Loading
اور ایک دن فلیٹ کا کرایہ آنا بند ہوگیا۔۔۔۔۔۔۔ آپ کو اس تحریر کا یہ آغاز یقیناً بہت بے تکا لگا ہوگا، لیکن میں جو المیہ بیان کرنے جارہا ہوں وہ زر کی چمک سے جُڑے اس واقعے کے باعث ہی سامنے آیا۔۔۔چلیے آگے چلیں۔ فلیٹ میں رہنے کا معاوضہ آنا بند ہوتے ہی مالک مکان کو اپنے کرایہ دار کے ہونے کا احساس ہوا، جس کا کرایہ بینک کے ذریعے آتا تھا۔ اس نے متعدد بار فون کیا مگر دوسرے طرف بس گھنٹی بجتی رہ گئی۔ آخر مالک مکان غصے میں فلیٹ پر پہنچا، جہاں تنہا رہنے والے ساٹھ سالہ کرایہ دار کی لاش اس کی منتظر تھی۔ بے جان جسم کے ارد گرد موجود بستر کی چادروں سے پیشاب کے بھپکے اٹھ رہے تھے، قریب رکھے برتنوں میں رکھے کھانے پر لال بیگوں کا راج تھا، ہفتوں پہلے جان اُگل دینے والا اور رطوبتوں میں ڈوبا بدن گلنے سڑنے کے مراحل سے گزر رہا تھا۔ لاش کی تدفین کا فریضہ پولیس کو ادا کرنا پڑا، کیوں کہ اسے لینے کوئی نہیں آیا۔ اسے ایک بے نام قبر میں دفنادیا گیا۔ تحقیقات کے بعد پولیس نے بتایا،’’یہ خودکشی تو نہیں، لیکن متوفی مرجانا چاہتا تھا۔‘‘ یہ قصہ ساٹھ سال جی کر تنہائی میں مرجانے والے ہاروکی وتن ایبل (Haruki Watanable) کا ہے۔ جاپان کے شہر اوساکا سے میں جیون کرتا ہاروکی نہ عمررسیدہ تھا، نہ غریب، تاہم اس کے پاس بیوی تھی، دوست تھے نہ ملازمت۔ وہ باپ تھا، مگر اولاد نے کئی سال سے رابطے توڑ رکھے تھے۔ پھر جمع پونجی بھی ٹھکانے لگ گئی اور مالی محتاجی نے آلیا۔ بینک کے ذریعے جاتا کرایہ رک گیا، جس سے اس کے ہونے کا خیال آیا اور اس کا اکیلا وجود لاش کی صورت میں دریافت ہوا۔ ہمارے معاشرے میں ساری خامیوں کے باوجود اب بھی رشتوں اور تعلقات کی ڈوریں اتنی مضبوط ہیں کہ ایسے واقعات بہت کم رونما ہوتے ہیں، اور جب ہوتے ہیں تو خبر بن کر معاشرتی بے حسی کی بحث چھیڑ جاتے ہیں، مگر جاپان میں یہ روزمرہ کے وقوعے ہیں۔ جاپان کی قومی پولیس ایجنسی کے مطابق گذشتہ سال کے پہلے چھے ماہ کے دوران تنہا رہنے والے 37 ہزار 227 بزرگ شہری اپنے گھروں پر مردہ پائے گئے، جن میں سے ستر فی صد کی عمر پینسٹھ سال یا اس سے زیادہ تھی۔ ان مرنے والے میں سے 3 ہزار 939 کی لاش موت کے ایک ماہ بعد دریافت ہوئی، جب کہ ایک سو تیس ایسے تھے جن کے مرنے کا انکشاف موت کے سال بھر بعد ہوا۔ جاپانی ادارے نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف پاپولیشن اینڈ سوشل سیکیوریٹی ریسرچ نے تخمینہ لگایا ہے کہ جاپان میں پینسٹھ سال یا اس سے زیادہ عمر کے اکیلے پن کے ساتھ زندگی بتاتے افراد کی تعداد 2050 تک 10ملین سے تجاوز کرجائے گی۔ جاپان میں بڑھاپا تنہا رہ کر گزارنے اور یوں خاموشی سے مرجانے کہ مرنے کا ایک عرصے بعد پتا چلے، کا سلسلہ ایک رجحان، طرزحیات، مسئلے یہاں تک کہ وبا کی صورت اختیار کرچکا ہے۔ اس رجحان کو جاپانی میں کودوکوشی ( Kodokushi ) کا نام دیا گیا ہے، اسے ’’کوری تسوشی‘‘ (koritsushi) بھی کہا جاتا ہے، جس کا مطلب ہے ’’اکیلے پن یا علیحدگی میں موت۔‘‘ ٹیکنالوجی، معیشت اور ثقافت کے راستوں پر کہیں ترقی یافتہ ممالک سے ہم قدم اور کہیں ان سے بھی آگے جاپان ’’کودوکوشی‘‘ کی صورت میں ایک بہت بڑے سماجی بحران کا سامنا کر رہا ہے۔ سماج سے ٹوٹ جانے اور تنہائی میں مرجانے کے اس رجحان کے پیچھے کئی محرکات اور وجوہات ہیں، جن میں معاشی جمود، شہروں میں آبادی کا بڑھنا اور جدیدیت سرفہرست ہیں۔ بڑھتی عمر کے لوگوں کی تنہائی میں موت ایک سنگین لیکن عام سا مسئلہ بنتا جارہا ہے۔ اس رجحان کی شروعات 1970 کے عشرے میں ہوئی اور پھر یہ رجحان تیزی سے پھیلتا گیا۔ لوگ تنہا رہنے اور یوں مرنے لگے کہ ان کی لاش دنوں، ہفتوں اور مہینوں بعد دریافت ہوتی۔ کودوکوشی کے سب سے زیادہ شکار بوڑھے افراد ہیں۔ اس المیے کے عوامل میں بڑھتی ہوئی سماجی علیحدگی، خودعدم توجہی (Self-neglect)، اکیلاپن، سب سے الگ تھلگ ہوجانا، سماجی روابط اور خاندان کی اعانت کا فقدان، اور صحت کے مسائل نمایاں ترین ہیں۔ تنہائی میں روزوشب گزار کر موت کے اندھیرے میں ڈوب جانے والوں میں سے زیادہ تر وہ ہیں جنھوں نے تاعمر شادی نہیں کی یا وہ جو طلاق یا جیون ساتھی کی رحلت کے باعث اکیلے پن، ذہنی دباؤ، حرکت پذیری سے محرومی میں مبتلا ہوکر اکیلے پن کا راستہ چنتے ہیں، جس کا نتیجہ تنہائی کے ویرانے میں موت کی چاپ سننے کی صورت میں نکلتا ہے۔ تنہائی اور بڑھاپے کے ساتھ تنگ دستی بھی شریک ہوجائے تو بنیادی ضروریات کی عدم دست یابی۔۔۔ جیسے کھانا یا پانی نہ ملنا، حدت، جسمانی اور ذہنی امراض کے لیے طبی امداد کی عدم فراہمی، ناکافی ضروریات زندگی، جیسے جگہ اور ہوا کی کمی اور غیرموزوں ماحول کے باعث صورت حال مزید زبوں ہوجاتی ہے۔ جانوروں اور حشرات الارض سے لگنے والی بیماریاں، اپنے بے یارومددگار ہونے کا احساس، اور اپنی انا اور خودداری برقرار رکھنے کے لیے جدوجہد وہ عناصر ہیں جو تنہائی میں موت کے سانحے پر منتج ہوتے ہیں۔ یک وتنہا اجل کا سامنا کرنے کی کہانیوں کے کردار مفلوک الحال بزرگ ہی نہیں وہ افراد بھی ہیں جن پر کبھی ہن برستا تھا اور دولت کی فراوانی کے باعث ان کے اردگرد تعلقات کا میلہ لگارہتا تھا۔ جاپانی اقتصادی بگاڑ نے خوش حال طبقے کی زندگی پر بھی گہرے اثرات مرتب کیے ہیں۔ جاپان کی۔ معیشت کو1990 سے بڑھتی ہوئی مندی کا سامنا ہے۔ ان حالات کے باعث گھر بیٹھ جانے والے وہ اہل تجارت اور ایسے ملازمت پیشہ افراد جنھوں نے شادی کو قید سمجھا اور اس بندھن میں نہیں بندھے، کارپوریٹ دنیا کی چکاچوند اور رونقوں سے لاتعلقی کے بعد سماجی علیحدگی کا شکار ہوگئے۔ چناں چہ معاشی جدوجہد، کچے دھاگے سے ٹوٹتے رومانی وجسمانی رشتے اور جذباتی دباؤ انھیں ویران گھروں میں ایک دن موت سے ہم کنار کردیتا ہے۔ تاریخی تناظر میں دیکھا جائے تو تنہائی میں موت کا سراغ جاپان کی صدیوں پہلے رائج ایک روایت میں ملتا ہے۔ اس دور میں موت کی حقیقت سے خائف جاپانی خاندان ’’اوبے سوتے‘‘ (Ubasute) کے عنوان سے رائج رسم پر عمل کرتے ہوئے اپنی بوڑھی عورتوں کو آبادی سے دور کسی ویرانے میں تنہا مرنے کے لیے چھوڑ آتے تھے۔ اس وقت یہ واضح طور پر جبری تھا، لیکن عصرحاضر میں ظاہری طور پر متاثرہ شخص کی رضامندی سے وقوع پذیر ہوتا ہے، مگر درحقیقت یہ سماج اور حالات کے خفیہ جبر ہی کی کارستانی ہے۔ تنہائی میں موت کا سلسلہ اب لاچار اور امیدوں امنگوں سے تہی بڑھاپے ہی تک محدود نہیں رہا، یہ عفریت جوانیاں بھی نگل رہا ہے۔ 2018 سے 2020 کے دوران نوخیز لڑکوں لڑکیوں سے لے کر تیس تا چالیس سال کے 742افراد معاشرے سے لاتعلق ایام بسر کرتے ہوئے بند دروازوں کے پیچھے زندگی کی بازی ہار گئے، ان میں سے لگ بھگ چالیس فی صد کے لاشیں کم ازکم چار دن کے بعد دریافت ہوئیں۔ اس عرصے کے بعد بیتے برس تک اکیلی زندگی اور تنہا موت ایک ہزار ایک سو پینتالیس نوجوانوں کا مقدر بن چکی ہے، جن میں 20 سے 29 سال تک کے 325 افراد اور 15 سے 19 سال تک کے پندرہ نوجوان بھی شامل ہیں۔ تنہائی میں اموات کی وبا جاپانی حکومت اور معاشرے کے لیے ایک سنگین مسئلہ بن چکی ہے، جس سے نمٹنے کے لیے حکومتی اور عوامی سطح پر مختلف اقدامات کیے جارہے ہیں۔ ملک کے کچھ اضلاع میں اس رحجان کے انسداد کے لیے مہمات اور تحریکیں چلائی جارہی ہیں۔ دارالحکومت ٹوکیو میں سماجی اجتماعات کے انعقاد اور بزرگ شہریوں کی خبرگیری مہم کے ذریعے اس رجحان کو روکنے کی کوشش ہورہی ہے۔ خاتون آرٹسٹ Miyu Kojima ان کمروں کو جہاں لوگ تنہا موت کا شکار ہوئے، چھوٹے چھوٹے نمونوں کی صورت میں تخلیق کرکے لوگوں میں اس رجحان کے خلاف شعور بیدار کرنے کے لیے کوشاں ہیں۔ ٹوکیو کے مضافات میں واقع رہائشی منصوبے Tokiwadaira میں تنہائی میں موت کے واقعات پیش آنے کے بعد اس بستی کے باسیوں نے ازخود صورت حال سے نمٹنے کا فیصلہ کیا۔ اس مقصد کے لیے رہائشیوں کی انجمن نے ہاٹ لائن کے ذریعے سرکاری اداروں کو مطلع کرنے کا اہتمام کیا اور تنہائی میں موت کے خلاف باقاعدہ مہم شروع کی۔ اس مہم کے تحت رضاکار گشت کرکے فلیٹوں میں نمودار ہونے والی ایسی علامات کی خبر رکھتے ہیں جو مکین سے متعلق آگاہ کرسکے۔ یہ دیکھا جاتا ہے کہ کیا دُھلے ہوئے کپڑے خشک ہونے کے بعد بالکونی سے ہٹا لیے گئے ہیں؟ دن میں بھی پردے کھڑکیوں پر پڑے ہیں؟ آنے والے خطوط اور اخبارات اٹھالیے گئے ہیں یا جوں کے توں پڑے ہیں؟ روشنیاں ساری رات جلتی رہیں یا بجھادی گئیں؟ اس کے ساتھ بحالی مراکز قائم اور لوگوں کو ورزش اور باہم ملنے جُلنے کی سہولت فراہم کرکے بھی اس رجحان کو روکنے کی کوشش کی گئی۔ ان سب کوششوں کے باوجود اس آبادی میں تنہائی میں موت کے واقعات کو روکا نہیں جاسکا۔ علم، ترقی اور دولت کے آسمانوں کو چھوتے جاپان کا یہ المیہ ہمیں سمجھا رہا ہے کہ خاندان، خلوص، محبت اور خدا سے تعلق ہی فرد کی تنہائی کا مداوا ہیں، جن کا نعمل البدل کوئی ذہین سے ذہین ترین سائنسی ایجاد نہیں ہوسکتی۔
اگر آپ اس خبر کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں۔
مزید تفصیل