Loading
اگست 2024ء میں آمر بیگم حسینہ واجد کی حکومت ختم ہونے کے بعد پاکستان کا سابقہ ساتھی، بنگلہ دیش انقلابی تبدیلیوں سے گذر رہا ہے۔صرف ایک سال پہلے تک ان کے بارے میں سوچنا بھی محال تھا۔ ان تبدیلیوں کا نشانہ وہ لیڈر اور ان کی سیاسی پارٹی، عوامی لیگ ہے جس نے بنگلہ دیش کی بنیاد رکھی تھی۔مملکت کی تاریخ دو اہم سنگ میل رکھتی ہے اور دونوں ہی ماہ اگست میں ظہور پذیر ہوئے۔ پہلے تقریباً نصف صدی قبل اگست 1975ء میں بنگلہ دیش کے فوجی افسروں نے ملک کے بانی، شیخ مجیب الرحمن کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔ شیخ حسینہ بیرون ملک ہونے کے باعث بچ گئیں۔ اور دوسری بار اگست2024ء میں عوام اور طلبہ نے مل کر انھیں اقتدار سے محروم کر دیا۔ وہ دم دبا کر بھارت بھاگنے پر مجبور ہو گئیں۔ محمد یونس کی زیرقیادت اب نگران حکومت باپ بیٹی کی تمام آمرانہ نشانیاں مٹا دینا چاہتی ہے۔ اس کا آغاز بیگم حسینہ پر مقدمے چلا کر ہوا ہے۔ فی الوقت بیگم صاحبہ پر ڈیرھ سو سے زیادہ مقدمات چل رہے ہیں۔ان پر عوام کو قتل کرانے، غنڈہ گردی کرنے اور نجی املاک تباہ کرنے کے سنگین الزمات ہیں۔ خاص بات یہ کہ بنگلہ دیش کا مشہور زمانہ انٹرنیشنل کرائم ٹریبونل بھی ان کے خلاف مقدمے چلا اور تحقیقات کر رہا ہے۔ یہ خصوصی عدالت بیگم حسینہ نے 2010ء میں بنائی تھی تاکہ جماعت اسلامی اور بیگم خالدہ ضیا کی پارٹی، بنگلہ نیشلسٹ پارٹی کے لیڈروں پہ جھوٹے مقدمے چلا کر انھیں سزا دی جا سکے۔اب اسی عدالت میں وہ ملزمہ بن کر وہ کھڑی ہیں، مگر ایک بھگوڑی کے روپ میں ۔ دس مئی 2025ء کو حکومت نے اینٹی ٹیررازم ایکٹ کے تحت بیگم صاحبہ کی جماعت، بنگلہ دیش عوامی لیگ پر پابندی لگا دی۔اب وہ اگلے سال ہونے والے عام انتخابات میں حصہ نہیں لے سکتی۔ یہ ایک بہت اہم پیش رفت ہے۔ اسی طرح حکومت ایسے نئے نوٹ جاری کر رہی ہے جن پر بانی صدر شیخ مجیب الرحمان کی تصاویر نہیں ہوں گی۔ اس حقیقت سے عیاں ہے کہ ملک کی نئی نسل اب عوامی لیگ اور شیخ مجیب الرحمان سے لگاؤ نہیں رکھتی اور ماضی کو خیرباد کہہ کر نئے چہروں کو مواقع دینا چاہتی ہے۔مقصد یہ ہے کہ وہ حکومت سنبھال کر اپنی آمریت و کرپشن کا سلسلہ جاری نہ کریں بلکہ عوام کے کام آئیں اور ملک وقوم کو ترقی دیں۔ بنگلہ دیش بینک کے ترجمان عارف حسین خان نے کہا ہے’’ نئی سیریز اور ڈیزائن کے تحت کرنسی نوٹوں میں کوئی انسانی تصویر نہیں ہوگی بلکہ قدرتی مناظر اور روایتی نشانات کی نمائش ہوگی۔‘‘یاد رہے، اب تک بنگلہ دیش میں مستعمل تمام کرنسی نوٹوں میں شیخ مجیب الرحمان کی تصویر تھی۔ منظم حملہ انٹرنیشنل کرائم ٹریبونل میں بیگم حسینہ پر چلتے مقدمے کے آغاز پر استغاثہ نے الزام لگایا کہ سابق وزیراعظم نے طلبہ و عوام کی ’’ بغاوت ‘‘ کچلنے کے لیے ایک "منظم حملے" کا منصوبہ بنایا تھا۔آئی سی ٹی کے چیف پراسیکیوٹر، محمد تاج الاسلام نے عدالت کو بتایا "شواہد کی جانچ پڑتال کے بعد ہم اس نتیجے پر پہنچے کہ یہ ایک مربوط، وسیع اور منظم حملہ تھا۔"مسٹر اسلام نے حسینہ واجد، سابق پولیس سربراہ، چودھری عبداللہ المامون (زیر حراست ) اور سابق وزیر داخلہ اسد الزماں خان کمال (مفرور) کے خلاف پانچ پانچ الزامات درج کیے جن میں " اکسانا، تشدد میں ملوّث، سہولت کاری، سازش اور اجتماعی قتل روکنے میں ناکامی" شامل ہیں۔اقوام متحدہ کے مطابق حسینہ واجد حکومت کے کریک ڈاؤن کے دوران جولائی تا اگست 2024ء کے درمیان چودہ سو افراد ہلاک ہوئے۔ پراسیکیوٹر نے غیر جانبداری برتنے کے عزم کا اظہار کرتے ہوئے کہا"یہ انتقامی کارروائی نہیں بلکہ اس اصول کے ساتھ وابستگی ہے کہ ایک جمہوری ملک میں انسانیت کے خلاف جرائم کی کوئی گنجائش نہیں۔"تفتیش کاروں نے مبینہ طور پر وسیع شواہد اکٹھے کیے ہیں جن میں ویڈیو فوٹیج اور بیگم حسینہ کی فون پر بات چیت بھی شامل ہے۔ استغاثہ نے الزام لگایا کہ بیگم حسینہ نے سیکورٹی فورسز کو مظاہرین کو کچلنے کا حکم دیا۔ انہیں ہیلی کاپٹروں سے فائرنگ کرنے کی ہدایت بھی دی اور خاص طور پر طالب علم ابو سعید کو مارنے کا حکم دیا۔ ان کا کہنا ہے کہ ایسی کارروائیاں "انسانیت کے خلاف جرائم" کے مترادف ہیں۔ آئی سی ٹی عدالت نے 25 مئی کو بیگم حسینہ حکومت سے منسلک اپنے پہلے مقدمے کی سماعت شروع کی۔ اس مقدمے میں آٹھ پولیس اہلکاروں کو 5 اگست کے دن چھ مظاہرین کے قتل پر انسانیت کے خلاف جرائم کے الزامات کا سامنا ہے۔ اسی دن حسینہ ملک سے فرار ہوئی تھی۔ چار اہلکار حراست میں ہیں اور چار کی غیر حاضری میں مقدمہ چلایا جا رہا ہے۔ جماعت اسلامی کی رجسٹریشن بحال اس دوران بنگلہ دیش کے سپریم کورٹ نے ملک کی سب سے بڑی اسلامی جماعت، جماعت اسلامی کی رجسٹریشن بحال کرتے ہوئے اسے نئے انتخابات میں حصہ لینے کی اجازت دے دی۔عدالت نے 2013ء میں ہائی کورٹ کے حکم کو کالعدم قرار دے دیا جو بیگم حسینہ حکومت کے دور میں جاری ہوا تھا اور جس نے پارٹی پر پابندی عائد کر دی تھی۔پارٹی کے وکیل ششیر منیر نے کہا کہ اس فیصلے سے "جمہوری، جامع اور کثیر الجماعتی نظام" کو فتح ملی ہے۔ سپریم کورٹ کے فیصلے کا مطلب ہے کہ جماعت اسلامی اب باضابطہ طور پر الیکشن کمیشن میں درج ہو سکتی ہے، جس سے اگلے عام انتخابات میں حصہ لینے کی راہ ہموار ہو جائے گی جسے عبوری حکومت نے اگلے سال اپریل تک کرانے کا وعدہ کیا ہے۔منیر نے صحافیوں کو بتایا، "ہمیں امید ہے ، بنگلہ دیشی اپنی نسل یا مذہبی شناخت سے قطع نظر جماعت کو ووٹ دیں گے اور یہ کہ پارلیمنٹ تعمیری مباحثوں سے متحرک ہو گی۔" جماعت اسلامی کے بارے میں سپریم کورٹ کا فیصلہ اس وقت آیا جب اس نے پچھلے دن پارٹی کے اہم رہنماوں میں سے ایک ،اے ٹی ایم اظہر الاسلام کے خلاف سزا کو کالعدم قرار دے دیا۔اسلام کو 2014ء میں جنگ اکتہر کے دوران عصمت دری، قتل اور نسل کشی کے جرائم میں موت کی سزا سنائی گئی تھی۔ جماعت اسلامی نے جنگ کے دوران پاکستان کا ساتھ دیا تھا، ایک ایسا کردار جو آج بھی بعض بنگلہ دیشیوں میں غصے کو جنم دیتا ہے۔ پاکستان سے بڑھتی قربت شیخ حسینہ کی معزولی کے بعد بنگلہ دیش نئے شراکت داروں کے ساتھ اپنے روابط بہتر بنا رہا ہے۔ ان تعاملات میں سب سے زیادہ دلچسپ پاکستان اور چین کے ساتھ ہیں۔ پاکستان اور بنگلہ دیش کے تعلقات میں حالیہ گرمجوشی اور بنگلہ دیشی چیف ایڈوائزر محمد یونس کے دورہ چین سے ظاہر ہے کہ جنوبی ایشیا کا سیاسی تزویراتی منظر نامہ نازک لیکن اہم تبدیلیوں سے گزر رہا ہے۔ اگرچہ ان کے درمیان کوئی باضابطہ تکونی رشتہ ابھی موجود نہیں، ڈھاکہ اور بیجنگ کے درمیان دو طرفہ تعلقات کو گہرا کرنا اور ڈھاکہ اور اسلام آباد کی ابھرتی ہوئی ہم آہنگی ایک ممکنہ اتحاد کا باعث بن سکتی ہے ۔یہ اتحاد علاقائی تزویراتی جمود کو چیلنج کرنے سے بھارت کو ایک پیچیدہ تزویراتی مخمصے میں ڈال سکتا ہے۔ بھارت کے بجائے چین سے قریبی تعلقات تقریباً پندرہ سال تک جاری رہنے والی بیگم حسینہ حکومت کا رخ بھارت کی طرف تھا جس کے مضمرات چین اور پاکستان پر مرتب ہوئے۔ بیگم حسینہ کے دور میں 1971ء کی تلخ تقسیم کے بعد سے پاکستان کے ساتھ تعلقات بدستور عدم اعتماد اور غیر حل شدہ تاریخی شکایات کے حامل رہے۔ دریں اثنا بھارت اور چین کے ساتھ تعلقات رکھتے ہوئے حسینہ نے بیجنگ کی ایک اہم خارجہ پالیسی پر عمل کیا… نئی دہلی کے ساتھ قریبی سیکورٹی اور سیاسی تعلقات برقرار رکھنے کے ساتھ ساتھ اقتصادی ترقی اور بنیادی ڈھانچے کی نشوونما کے لیے چین سے فائدہ اٹھایا۔ تاہم بیگم حسینہ کی معزولی کے بعد سے محم یونس کی عبوری حکومت کے تحت بنگلہ دیش کی اپنے قریبی پڑوسیوں کے بارے میں پالیسی بدل گئی ہے اور جو ایک نئے مرحلے میں داخل ہو چکی ۔ اب ڈھاکہ اپنے ترقیاتی اور سفارتی مفادات محفوظ بنانے کے لیے اسلام آباد اور بیجنگ کے قریب جانے کے لیے تیار دکھائی دیتا ہے۔ یہاں تک کہ نئی دہلی کے ساتھ اپنے تعلقات غیر مستحکم کرنے کا خطرہ موجود ہے مگر وہ اس کی پروا نہیں کر رہا۔ اگست 2024ء سے بنگلہ دیش اور پاکستان کے درمیان متعدد سفارتی تبادلے ہوئے ہیں، جیسے محمد یونس کی پاکستانی وزیر اعظم شہباز شریف کے ساتھ مختلف کثیر جہتی فورمز پر ملاقاتیں۔ قیادت کی سطح کی بات چیت کے علاوہ وزارتی بات چیت بھی گہری ہوئی ہے۔ حالیہ اپریل میں سیکرٹری خارجہ پاکستان، آمنہ بلوچ کا دورہ بنگلہ دیش پندرہ سال کے وقفے کے بعد دونوں ممالک کے درمیان اعلیٰ سطحی سفارتی مصروفیات بحال ہونے کا اشارہ تھا۔ اگر اسحاق ڈار کو بھارت اور پاکستان کے درمیان بڑھتی کشیدگی کی وجہ سے ڈھاکہ کاطے شدہ دورہ ملتوی نہ کرنا پڑتا تو وہ 2012ء کے بعد بنگلہ دیش کا دورہ کرنے والے پہلے پاکستانی وزیر خارجہ ہوتے۔ بنگلہ دیش اور پاکستان کے درمیان نوزائیدہ لیکن ابھرتے فوجی تعلقات نے بھی جنم لیا ہے۔ ایک اعلیٰ سطحی بنگلہ دیشی فوجی وفد نے جنوری میں پاکستان کا دورہ کیا اور پاکستانی چیف آف آرمی سٹاف جنرل عاصم منیر سے بات چیت کی۔ دونوں کے درمیان بڑھتی فوجی مصروفیات کی ایک مثال بنگلہ دیشی بحریہ کی پاکستان کی کثیر القومی بحری مشق امن-25 میں دس سال سے زائد عرصے کے وقفے کے بعد شرکت تھی۔ تبدیلی تجارتی تعلقات تک پھیلی ہوئی ہے۔ طویل عرصے کے بعد بنگلہ دیش اور پاکستان نے براہ راست تجارت دوبارہ شروع کر دی ۔ ڈھاکہ نے فروری میں پاکستان سے پچاس ہزار ٹن چاول درآمد کیے۔ براہ راست فضائی پروازیں دوبارہ شروع ہو گئی ہیں اور دونوں ممالک نے لوگوں کے درمیان تبادلے کی سہولت کے لیے ویزا ا طریق کار آسان بنا دیا ہے۔ نومبر اور دسمبر 2024ء کے درمیان پاکستانی بحری جہازوں نے چٹاگانگ کی بندرگاہ پر سامان کے ایک ہزار سے زائد کنٹینر اتارے۔ دونوں ممالک کے مابین میل جول ابتدائی دور میں ہے مگر بنگلہ دیش اور چین کے تعلقات میں گہرائی آئی تو یہ ایک ابھرتی ہوئی علاقائی مثلث بن جائے گا۔ محمد یونس کے تحت بنگلہ دیش کی چین سے منسلک پالیسی پیشرو کا محتاط توازن نہیں رکھتی بلکہ تیزی سے صف بندی کے قریب ہوتی دکھائی دیتی ہے۔ماہ مارچ میں یونس کا چین کا سرکاری دورہ اس تبدیلی کا اشارہ تھا۔ ان کے دورے نے یہ اشارہ دیا کہ چین بنگلہ دیش کی بیرونی مصروفیات میں مرکزی حیثیت رکھتا ہے، شاید پہلے سے کہیں زیادہ۔ اپنی طرف سے بیجنگ نے فوری طور پر ڈھاکہ میں نئی نگراں انتظامیہ کے ساتھ تعلقات کو بڑھایا ہے، نئے معاہدوں کو حتمی شکل دی ہے اور اسکالرشپ، ثقافتی اقدامات اور ترقیاتی تعاون کے ذریعے نرم طاقت کا مظاہرہ کیا ہے۔ اس ابھرتی شراکت داری کا مرکز چٹوگرام میں چائنا انڈسٹریل اکنامک زون کی مزید توسیع اور مونگلا پورٹ کی جدید کاری میں چینی شمولیت کی تجویز ہے، جس سے بنگلہ دیش کے اہم اقتصادی شراکت دار کے طور پر چین کی پوزیشن کو تقویت ملے گی۔ مزید برآں ڈھاکہ کی جانب سے دریائے تیستا کے منصوبے میں چین کو شمولیت کی دعوت دینا جو کہ بھارت اور بنگلہ دیش کے درمیان طویل عرصے سے تنازع بنا ہوا ہے، نہ صرف بھارتی حکومت کی تاخیر سے مایوسی کی نشاندہی کرتا ہے بلکہ حساس بنیادی ڈھانچے کے منصوبوں کو انجام دینے کی چین کی صلاحیت پر بڑھتے اعتماد کو بھی ظاہر کرتا ہے۔ گو چین کے ساتھ کئی معاہدے بیگم حسینہ کے دورہ 2024ء میں طے ہوئے تھے، بنگلہ دیش میں سیاسی تبدیلی تعلقات کو اسٹریٹجک صف بندی کے قریب لے گئی ہے۔ ایک زیادہ پیچیدہ مقامی اور علاقائی ماحول کے درمیان ڈیوٹی فری چینی سامان تک ڈھاکہ کی رسائی، ثقافتی اور تعلیمی تبادلے کو گہرا کرنا اور پانی کے انتظام میں بیجنگ کی مدد بڑھتی باہمی شراکت کی عکاس ہے۔ جنوبی ایشیا میں نئی علاقائی ترتیب؟ پاکستان اور بنگلہ دیش کے درمیان بڑھتی قربت چین کے علاقائی اہداف سے ہم آہنگ ہے۔ اس کے جنوبی ایشیائی شراکت داروں کے مابین مضبوط روابط علاقائی رابطوں کو فروغ دیں گے۔ ساتھ ساتھ اگر بنگلہ دیشی بندرگاہوں تک چینی رسائی کو وسعت دے کر اور بذریعہ چین پاکستان اور بنگلہ دیش کے درمیان سمندری تجارتی روابط کو آسان بنا کر تجارت ہو سکتی ہے تو یہ مستقبل میں بھارت کا اسٹریٹجک اثر کم کر سکتا ہے۔ چین مسلسل جنوبی ایشیا میں اپنا اثر و رسوخ بڑھا رہا ہے۔ اقتصادی ریاستی روابط، دفاعی سفارت کاری اور تزویراتی شراکت داری کے ذریعے بھارت کی’ پڑوسی حکمت عملی‘ پر دباؤ بڑھا رہا ہے۔ درمیانے درجے سے طویل عرصے کے دوران یہ ترقی پذیر سہ رخی صف بندی چین کو جنوبی ایشیائی جغرافیائی سیاست میں ایک کلیدی کھلاڑی بنا سکتی ہے۔اس سے چین کی زیر قیادت کثیر قطبی علاقائی ڈھانچے کے وژن کو فروغ دیا جا سکتا ہے جس کی جڑیں ترقی اور باہمی تعاون پر مبنی سکیورٹی فریم ورک میں موجود ہیں۔ چین نے حالیہ برسوں میں اس سلسلے میں کئی کوششیں کی ہیں۔ مثال کے طور پر 2020ء میں بیجنگ نے نیپال، پاکستان اور افغانستان کے ساتھ چار فریقی مذاکرات بلائے تاکہ علاقائی معاملات بشمول کنیکٹیویٹی پر تبادلہ خیال کیا جا سکے۔ مستقبل میں چین بنگلہ دیش، میانمار اور ممکنہ طور پر بھوٹان کو شامل کرنے کے لیے اس ڈائیلاگ کو وسعت دے سکتا ہے۔ وہ بھارت کے علاوہ تمام ممالک کے ساتھ تعلقات بڑھا رہا ہے۔ چین ہمالیائی راہداری اور چٹاگانگ کو گوادر سے ملانے والی خلیج بنگال میری ٹائم کوریڈور کو فروغ دینے کا تصّور بھی کر سکتا ہے۔ جبکہ شمال مشرقی بھارت میں زیر تعمیر انڈیا-میانمار-تھائی لینڈ سہ فریقی ہائی وے جیسے علاقائی انضمام کے منصوبوں کو نقصان پہنچا سکتا ہے۔ جنوبی ایشیا میں بدلتی حرکیات کے درمیان پاکستان اور چین کے ساتھ بنگلہ دیش کے ابھرتے تعلقات ممکنہ علاقائی تنظیم نو کا اشارہ دیتے ہیں۔اس سے چین کی علاقائی ترتیب کو از سر نو تشکیل دینے اور بھارت کے اثر و رسوخ کو چیلنج کرنے کا دروازہ کھلتا ہے۔ بھارت کا اسٹریٹجک ابہام نئی دہلی طویل عرصے سے ڈھاکہ کے ساتھ پروان چڑھتے دوطرفہ تعلقات کے دفاع کی خواہش اور بڑھتے غیر مستحکم پڑوسی کے تئیں اپنا نقطہ نظر بہتر بنانے کی ضرورت کے درمیان پھنسا ہوا ہے۔ چین میں یونس کے اشتعال انگیز ریمارکس پر کہ شمال مشرقی بھارت خشکی میں گھرا ہوا ہے اور بنگلہ دیش "اس خطے میں سب کے لیے واحد سمندری محافظ ہے" کے ساتھ ساتھ بیجنگ کی بنگلہ دیش کے لالمنیرہاٹ ضلع میں ایک ہوائی اڈہ بنانے کی قیاس آرائیوں نے نئی دہلی میں خطرے کی گھنٹی اور شکوک و شبہات کو جنم دیا ہے۔ اگر یہ منصوبہ عملی شکل اختیار کرتا ہے، تو یہ بھارت کے بنیادی قومی سلامتی مفادات کے لیے براہ راست خطرہ ہو گا کیونکہ یہ خطہ تنگ اور تزویراتی طور پر حساس سلی گوڑی کوریڈور کے قریب واقع ہے جسے’ انڈیاز چکن نیک‘ بھی کہا جاتا ہے اور جو بھارتی سرزمین کو اپنی شمال مشرق ریاستوں سے جوڑتا ہے۔ بھارت اور بنگلہ دیش کے تعلقات میں بڑھتے تناؤ سے یہ چیلنجز مزید بڑھ گئے ہیں۔ تھائی لینڈ میں نعقدہ’بمسٹیک‘(BIMSTEC) سربراہی اجلاس کے موقع پر محمد یونس و مودی کی ملاقات کے علاوہ بھارتی حکومت نے اب تک یونس تک فعال سفارتی رسائی کو روک رکھا ہے۔ مزید برآں پانی کی تقسیم کے معاہدوں اور سرحد پار بنیادی ڈھانچے کے منصوبوں میں تاخیر نے بھارتی بے حسی کے تاث کو ہوا دی ہے۔ اس کے برعکس چین کا تیز ردعمل، لچکدار مالیاتی شرائط اور روہنگیا کی وطن واپسی اور میانمار میں امن مذاکرات کی ضرورت جیسے حساس مسائل پر مشغول ہونے کی آمادگی ایک ایسی شراکت کی تجویز کرتی ہے جو نہ صرف اقتصادی بلکہ تیزی سے تزویراتی بھی ہو گی۔ چین کے ساتھ بنگلہ دیش کی نئی صف بندی پربھارت کے لیے سفارتی میدان میں حقیقی اسٹریٹجک نتائج رونما ہو سکتے ہیں۔ اگر ڈھاکہ بھارت کے لیے حساس مسائل (جیسے تنازع کشمیر ، اقلیتی حقوق، یا بحر الکاہل کی بھارتی حکمت عملی) پر اقوام متحدہ جیسے کثیرالجہتی فورم پر بیجنگ کی پوزیشن کے ساتھ زیادہ قریب سے موافقت کرتا ہے جیسا کہ پاکستان نے کیا ہے، تو یہ ملک میں بھارت کی سفارتی جگہ ختم کر سکتا ہے۔ چین کی زیرقیادت والے بیانیے کی بنگلہ دیش کی جانب سے حمایت عالمی فورمز پر ایک متحد جنوبی ایشیائی موقف پیش کرنے کی بھارتی صلاحیت ختم کر سکتی ہے، خاص طور پر اگر دیگر علاقائی ریاستیں بھی اس کی پیروی کریں۔ اگر بنگلہ دیش اور پاکستان چینی فن ٹیک، ای کامرس، اور کسٹم ٹیکنالوجی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے چینی ڈیجیٹل اور لاجسٹکس کوریڈورز کے لیے مرکز بن جاتے ہیں، تو بھارت کی کوششیں جیسے انڈیا-میانمار-تھائی لینڈ سہ فریقی ہائی وے یا بمسٹک ماند پڑ سکتی ہیں۔ جنوبی ایشیا کو الگ الگ چین سے منسلک اقتصادی زونز میں تقسیم کرنا علاقائی انضمام کی کوششوں میں بھارت کی مرکزیت کم کر سکتا ہے۔ دریں اثنا پاکستان کے ساتھ بنگلہ دیش کے بڑھتے سیکورٹی تعلقات نئی دہلی کے لیے زیادہ سیدھی فوجی تشویش کا باعث ہیں۔ بھارت اور بنگلہ دیش کے درمیان سرحد تاریخی طور پر غیر محفوظ رہی ہے جس کی وجہ سے باغی گروپوں کو دونوں ممالک کے درمیان بار بار سفر کرنے میں آسانی رہتی ہے۔ بیگم حسینہ کی عوامی لیگ حکومت نے ان گروہوں کے خلاف کریک ڈاؤن کرنے کے اقدامات کیے تھے۔اب نئی دہلی میں نئے سرے سے یہ خدشہ پیدا ہو گیا ہے کہ پاکستان اور بنگلہ دیش کے درمیان تعلقات اس مسئلے کو دوبارہ زندہ کر سکتے ہیں۔ سکے کا دوسرا رخ یہ جاننا بھی ضروری ہے کہ پاکستان اور بنگلہ دیش کے نوزائیدہ تعلقات کی پائیداری کے بارے میں سوالات باقی ہیں۔ یہ دیکھنا ابھی باقی ہے کہ آیا یہ کوششیں بھارت کے تجارتی حجم اور جغرافیائی قربت کے پائیدار اثر کو برداشت کر سکتی ہیں؟ اس کے علاوہبنگلہ دیش میں عبوری سیٹ اپ کے ذریعے موجودہ تعلقات کو آگے بڑھایا جا رہا ہے، جس کے بارے میں خیال ہے کہ وہ اگلے سال اقتدار ایک منتخب حکومت کو منتقل کرے گا اور یہ قیاس کرنا جلد بازی ہے کہ آیا یہ مصروفیت جاری رہے گی؟ تاہم مجموعی طور پر یہاں تک کہ تعلقات ابھی ابتدائی مراحل میں ہیں، بیجنگ اور اسلام آباد کے ساتھ ڈھاکہ کے دو طرفہ تعلقات کی بیک وقت مضبوطی بھارت کی بالادستی سے ہٹ کر علاقائی ترتیب میں تبدیلی کی طرف اشارہ کرتی اور مستقبل میں غیر روایتی صف بندی اور روابط کے لیے راستے کھولتی ہے۔ ڈھاکہ میں سینٹر فار الٹرنیٹیوز کے ایگزیکٹیو ڈائریکٹر امتیاز احمد کہتے ہیں "نئی دہلی نے بیگم حسینہ سے سیاسی پارٹی پر مبنی رشتہ قائم کیا نہ کہ عوام پر مبنی رشتہ۔" انہوں نے مزید کہا کہ بھارت نے حسینہ اور اس کی پارٹی عوامی لیگ کو بنگلہ دیش اور اس کی شمال مشرقی سرحد پر اپنے مفادات کے تحفظ میں مدد کے طور پر دیکھا۔ ولسن سینٹر کے ایک محقق حسن اکبر کا کہنا ہے کہ بنگلہ دیشی عوام کا ایک قابل ذکر حصہ، بشمول طلبہ اور مظاہرین بھارت کو "حسینہ کے اہل کار" کے طور پر دیکھتا ہے۔اسی لیے بنگلہ دیش کی نئی انتظامیہ بھارت کے خلاف ایک اہم توازن کے طور پر پاکستان کے ساتھ اپنے تعلقات بہتر بنا رہی ہے۔ اگرچہ پاکستان اور بنگلہ دیش کے درمیان تعلقات متعدد محاذوں پر ترقی کر رہے ہیں، تجزیہ کار اس بات پر متفق ہیں کہ دائرہ کار ابھی اتنا وسیع نہیں کہ ایک مکمل علاقائی تنظیم سازی کی جا سکے۔ جنوبی ایشیا پر بھارت کا غلبہ ہے اور خطے میں ایک درمیانی طاقت کے طور پر ڈھاکہ نئی دہلی کے ساتھ تعلقات میں خرابی کا متحمل نہیں ہو سکتا۔بقول امتیاز احمد ’’ابھرتے ہوئے کثیر قطبی عالمی نظام میں بنگلہ دیش مختلف اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ فوجی مصروفیات رکھنا چاہے گا، لیکن یہ مصروفیات کسی بھی بھارت مخالف ڈھانچے پر مبنی نہیں ہوں گی … کیونکہ اس سے بنگلہ دیش کے علاقائی مفادات میں مدد نہیں ملے گی۔‘‘ مزید برآں بنگلہ دیش بھارت کے ساتھ اقتصادی، جغرافیائی اور ثقافتی طور پر گہرائی میں الجھا ہوا ہے۔ پچھلے سال بھارت صرف چین کے بعد اس کا دوسرا سب سے بڑا تجارتی پارٹنر تھا۔ اور بھارت اور بنگلہ دیش کے درمیان 2500 میل طویل سرحد ایک خاطر خواہ غیر رسمی تجارتی نیٹ ورک کی سہولت ہے جو مؤخر الذکر کی معیشت میں کلیدی کردار ادا کرتی ہے۔ سرحد کے دونوں طرف کی کمیونٹیز اس قدر جڑی ہوئی ہیں کہ کسی بھی قسم کی تفریق منطقی طور پر کافی مشکل ہوگی۔ بنگالی بولنے والی بھارتی برادریوں اور بنگلہ دیشیوں کے درمیان ثقافتی اور لسانی مماثلتیں بھی دونوں قوموں کو ایک دوسرے کے ساتھ باندھتی ہیں۔
اگر آپ اس خبر کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں۔
مزید تفصیل