Wednesday, August 13, 2025
 

گہری خاموشی کا شور

 



دنیا کی زمین پرکچھ نقشے ایسے ہیں جو خون سے بنے ہیں۔ جن پرکھینچی لکیروں کو مٹانے کے لیے تاریخ نے بارہا کوشش کی، مگر یہ لکیریں ہر بار اور گہری ہوگئیں۔ آج ان میں سے ایک لکیر فلسطین کے نقشے پرکھینچی ہے خاص طور پر غزہ کی اس چھوٹی سی پٹی پر جہاں دس مہینوں سے آگ اور بارود کا طوفان ہے۔ عالمی خبر رساں ادارے ہمیں روز اعداد وشمار دیتے ہیں، فلاں دن اتنے بچے مر گئے، فلاں دن اتنے مکانات ملبے میں بدل گئے مگر یہ اعداد و شمار وہ آنسو نہیں دکھاتے، جو ایک ماں کے چہرے سے بہہ کر اس کے بے جان بچے کے گال کو تر کرتے ہیں۔ یہ نہیں بتاتے کہ ایک باپ نے اپنے بیٹے کو لحد میں اتارنے کے بعد کس طرح زمین پر بیٹھ کر خاموشی سے آسمان کو دیکھا اور پھر نظریں جھکا لیں۔  تو جب میں کہتی ہوں کہ دنیا خاموش ہے تو لوگ چونک کر پوچھتے ہیں ’’کیسی خاموشی؟ سڑکوں پر تو لوگ نکلے ہیں لندن سے نیو یارک تک، برلن سے جکارتہ تک‘‘ ہاں سڑکوں پر شور ہے مگر خاموشی وہاں ہے جہاں فیصلے ہوتے ہیں۔ جہاں طاقتور ریاستوں کے ایوان ہیں جہاں بند کمروں میں مستقبل کے سودے طے پاتے ہیں، وہاں یہ شور ایک مدھم سرگوشی سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتا۔ یہ خاموشی نئی نہیں بوسنیا جل رہا تھا، تو دنیا تشویش میں تھی۔ روانڈا میں نسل کشی ہوئی تو مزید معلومات جمع کرنے کا وقت درکار تھا۔ ویت نام پر نپام برس رہا تھا تو کچھ حکومتیں خاموش اور کچھ غور و فکر میں تھیں۔ اسپین کی خانہ جنگی میں فاشزم کے خلاف لڑنے رضاکار تو پہنچے مگر عالمی طاقتیں غیر جانبداری کا جھنڈا لہرائے بیٹھیں رہیں۔ ہر بار مظلوم کے لیے وقت کم اور ظالم کے لیے مہلت زیادہ نکلی۔ آج آسٹریلیا نے اعلان کیا کہ وہ فلسطین کو بطور ریاست تسلیم کرے گا۔ ایک خوش آیند قدم مگر یہ ایسے وقت میں آیا ہے جب ہزاروں زندگیاں ختم ہو چکی ہیں۔ دس مہینوں میں کتنے بچوں کے جنازے اٹھے کتنی مائیں قبرستانوں میں بیٹھیں، اپنے بچوں کا ماتم کر رہی ہیں اور کتنی بستیاں نقشے سے مٹ گئیں۔ یہ اعلان ان سب کو واپس نہیں لا سکتا یہ ایک علامت ضرور ہے، مگر ہم یہ سوال پوچھنے کا حق رکھتے ہیں کہ یہ علامت پہلے کیوں نہ دی گئی؟ بائیں بازو کے لیے یہ سوال بنیادی ہے کہ انسانی جان کی قیمت کیا ہے؟ اگر انسانی جان سے زیادہ قیمتی سرمایہ، اسلحہ یا طاقت ہے، تو یہ دنیا دراصل ایک بڑی منڈی ہے جہاں انسان محض سامانِ فروخت ہیں۔ سرمایہ دارانہ نظام اور سامراجی سیاست دونوں کو جنگ میں فائدہ ہے۔ اسلحہ ساز کمپنیوں کے اسٹاک بڑھتے ہیں، تعمیراتی کمپنیاں جنگ زدہ علاقوں کی بحالی کے نام پر معاہدے جیتتی ہیں اور وسائل سے بھرے علاقے معاشی اصلاحات کے بہانے نو آبادیاتی کنٹرول میں لے لیے جاتے ہیں۔ خاموشی محض الفاظ نہ بولنے کا نام نہیں، یہ ایک سیاسی ہتھیار ہے، یہ ظالم کو طاقتور بناتی ہے اور مظلوم کو تنہا کر دیتی ہے۔ یہ انصاف کو ملتوی کرتی ہے اور ملتوی ہونے والا انصاف اکثر انصاف نہیں رہتا۔ یہ وہی خاموشی ہے جو نازی جرمنی کے ابتدائی برسوں میں تھی جو چلی میں پنوشے کے اقتدار کے دوران تھی جو عراق پر حملے کے وقت تھی اور آج یہ خاموشی غزہ کے اوپر ایک سیاہ بادل کی طرح چھائی ہوئی ہے۔ عوام کی آواز گلیوں میں گونجتی ہے، پلے کارڈ، بینر، نعرے مگر ایوانوں تک پہنچنے سے پہلے یہ شورکہیں دب جاتا ہے۔ جیسے دریا کا پانی کسی بند میں روک دیا جائے۔ سوال یہ ہے کہ اس بند کو کون توڑے گا ؟ اگر یہ بند نہ ٹوٹا تو کل یہ خاموشی ہمارے اپنے دروازے پر بھی آ کر بیٹھ جائے گی۔ غزہ کے اسپتالوں میں دوا نہیں، بجلی نہیں، پانی نہیں۔ بچے ماں کی کوکھ سے سیدھا قبر کی مٹی تک کا سفرکر رہے ہیں۔ ان کے لیے بین الاقوامی قانون کی کتابوں میں لکھے حقوق محض الفاظ ہیں اور عالمی طاقتیں یا تو تماشائی ہیں یا شریکِ جرم۔ کچھ حکومتیں تشویش کے بیانات جاری کرتی ہیں کچھ دونوں طرف کے تشدد کی بات کر کے توازن قائم کرنے کا ڈھونگ رچاتی ہیں۔لیکن تاریخ بتاتی ہے کہ عوامی احتجاج اگر مسلسل اور منظم ہو تو وہ ایوانوں کے فیصلے بدل سکتا ہے۔ ویت نام کی جنگ اسی وقت ختم ہوئی جب امریکی عوام کی آواز امریکی کانگریس کے اندرگونجی۔ جنوبی افریقہ کی نسل پرستی اسی وقت ہٹی جب دنیا بھر کے عوام نے حکومتوں کو معاشی بائیکاٹ پر مجبور کیا۔ آج غزہ کے لیے بھی یہی راستہ ہے محض سڑکوں پر شور نہیں بلکہ حکومتوں پر مسلسل دباؤ۔ ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ ہر خاموشی ایک طرف کی حمایت ہے، اگر ہم ظالم کے خلاف بولتے نہیں تو ہم اس کے ساتھ کھڑے ہیں، اگر ہم مظلوم کا ہاتھ نہیں پکڑتے تو ہم اس کے زخم کو گہرا کرتے ہیں اور اگر ہم اپنی حکومتوں سے جواب طلب نہیں کرتے تو ہم اس خاموشی کے حصے دار ہیں۔ آخر میں میں چاہتی ہوں کہ آنے والی نسلوں کو یہ نہ کہنا پڑے کہ ’’ وہ وقت جب لوگ گلیوں میں تھے مگر ایوانوں میں خاموشی تھی۔‘‘ یہ تاریخ کا وہ صفحہ ہے جس پر ہمیں اپنا نام کس طرف لکھنا ہے، یہ فیصلہ آج کرنا ہوگا شورکی طرف یا خاموشی کی طرف۔ یہی وہ موقع ہے جس کے بارے میں فیض صاحب نے کہا تھا۔ جگر دریدہ ہوں چاک جگر کی بات سنو الم رسیدہ ہوں دامن تر کی بات سنو زباں بریدہ ہوں زخم گلو سے حرف کرو شکستہ پا ہوں ملال سفر کی بات سنو مسافر رہ صحرائے ظلمت شب سے اب التفات نگار سحر کی بات سنو سحرکی بات، امید سحرکی بات سنو

اگر آپ اس خبر کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں۔

مزید تفصیل