Loading
ہمارے کالم پڑھنے والے پیارے قارئین بھی حق بجانب ہیں لیکن ہم بھی غلط نہیں ہیں۔ہمارے قارئین کو شکایت ہے کہ ہم کچھ نہیں کہتے،اہم ملکی اور بین القوامی سیاسی اموراور دیگر معاملات پر۔یعنی بڑے بڑے واقعات اور تبدیلیوں پر،بڑے بڑے معاملات اورسفارتی پیش رفت پر،ان پر بڑا بڑا نہیں لکھتے اور یونہی فضول لوگوں کے فضول معاملات پر فضول فضول اور چھوٹا چھوٹا لکھتے رہتے ہیں۔ یہ کیا کہ عوام جوکالانعام تخلص کرتے ہیں، مسلسل لٹ رہے ہیں، روزانہ مررہے ہیں، بھوکے اور افلاس زدہ ہیں، ننگے زخمی پاؤں ہیں، بچوں سمیت خودکشیاں کررہے ہیں، جرائم پیشہ اور دہشت گرد بن رہے ہیں۔اگر ایسا ہے تو بنتے رہیں‘ہمیں اس سے کیا لینا دینا ہے کیوں کہ وہ تو پیدا ہی اس لیے ہوتے ہیں،کہ دیوتاؤں اور دیوتازادوں پر نچھاور ہوتے رہیں‘ان کی دن رات خدمت کرتے رہیں۔ ان کی حکمرانی کے لیے اپنی جانیں پیش کرتے رہیںاور قربانی کے لیے نئے انسان پیدا کرتے رہیں۔لیکن ہم بھی کیا کریں کہ ہم خود بھی تو ان کالانعاموں اور چھوٹے چھوٹے لوگوں میں سے ہیں۔بڑا بڑا نہ سوچ سکتے ہیں نہ اس پر بول سکتے ہیں ، اب یہ کیسے ہوگا کہ ہم کھائیں تو ساگ اور ڈکاریں لیں مرغ پلاؤ کی، وہ تو بڑے بڑے دانا دانشور ہیں، بڑے بڑے قومی اور بین القوامی لوگوں سے شناسائی رکھتے ہیں۔اور وہ بڑے بڑے ان کے مضامین (کالم نہیں) اور مقالوں کو پڑھے بغیر ناشتہ نہیں کرتے۔ اس لیے اگر دانا ئی، دانشوری اور فلسفوں سے بھر پور مقالات اور طویل طویل بلکہ ہدایت نامے نہ لکھیں تو کیا کریں گے۔ بچارے قومی اور بین القوامی بڑے بڑے تو ان کے مشوروں اور رہنمائیوں کے بغیر تہی دست ہوجائیں گے، اس لیے ان بڑے بڑے دانا دانشوروں(کالم نگار نہیں) کو ایسا ہی بڑا بڑا لکھنے دیں اور ہمیں چھوٹوں کے چھوٹے چھوٹے معاملات پر چھوٹا چھوٹا لکھنے کے لیے چھوڑ دیں۔ ہم سے اکثر لوگ یہ پوچھتے ہیں کہ تمہارے لکھنے سے کوئی’’سدھار‘‘ ہوتا ہے یا نہیں بلکہ ایک مرتبہ ہوا یوں کہ پی ٹی وی پر ہمارا ایک پروگرام چل رہا تھا جو تین ہفتے کے لیے لانچ ہوا تھا لیکن مقبولیت کی بنا پر تین سال تک چلتا رہا، اس میں ہم چھوٹے چھوٹے خاکوں کے ذریعے سرکاری محکموں کا کچھا چھٹا کھولتے تھے ۔پولیس، محکمہ بجلی اور پٹوار وغیرہ کو نشانہ بناتے تھے اور کرپشن کی بہار کا ذکر کرتے تھے۔آخری پروگرام میں ہم سے پوچھا گیا۔کہ تمہارے لکھنے سے کوئی ’’سدھار‘‘ آیا ہے؟ تو ہم نے عرض کیا کہ کچھ بھی نہیں۔ میں تو بس اتنا کرتا ہوں جیسے گلی میں کوئی بڑا بچہ ،کسی چھوٹے بچے کو مارا رہا ہو اور میں اس بڑے بچے کو کچھ بھلا بُرا کہہ دیتا ہوں۔ اس لیے تو چھوٹے بچے کے ’’چھوٹے پن‘‘ پر کوئی اثر پڑتا ہے نہ بڑے کے بڑے پن پر۔نہ اس چھوٹے بچے کے چوٹوں کو کوئی آرام ملتا اور نہ بڑا بچہ ہمارے بُرے جملے سے راہ راست پر آتا ہے، وہ اسی طرح مارتا رہے گا اور چھوٹے اسی طرح مار کھاتے رہیں گے۔لیکن ہماری مداخلت اور چھوٹے بچے کو اپنے قریب کرنے سے اور بڑے کو بھلا بُرا کہنے سے چھوٹے بچے کو یہ تسلی ہوجاتی ہے کہ کوئی تو میرا طرف دار بھی ہے جو اس بڑے کو میرے لیے بُرا بھلا کہہ سکتا ہے ۔ وہ چھوٹا ہے تو بڑے سے ہمیشہ مار کھاتا رہے اور بڑا بھی اپنے بڑے پن کا فائدہ میں رہے گا، ہم اس چھوٹے کو تھوڑی سی طرف داری، تھوڑے اپنے پن سے تھوڑی تسلی دیتے ہیں اور بس اس کے سوا کچھ نہیں۔ سگریٹ پینے والوں کو دیکھیے ایک دنیا کہہ رہی ہے کہ تمباکو مضر صحت ہے، اس سے یہ ہوجاتا ہے، وہ ہوجاتا ہے لیکن پھر بھی باز نہیں آتا۔تو رشوت کے عادی رشوت کیوں چھوڑیں گے کہ بظاہر اس میں فوائد ہی فوائد ہیں، کمائیاں کمائیاں ہیں، عیش ہی عیش ہیں۔ ایک فلمی لطیفہ یاد آیا ایک زورآور بیوی اپنے شوہر کو ہدایات دے رہی ہے، اس دوران شوہر کہتا ہے کہ میری بات سنو!اس پر بیوی کہتی ہے کہ میں نے پہلے کبھی تمہاری بات سنی ہے؟شوہر کہتا ہے نہیں۔تو پھر کیوں زبان کو تکلیف دے رہے ہو۔یہ جو بڑے بڑے دانا دانشور اپنے بڑے بڑے مضامین(کالم نہیں) میں قومی، بین القوامی اور سرکاری سیاسی ’’بڑوں‘‘ کو بڑا بڑا لکھتے ہیں، ان سے بھی وہی بات پوچھنی چاہیے جو اس بیوی نے شوہر سے پوچھی تھی کہ کیا یہ جو تم لکھتے بولتے ہو، آج تک کسی نے سنا اور پڑھا بھی ہے؟
اگر آپ اس خبر کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں۔
مزید تفصیل