Wednesday, August 06, 2025
 

اے آئی سرجری اور میڈیکل فیلڈ کے مختلف شعبوں کو تیزی سے بدل رہا ہے: ماہرین

 



بین الاقوامی طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ مصنوعی ذہانت (اے آئی) انٹرنل میڈیسن اور ریڈیالوجی جیسے شعبوں میں ایسی باریکیاں پکڑنے کی صلاحیت رکھتی ہے جو بعض اوقات ماہر ڈاکٹرز کی نگاہ سے بھی اوجھل رہتی ہیں۔اے آئی سی ٹی اسکین میں وہ چیزیں شناخت کر لیتی ہے جنہیں انسانی آنکھ نظر انداز کر دیتی ہے، یہی وجہ ہے کہ اے آئی سرجری اور تحقیق سمیت میڈیکل فیلڈ کے مختلف شعبوں کو تیزی سے بدل رہا ہے۔ نیویارک کی کولمبیا یونیورسٹی سے وابستہ طبی ماہرین نے جناح اسپتال کراچی میں منعقد ہونے والی لیپرواسکوپی (laparoscopy) اور ویٹ لاس (بیریاٹرک) سرجری کی جدید تکنیکوں پر مبنی دو روزہ ورکشاپ میں اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ اس ورکشاپ میں نیویارک سے تعلق رکھنے والے کولمبیا یونیورسٹی کے پروفیسر آف سرجری جارج ایس فرزلی اور ان کے فیلو ڈاکٹر الیگزینڈر وو نے شرکت کی۔ اس موقع پر سرجیکل ریزیڈنٹس اور پوسٹ گریجویٹس کو جدید تکنیکوں کی عملی تربیت دی گئی۔ورکشاپ کا مقصد محفوظ، مؤثر اور بین الاقوامی معیار کے مطابق سرجری کے طریقے متعارف کرانا تھا۔ جناح اسپتال کراچی کے ایگزیکٹیو ڈائریکٹر پروفیسر شاہد رسول کا کہنا تھا کہ ہم معمول کے مطابق ورکشاپس کا انعقاد کرتے ہیں، جن میں بین الاقوامی ماہرین کو مدعو کرکے نئی تکنیکیں سیکھتے ہیں۔اس ورکشاپ میں نیویارک سے تعلق رکھنے والے کالمبیا یونیورسٹی کے پروفیسر جارج ایس فرزلی نے شرکت کی یہ سرجری کے پروفیسر ہیں۔ جنرل سرجری اور ویٹ لاس سرجری کے ماہر ہیں۔ انہوں نے ہماری پی جی اور پوسٹ گریجویٹ طلبہ کو مختلف سرجریز کے محفوظ اور مؤثر طریقوں سے آگاہ کیا۔ سربراہ جناح اسپتال نے کہا کہ میں نے دنیا کے کئی ممالک میں ماہرین کے ساتھ کام کیا ہے اور ہر تجربے سے کچھ نیا سیکھا ہے۔ اس طرح کی ورکشاپس میں جب ہم ماہرین کی نگرانی میں نئی تکنیکوں پر عمل کرتے ہیں تو غلطیوں کا امکان کم ہو جاتا ہے۔ روبوٹک سرجری سیکھنے سے پہلے لیپرواسکوپک سرجری پر عبور حاصل کرنا ضروری ہے۔ آئندہ 20 برسوں میں بھی روبوٹک سرجری لیپرواسکوپک سرجری کی جگہ نہیں لے سکتی، کیونکہ دونوں کا اپنا الگ کردار ہے۔  ڈاکٹر الیگزینڈر وو نے کہا کہ مصنوعی ذہانت (اے آئی) کی ترقی پر بات کرنے کے لیے اس سے بہتر جگہ کوئی نہیں، خاص طور پر جب یہاں ایسے افراد موجود ہوں جو خود موجد (انوویٹر) ہیں۔ 90 کی دہائی کے اوائل میں لیپرواسکوپی آ رہی تھی اور اوپن سرجری عام تھی۔ اس وقت بھی نئی ٹیکنالوجی کو اپنانے کے لیے جرات اور قبولیت کی ضرورت تھی۔ پھر لیپرواسکوپی کو اپنایا گیا اور اس کی صلاحیت دیکھی گئی۔ انہوں نے کہا کہ آج بھی یہی صورتحال ہے، کوئی شک نہیں کہ مصنوعی ذہانت میڈیسن (طب) کے شعبے کو سنبھالنے اور اسے بدلنے جا رہی ہے۔ہم اس کے اثرات ابھی سے دیکھ رہے ہیں، مریض اب خود اپنی بیماریوں اور ادویات کے بارے میں جاننا چاہتے ہیں، اور وہ چیٹ جی پی ٹی جیسے اے آئی ماڈلز سے رجوع کرتے ہیں۔فی الحال اے آئی سب سے زیادہ جس شعبے پر اثر کر رہی ہے وہ اندرونی طب (Internal Medicine) اور ریڈیالوجی ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ اے آئی کبھی کبھار سی ٹی اسکین پر وہ چیزیں شناخت کر لیتی ہے جو ہم ڈاکٹرز سے بھی چھپ جاتی ہیں، کیونکہ کئی چیزیں طبی طور پر بہت زیادہ اور پیچیدہ ہو چکی ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ سرجری کے شعبے میں اے آئی کا اثر دو طریقوں سے ہو رہا ہےپہلا طریقہ یہ ہے کہ اے آئی بڑے پیمانے پر ڈیٹا کی بنیاد پر نتائج اور تحقیق کو دیکھ کر نئے ماڈلز، سیکھنے کے طریقے اور پیشن گوئیاں دے رہی ہے، جو سرجنز آپریشن سے پہلے یا بعد میں اپنی سرجری کو بہتر بنانے کے لیے استعمال کریں گے۔ اب تحقیق محض تحقیق نہیں رہی، کیونکہ انسان اتنے بڑے ڈیٹا کو خود سے پروسیس نہیں کر سکتا، یہ کام اب اے آئی کر رہا ہے۔دوسرا طریقہ روبوٹک سرجری کی صورت میں ہے،روبوٹک سرجری میں بڑی تیزی سے ترقی ہو رہی ہے۔ جب بھی آپ روبوٹ کو حرکت دیتے ہیں، کمپنیاں اور پروگرامز آپ کے سرجری کے ہر قدم کو ریکارڈ کرتے ہیں اور نتائج سے جوڑتے ہیں۔ ایک وقت ایسا آ سکتا ہے کہ روبوٹ کے حرکات کو مثالی نمونہ بنا سکتے ہیں۔تاکہ وہ خود سرجری کرسکے،ابھی ہم اس مقام سے بہت دور ہیں۔لیکن اس سب کے باوجود، لیکن ہم تب بھی آپریٹنگ رومز میں موجود ہوں گے اور سرجریز کررہے ہوں گے۔ نیویارک یونیورسٹی (این وائی یو) کی ریزیڈنٹ دینا ہانی نے کہا کہ وہ ضیاءالدین یونیورسٹی کی گریجویٹ ہیں اور اب این وائی یو میں سرجری کی چوتھے سال کی ریزیڈنٹ ہوں۔ ان کا کہنا تھا کہ کراچی میں سرجیکل ٹیم کے ساتھ کام کا تجربہ انتہائی خوش آئند رہا اور یہاں کے پوسٹ گریجویٹس میں بے حد صلاحیت موجود ہے۔ انہوں نے کہا کہ انہوں نے بھرپور کوشش کی کہ نیویارک میں حاصل کی گئی تربیت اور تکنیکی مہارت یہاں منتقل کریں۔ ان کے مطابق کچھ نئی تکنیک متعارف کروائی گئیں اور یہ دیکھ کر خوشی ہوئی کہ یہاں موجود سرجیکل آلات اور ٹیکنالوجی بھی بین الاقوامی معیار کی ہیں۔ بعد ازاں پاکستان کی پہلی اور واحد باقاعدہ سرکاری طور پر رجسٹرڈ سوسائٹی پاکستان سوسائٹی آف میٹابولک اینڈ بیریاٹرک سرجری (PSMBS) کی تقریبِ حلف برداری کا انعقاد کیا گیا۔ تقریب سندھ چیپٹر کے صدر ڈاکٹر سورندر داوانی کی زیر نگرانی منعقد ہوئی۔یہ سوسائٹی 2017 میں قائم کی گئی تھی اور اب اس کے صدر پروفیسر ڈاکٹر شاہد رسول ہیں، جو کہ جناح پوسٹ گریجویٹ میڈیکل سینٹر کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر بھی ہیں۔ اس کا مقصد پاکستان میں موٹاپے جیسے موذی مرض کے علاج کو ہر فورم پر ممکن بنانا ہے۔ طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ بیریاٹرک سرجری کے ذریعے نہ صرف موٹاپے پر قابو پایا جاسکتا ہے بلکہ اس سے منسلک کئی بیماریوں جیسے شوگر بلڈ پریشر، کولیسٹرول اور گھٹنوں کے درد کو بھی مؤثر طور پر کنٹرول کیا جا سکتا ہے۔ ڈاکٹرز نے اس عزم کا اعادہ کیا کہ سوسائٹی نہ صرف علاج بلکہ آگاہی تحقیق، اور پالیسی سازی کے میدان میں بھی اپنا فعال کردار ادا کرے گی تاکہ پاکستان میں موٹاپے سے جڑے صحت کے بحران پر قابو پایا جا سکے۔

اگر آپ اس خبر کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں۔

مزید تفصیل