ہم آہنگی ہمارے پائیدار تعلقات، خاص طور پر مشکل وقت میں عوامی سفارت کاری کی بنیاد بنتی ہے۔ پاکستان ہمیشہ باہمی فائدے کو ترجیح دیتے ہوئے ہر افغان حکومت کے ساتھ خوشگوار تعلقات کا خواہاں رہا ہے۔ جب کہ افغان انتظامیہ کے کچھ حصے بیرونی اثرات کی زد میں آکر پاکستان کے خلاف بداعتمادی کو ہوا دیتے رہے۔  ہم نے ہمیشہ بات چیت کو آگے بڑھایا ۔ہمارا مستقل مؤقف افغانستان کا امن، استحکام اور ترقی ہے جو قومی مفاد اور علاقائی سلامتی پر مبنی ہے۔ یہ غیر متزلزل عزم شاید ہماری بے مثال سخاوت کی بہترین مثال ہے: چار دہائیوں سے زائد عرصے سے چالیس لاکھ سے زیادہ افغان مہاجرین کی میزبانی جو دنیا کی سب سے بڑی اور طویل ترین پناہ گزینوں میں سے ایک ہے۔ اگست 2021ء کے بعد بھی جب نیٹو کے ساتھ کام کرنے والے افغانوں کو قبول کرنے میں بہت سی قومیں ناکام ہوئیں، پاکستان نے پھر انسانیت کو ترجیح دی۔ مزید دس لاکھ قانونی اور غیر دستاویزی پناہ گزینوں کو پناہ دی۔عالمی ذمہ داری کو اس وقت بھی وقار کے ساتھ برقرار رکھا جب دیگر ممالک کے وعدے بڑے پیمانے پر پورے نہ ہوئے۔ میدان تعلیم میں مدد انسانی پناہ کے علاوہ پاکستان نے افغانستان کے مستقبل میں اہم شعبوں میں گہری سرمایہ کاری کی ہے۔پاکستان براہ راست افغان بہبود اور انفراسٹرکچر میں اپنا حصہ ڈال رہا ہے۔ تعلیم میں پاکستان نے بھرپور تعاون فراہم کیا ہے۔ اس میں پاکستان کے اندر افغان مہاجرین کے لیے135 سے زیادہ اسکولوں کا قیام، ہماری یونیورسٹیوں میں 7000 سے زیادہ افغان طلبہ کی میزبانی اور4500 نئے علامہ اقبال اسکالرشپس کی پیشکش شامل ہے۔ ایک لاکھ سے زیادہ افغان پاکستانی اداروں سے فارغ التحصیل ہو چکے جن میں سے بہت سے اب مختلف شعبوں میں اپنے وطن کی خدمت کر رہے ہیں۔ خود افغانستان میں بنیادی ڈھانچے کے منصوبے اس عزم کو مزید واضح کرتے ہیں، جیسے کابل میں رحمن بابا ہائی اسکول اور ہاسٹل ، بلخ یونیورسٹی میں لیاقت علی خان انجینئرنگ فیکلٹی اور کابل یونیورسٹی میں علامہ اقبال فیکلٹی آف آرٹس کی تعمیر ۔ یہ منصوبے افغان نوجوانوں کو بااختیار بنانے اور پائیدار ترقی کو فروغ دینے میں پاکستان کے وژن کی عکاس ہیں۔ شعبہ صحت افغانستان کے اندر صحت کی دیکھ بھال اور طبی سفارت کاری کے حوالے سے بھی پاکستان کی وابستگی وسیع رہی ہے۔ پاکستان نے کابل میں جناح ہسپتال (500 بستروں کی سہولت )، جلال آباد میں نشتر کڈنی سنٹر (200 بستر)، اور لوگار میں نیا امین اللہ خان ہسپتال (200 بستر) جیسی بڑی سہولیات تعمیر کی ہیں ۔ بڑے ہسپتالوں کے علاوہ پاکستان نے 145یمبولینسز، 14 موبائل میڈیکل یونٹس فراہم کیے اور میڈیکل کیمپوں کے ذریعے آنکھوں کے تیس ہزار سے زیادہ مفت آپریشن کیے جس سے ہزاروں افغانوں کی زندگیوں میں آسانی ہوئی ہے۔ بنیادی ڈھانچے کی تعمیر مزید برآں پاکستان نے بنیادی ڈھانچے کی ترقی میں کلیدی کردار ادا کیا ۔ اس میں75 کلومیٹر طویل طورخم-جلال آباد روڈ کو مکمل کرنا، جلال آباد میں داخلی سڑکوں کو بہتر بنانا، اور چمن-اسپن بولدک اور پشاور-جلال آباد لائنز جیسے اہم ریلوے منصوبوں کے لیے فزیبلٹی اسٹڈیز کا انعقاد شامل ہے۔ ان اقدامات کا مقصد تجارت اور نقل و حرکت کو بہتر بنانا اور افغانستان کو علاقائی معیشت میں زیادہ مؤثر طریقے سے ضم کرنا ہے۔ ہماری انسانی امداد کی کوششیں مسلسل اور خاطر خواہ رہی ہیں: صرف ستمبر2021 ء سے ستمبر2022ء کے درمیان پاک افغان تعاون فورم نے اٹھاسی قافلے روانہ کیے جن کے ذریعے پونے تین ارب روپے مالیت کی 15540ٹن امداد پہنچائی گئی۔ کل انسانی امداد پچیس ہزار ٹن ہے جس کی مالیت تیس کروڑ ڈالر بنتی ہے۔ پاکستان نے اس اہم امداد کو تب بھی جاری رکھا جب عالمی توجہ کسی اور طرف منتقل ہو گئی۔اس عمل نے ہمارے مستقل عزم کو اجاگر کیا۔ ان بڑے شعبوں سے ہٹ کر پاکستان کی حمایت متنوع شعبوں میں بڑھی ہے جیسے قندھار کے لیے ٹی وی ٹرانسمیٹر فراہم کرنا، سیکیورٹی آلات اور کمپیوٹرز کو اپ گریڈ کرنا، کابل کے دیہی علاقوں میں گہرے کنویں کے ہینڈ پمپوں کی تنصیب، اور یہاں تک کہ کابل چڑیا گھر اور دیہہ مزنگ پارک جیسے ثقافتی مقامات کی بحالی۔ یہ مختلف شراکتیں روزمرہ شہری زندگی کو بہتر بناتی اور ثقافتی ورثے کو محفوظ رکھتی ہیں۔ رشتہ لین دین کا نہیں پاکستان کی علاقائی پالیسی بنیادی طور پر پُرامن، محفوظ اور اقتصادی طور پر مستحکم افغانستان کی تشکیل ہے۔ ہمارا رشتہ لین دین کا نہیں ، یہ برادرانہ، وقت کی آزمائش اور گہرائی سے مشترکہ تقدیر میں بْنا ہوا ہے۔ کوئی اور قوم افغانستان کے ساتھ اس طرح مستقل، مخلصانہ اور دردمندانہ عزم کے ساتھ نہیں کھڑی ہوئی۔ پاکستان نے حقیقی معنوں میں پورے خطے میں امن اور خوشحالی کے لیے افغانستان کے مستقبل میں سرمایہ کاری کی ہے۔ اس کا ایک ثبوت یہ ہے کہ پاکستان کی گوادر بندرگاہ افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کا مرکز بن رہی ہے۔ پچھلے دنوں وہاں بیس ہزار میٹرک ٹن ڈائی امونیم فاسفیٹ کھاد لانے والے بحری جہاز نے برتھنگ کی ہے۔یہ جہاز علاقائی تجارتی رابطے بڑھانے میں ایک اور سنگ میل کی نشاندہی کرتا ہے۔اس موقع پر بحری امور کے پاکستانی وزیر، محمد جنید انور چوہدری نے کہا کہ یہ گوادر پورٹ کو خشکی سے گھرے افغانستان کے لیے ایک اسٹریٹجک تجارتی گیٹ وے کے طور پر فعال کرنے کی ہماری مسلسل کوششوں کا حصہ ہے۔ ٹرانزٹ ٹریڈ میں گوادر کا بڑھتا ہوا کردار افغانستان کی بین الاقوامی منڈیوں تک ہموار رسائی کے لیے ہمارے عزم کی عکاسی کرتا ہے۔ اسی طرح حال ہی میں نائب وزیر اعظم پاکستان ، اسحاق ڈار نے ازبکستان کے وزیر خارجہ ،سعیدوف بختیار اوڈیلووچ سے ٹیلیفون پر بات کی جس میں انہوں نے افغانستان حکومت سے مشاورت کے بعد’’ یو اے پی ریلوے منصوبے‘‘ کے فریم ورک معاہدے کو حتمی شکل دینے اور دستخطی تقریب کے طریق کار پر تبادلہ خیال کیا۔یہ ریلوے لائن منصوبہ ایک سہ فریقی اقدام ہے جو وسطی ایشیا کو گوادر اور کراچی کی بندرگاہوں سے افغانستان کے راستے جوڑے گا۔ یہ منصوبہ تاشقند کو کابل کے ذریعے پشاور سے573 کلومیٹر طویل پٹری کے ذریعے منسلک کرے گا جس کی تعمیر پر تقریباً چار ارب اسی کروڑ ڈالر لاگت آئے گی۔ سہ فریقی تعاون کی اہمیت  ممتاز چینی ماہر اور چارحر انسٹیٹیوٹ کے سینئر ریسرچ فیلو، پروفیسر چنگ شیڑونگ کہتے ہیں ’’موجودہ پیچیدہ علاقائی سیاسی و اقتصادی صورتحال میں چین، پاکستان اور افغانستان کے درمیان تعاون کو غیر معمولی تزویراتی اہمیت حاصل ہو گئی ہے۔تینوں ملک جغرافیائی طور پر ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں اور ان کے درمیان تاریخی و ثقافتی روابط کی طویل تاریخ ہے۔ موجودہ حالات میں یہ سہ فریقی تعاون نہ صرف ان ممالک بلکہ پورے خطے اور دنیا کے امن و ترقی کے لیے سازگار ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ جیوپولیٹیکل نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو چین، پاکستان اور افغانستان کے درمیان تعاون علاقائی سیاسی منظرنامے کے لیے مثبت ہے۔ افغانستان، جو ایشیا کے قلب میں واقع ہے، وسطی ایشیا، جنوبی ایشیا اور مغربی ایشیا کو جوڑنے والا کلیدی مقام رکھتا ہے۔ان ممالک کے درمیان تعاون خاص طور پر چین-پاکستان اقتصادی راہداری (CPEC) کی توسیع افغانستان کو ایک بند خشکی میں گھرے ملک سے ایک اہم علاقائی رابطے کے مرکز میں بدلنے میں مدد دے سکتا ہے۔ پشاور-کابل ایکسپریس وے اور گوادر- ہرات ریلوے جیسے بنیادی ڈھانچے کے منصوبوں کی تعمیر سے افغانستان کو بحرِ ہند تک رسائی ملے گی، اپنے قیمتی معدنی وسائل کو عالمی منڈیوں تک پہنچانے کا موقع ملے گا اور وہ عالمی اقتصادی نظام میں ضم ہو سکے گا۔یہ عمل نہ صرف افغانستان کی علاقائی معیشت میں غیرمرکزی حیثیت کو بدل سکتا ہے بلکہ جنوبی ایشیا، وسطی ایشیا اور مشرقِ وسطیٰ کے درمیان اقتصادی روابط کو بھی مضبوط کرے گا۔ پروفیسر چنگ کا کہنا ہے کہ ’’ اقتصادی تکمیلیت‘‘ چین، پاکستان اور افغانستان کے درمیان تعاون کی مضبوط بنیاد ہے، اور یہ تینوں ممالک کی مشترکہ ترقی کو فروغ دینے والی ایک طاقتور محرک قوت بھی ہے۔ چین دنیا کی دوسری بڑی معیشت ہونے کے ناتے سرمایہ، ٹیکنالوجی اور صنعتی نظام میں نمایاں برتری رکھتا ہے۔ پاکستان کے پاس بڑی لیبر مارکیٹ، قدرتی وسائل اور اہم سمندری بندرگاہیں موجود ہیں جب کہ افغانستان معدنی وسائل سے مالا مال اور زرعی ترقی کی ممکنہ صلاحیت رکھتا ہے۔ تجارت کے میدان میں یہ سہ فریقی تعاون تجارتی اخراجات کم کر سکتا ہے۔ چین نے صرف چلغوزے کی تجارت کے ذریعے افغانستان کو کروڑوں ڈالر کی آمدن فراہم کی ہے۔ مستقبل میں زرعی تعاون گہرا کرنے اور صنعتی مصنوعات و روزمرہ ا شیا کی تجارت کو وسعت دینے کے ساتھ ساتھ تینوں ممالک اپنی صلاحیتوں کو ایک دوسرے کے ساتھ ہم آہنگ کر کے باہمی فائدے اور جیت کی بنیاد پر تجارتی ڈھانچہ قائم کر سکتے ہیں۔ چینی اسکالر نے مزید کہا کہ انفراسٹرکچر کی تعمیر اور ٹرانسپورٹ نیٹ ورک کی بہتری علاقائی تجارت اور سرمایہ کاری کے لیے سازگار حالات پیدا کر سکتی ہے۔یہ بین الاقوامی سرمائے کو متوجہ کر کے صنعتی و شہری ترقی کے عمل تیز کر دے گی۔’’سیکیورٹی تعاون‘‘ سہ فریقی شراکت داری کا ایک ناگزیر اور اہم جزو ہے، اور یہ خطے کا امن و استحکام برقرار رکھنے کے لیے نہایت اہم ہے۔ تینوں ممالک کو دہشتگردی، انتہاپسندی اور سرحد پار جرائم جیسے خطرات کا سامنا ہے۔ چین، پاکستان اور افغانستان مشترکہ طور پر ’’انسداد دہشتگردی انٹیلیجنس شیئرنگ سینٹر‘‘ قائم کر سکتے ہیں۔ اس طرح معلومات کے تبادلے اور مشترکہ کارروائیوں کے ذریعے سرحد پار دہشتگردوں کے خلاف مؤثر کارروائیاں کرنا ممکن ہو جائے گا۔ اس طرح کا تعاون خطے میں دہشتگردی کا پھیلاؤ روکنے اور چین-پاکستان اقتصادی راہداری جیسے منصوبوں کی حفاظت یقینی بنانے میں مددگار ہو گا۔افغانستان اور پاکستان میں بڑھتی قربت۔ پاک بھارت حالیہ لڑائی کے مضمرات اور چین کی ٹھوس کوششیں ایک دوسرے سے کھنچے پڑوسی ممالک کو قریب لے آئیں۔ چین، پاکستان اور افغانستان کے درمیان تعاون کئی اسٹریٹجک حوالوں سے اہم ہے، جن میں جغرافیائی سیاست کی نئی تشکیل، اقتصادی ترقی، سلامتی کا اشتراک اور عالمی تعاون کا عملی مظاہرہ شامل ہیں۔مستقبل میں تینوں ممالک کو تعاون مزید گہرا کرنے، شعبوں کو وسعت دینے، اشتراک کا معیار بہتر بنانے، مشترکہ چیلنجز سے نمٹنے اور خطے میں پائیدار امن و خوشحالی حاصل کرنے کی کوششیں کرنی ہوں گی تاکہ ’’ مستقبل کی مشترکہ انسانی برادری‘‘ وجود میں لائی جا سکے۔ پاکستان اور افغانستان کے مابین تعلقات کی بہتری خوش آئند پیش رفت ہے۔ پاکستان اور افغانستان کے تعلقات میں بہتری ایک نازک موڑ پر ہوئی ہے جو حالیہ مہینوں میں عدم استحکام اور باہمی عدم اعتماد کی طرف سے نشان زد کیا گیا تھا. دو طرفہ تعلقات بگڑتے جا رہے تھے جس کی بڑی وجہ سرحد پار دہشت گردانہ حملوں میں اضافہ تھا ۔ تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) افغانستان سے کام کر رہی ہے۔ ٹی ٹی پی کے اقدامات نمایاں ہیں۔ اس نے پاکستان کے سیکورٹی حساب کتاب کو کمزور کیا اور افغانستان کے کردار کے حوالے سے پاکستان میں خدشات کو ہوا دی۔انسداد دہشت گردی تعاون میں کمی اور عسکریت پسندی کے دوبارہ سر اٹھانے کے علاوہ بار بار ہونے والی جھڑپوں نے بھی پاکستان اور افغانستان کی سرحد پر دو طرفہ کشیدگی میں مزید اضافہ کیا۔ تاہم، ایک اہم پیش رفت ایک سینئر طالبان کمانڈر، سعید اللہ سعید کا حال ہی میں دیا گیا ایک سخت بیان ہے۔انھوں نے عسکریت پسند دھڑوں کو غیر مجاز جہاد میں ملوث ہونے کے خلاف انتباہ کیا اور خاص طور پر پاکستان کو نشانہ بنانے پر ٹی ٹی پی کو تنقید کا ہدف بنایا۔انہوں نے زور دے کر کہا کہ ایسے اقدامات نہ صرف امارت اسلامیہ کی قیادت و ہدایات کی خلاف ورزی ہیں بلکہ شرعی اصولوں کی بھی خلاف ورزی ہیں۔ کمانڈر سعید نے مزید واضح کیا کہ امارات افغانستان نے واضح طور پر پاکستان میں سرحد پار سے کسی بھی غیر مجاز سرگرمی پر پابندی لگا دی ہے، یہ کہتے ہوئے کہ ایسی کارروائیاں مرکزی کمان کی نافرمانی کا عمل ہیں۔  پاکستان اور افغانستان کے تعلقات کو باہمی احترام، عدم مداخلت پر استوار ہونا چاہیے۔ اور خاص طور پر سیکورٹی تعاون، اقتصادی انضمام اورکنیکٹوٹی کے شعبوں میں بیرونی دشمنیوں سے دوطرفہ مصروفیات الگ کر کے دونوں ممالک مشترکہ مفادات کا تحفظ یقینی بنا سکتے ہیں۔ اس طرح ان کے تعلقات کی تعریف بیرونی تنازع کے بجائے تعمیری تعاون سے ہوگی ۔مزید برآں، یہ بھی ضروری ہے کہ پاکستان اور افغانستان آزاد و خودمختار رہتے ہوئے دوستی کا ایسا مثالی فریم ورک تشکیل دیں جو بیرونی علاقائی کشیدگی کے منفی اثرات سے پاک رہے۔

اگر آپ اس خبر کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں۔

مزید تفصیل