Tuesday, September 09, 2025
 

شیرکی مونچھ کا بال

 



میاں بیوی کی روز لڑائی ہوتی تھی‘ میاں سارا دن کام کرتا تھا اور شام کو تھک ہار کر واپس آتا تھا‘ بیوی کے پاس سارے دن کا غصہ جمع ہوتا تھا‘ وہ اسے دیکھتے ہی نفرت کی پوری بالٹی اس پر الٹ دیتی تھی یوں چخ چخ لڑائی میں تبدیل ہوجاتی تھی اور نوبت لڑائی مار کٹائی تک آ جاتی تھی‘ یہ روز کا معمول تھا‘ بیوی تنگ آ گئی اور اس نے خاوند سے الگ ہونے کا فیصلہ کر لیا‘ وہ ابھی یہ سوچ ہی رہی تھی کہ اس کی ہمسائی نے اسے شہر کے ایک باباجی کے بارے میں بتایا‘ اس کا کہنا تھا باباجی کے پاس مؤکلات ہیں۔  یہ اپنے مریدوں کو تعویز دیتے ہیں اورمؤکلات ان کے تمام بگڑے کام سنوار دیتے ہیں‘ تم طلاق سے پہلے باباجی کو ضرور ٹرائی کرو‘ یہ مشورہ خاتون کی سمجھ میں آگیا چناں چہ اس نے باباجی کا سہارا لینے کا فیصلہ کر لیا‘ باباجی شہر سے باہر رہتے تھے‘ خاتون ان کے پاس گئی اور گھٹنے چھو کر پوچھا‘ کیا آپ واقعی خاوندوں کو مسخر کرنے کے تعویز دیتے ہیں؟ باباجی نے سر ہلا کر جواب دیا‘ یہ بات درست ہے‘ خاتون نے پوچھا اگر میں یہ تعویز لے لوں تو پھر کیا ہوگا؟ باباجی نے جواب دیا‘ آپ کا خاوند مطیع ہو جائے گا۔  آپ اسے کہو گی اٹھ جاؤ تو وہ اٹھ جائے گا‘ آپ کہو گی بیٹھ جاؤ تو وہ بیٹھ جائے گا‘ آپ اسے جو کھلاؤ گی وہ چپ چاپ کھا لے گا‘ آپ کے پاؤں بھی دبائے گا‘ آپ سے اونچی آواز میں بات نہیں کرے گا اور آپ جب بھی اس کی طرف دیکھو گی تو یہ ہنس کر جواب دے گا‘ میرے تعویز کے بعد پورے شہر میں آپ دونوں سے زیادہ سکھی جوڑی کوئی نہیں ہو گی‘ خاتون خوش ہو گئی اور اس نے ایک بار پھر باباجی کے گھٹنے چھو کر عرض کیا۔  آپ پھر مجھے جلدی سے تعویز دے دیں‘ باباجی مسکرائے اور فرمایا‘ تعویز لکھنا اور دینا کوئی مسئلہ نہیں صرف ایک دقت ہے‘ آپ کو تعویز کے لیے شیر کی مونچھ کا بال لانا پڑے گا‘ وہ ہو گا تو تعویز تیار ہو گا ورنہ تعویز نہیں مل سکے گا‘ خاتون نے گڑگڑا کر عرض کیا ’’کیا اس کے بغیر یہ ممکن نہیں؟‘‘ بابا جی نے انکار میں سر ہلا کر جواب دے دیا ‘خاتون نے تھوڑی دیر سوچا اور پھر عرض کیا ’’باباجی یہ کوئی مسئلہ نہیں‘ میں عن قریب شیر کی مونچھ کا بال لے آؤں گی‘ آپ بس تعویز کی تیاری کریں‘‘ باباجی نے دعا کے ساتھ اسے رخصت کر دیا۔ خاتون چلی گئی اور اڑھائی ماہ بعد واپس لوٹی اور چھوٹی سی ڈبیا باباجی کے سامنے رکھ دی‘ باباجی نے ڈبیا کھولی تو وہ شیر کی مونچھوں کے بالوں سے بھری ہوئی تھی‘ باباجی کبھی ڈبیا کی طرف دیکھتے تھے اور کبھی خاتون کی طرف اور پھر حیرت سے سرگھماتے تھے‘ آخر میں انھوں نے خاتون سے پوچھا ’’تم یہ بال کہاں سے اور کیسے لے آئی؟‘‘خاتون نے ہنس کر جواب دیا‘ باباجی آپ کی شرط بہت کڑی اور مشکل تھی‘ میں شروع میں بہت پریشان رہی لیکن پھر مجھے طریقہ سمجھ آ گیا‘ میں نے قصائی کی دکان سے گوشت کا بڑا ٹکڑا لیا‘ اسے ڈنڈے پر باندھا اور چڑیا گھر چلی گئی‘ شیر کے پنجرے کے پاس گئی اور ڈنڈا پنجرے کے اندر کر دیا‘ شیر دور بیٹھا تھا‘ وہ اٹھا‘ ڈنڈے سے گوشت اتارا اور کھا گیا۔  میں نے یہ عمل اگلے دن بھی دہرا دیا‘ شیر نے گوشت کھا لیا‘ میں اب ایک خاص وقت پر روزانہ گوشت لے کر جاتی تھی اور شیر کو کھلادیتی تھی‘ میں اس دوران ڈنڈے کا سائز چھوٹا کرتی رہی اور شیر میرے قریب آتا رہا یہاں تک کہ میں اسے ہاتھ سے گوشت کھلانے لگی‘ اگلی اسٹیج پر میں اسے گوشت کھلانے کے بعد اس کے سر پر ہاتھ پھیرنے لگی‘‘ شیر نے اس پربھی کوئی اعتراض نہیں کیا‘ میں سر پر ہاتھ پھیرتے پھیرتے اس کی گردن اور کمر پر بھی ہاتھ پھیرنے لگی‘ شیر اس کا بھی عادی ہو گیا‘ دس پندرہ دن بعد میں نے اس کا پنجرہ کھولا اور اندر جا کر اسے گوشت کھلانے لگی‘ شیر نے مجھے کچھ نہیں کہا‘ میں اب چڑیا گھر جاتی تھی‘ شیر کے پنجرے میں داخل ہوتی تھی‘ اسے گوشت کھلاتی تھی اور پھر اس کے پورے جسم پر ہاتھ پھیرتی تھی یوں ہم ایک دوسرے کے دوست بن گئے۔  وقت کے ساتھ ساتھ ہماری دوستی اتنی بڑھ گئی کہ میں شیر کے اوپر بیٹھ جاتی تھی اور وہ مجھے پنجرے میں چکر لگواتا رہتا تھا‘ میں نے اس دوران ایک دن اس کی مونچھ کا بال چٹکی میں پکڑا اور کھینچ لیا‘ شیر کو تھوڑی سی تکلیف ہوئی لیکن وہ برداشت کر گیا‘ آپ نے مجھے کیوں کہ یہ نہیں بتایا تھا آپ کو دائیں مونچھ کا بال چاہیے تھا یا بائیں مونچھ کا لہٰذا میں نے دونوں مونچھوں کے بال توڑ لیے‘ میرا کام ہو گیا لیکن میں نے پھر سوچا‘ آپ کے پاس میری جیسی بے شمار عورتیں آتی ہوں گی‘ یہ بے چاری یہ بال کہاں سے لائیں گی چناں چہ میں نے ایک ایک کر کے اس کی مونچھ کے سارے بال توڑ لیے اور شیر اب مونچھوں کے بغیر پنجرے میں گھوم رہا ہے‘ آپ یہ میری طرف سے تحفہ قبول کریں اور جس جس عورت کو بال کی ضرورت پڑے آپ اس ڈبی سے نکالیں اور اسے تعویز بنا کر دے دیا کریں‘ آپ کو اب کسی عورت کو شیر کے پاس بھجوانے کی ضرورت نہیں۔  باباجی نے پوری کہانی سنی اور قہقہہ لگا کر بولے ’’بیٹا شیر کے یہ بال ہی تعویز ہیں‘ تمہیں اب مزید کسی کاغذ یا عبارت کی ضرورت نہیں‘ تمہارا کام ہو چکا ہے‘‘۔خاتون حیرت سے باباجی کی طرف دیکھنے لگی‘ باباجی نے فرمایا‘ تم نے صرف گوشت‘ تھوڑی سی توجہ اور تھوڑی سی محبت سے جنگل کے اس بادشاہ کو مطیع کر لیا جس سے تمام درندے بھی ڈرتے ہیں‘ تمہارے سامنے تمہارے بے چارے خاوند کی کیا حیثیت ہے؟ تم نے بس شیر جیسی اسپرٹ سے اپنے خاوند کا خیال رکھنا ہے‘ یہ شیر سے زیادہ تمہارا وفادار اور مطیع ہو جائے گا‘ خاتون حیرت سے بابا جی کی طرف دیکھتی رہی‘ باباجی نے پوچھا‘ تمہیں شیر کی مونچھیں گنجی کرنے میں کتنے دن لگے‘ خاتون نے جواب دیا ’’صرف اڑھائی ماہ‘‘ باباجی نے ہنس کر فرمایا تم ذرا سوچو تم نے صرف اڑھائی ماہ میں تھوڑی سی توجہ‘ محبت اور خدمت سے درندے کو دوست بنا لیا جب کہ تمہارا خاوند انسان ہے۔  یہ تمہاری زبان بھی جانتا ہے‘ یہ تمہیں بھی اچھی طرح پہچانتا اور سمجھتا ہے‘ تم اسے کتنی آسانی سے اپنا گرویدہ بنا سکتی ہو‘ تم بس اپنا وہ آرٹ اس پر استعمال کرو جس سے تم شیر کی مونچھ تک پہنچ گئی تھی‘ باباجی کا کہنا تھا انسانی تعلقات کی عمارت ایک دوسرے کے احساس پر کھڑی ہوتی ہے اور احساس توجہ‘ محبت اور خدمت سے جنم لیتا ہے اور جہاں یہ تینوں چیزیں نہ ہوں وہاں تعلقات چلتے ہیں اور نہ خاندان اور تم سے یہی غلطی ہو رہی ہے‘ تمہاری زندگی میں صرف یہ تعویز مسنگ ہے‘ باباجی خاموش ہو گئے‘ خاتون نے تھوڑی دیر سوچا اور پھر عرض کیا ’’لیکن باباجی اگر کسی کے ساتھ آپ کا دل نہ لگ رہا ہو تو پھر‘‘ باباجی نے فرمایا’’ بیٹا یہ فیصلہ ٹرین چلنے سے پہلے کرنا چاہیے تھا اگر ٹرین ایک بار چل جائے اور آپ نے دو چار منزلیں طے کر لی ہوں تو پھر بلاوجہ کسی اجنبی اسٹیشن پر اترنے کی غلطی نہیں کرنی چاہیے۔  اللہ تعالیٰ نے تمہیں بیٹی دے دی ہے‘ تم اگر اس اسٹیج پر دل کی سنو گی تو اس میں تمہارا نقصان ہی نقصان ہے‘ چلتی ہوئی ٹرین کو اب نہ روکو‘ منزل نہ بدلو‘ اسی منزل کو خوب صورت اور کمفرٹیبل بنا لو اور اگر اللہ کو کچھ اور منظور ہوا تو یہ راستے میں تمہارے لیے کوئی نہ کوئی نیا آپشن پیدا کر دے گا ورنہ دوسری صورت میں ٹرین کو چلنے دو‘ اسے نہ روکو‘ باباجی کا کہنا تھا جوڑے واقعی آسمانوں پر بنتے ہیں‘ ان میں ہماری کوئی کوتاہی یا چالاکی نہیں ہوتی‘ ہم بس انھیں قبول نہ کر کے اپنے لیے مسائل پیدا کر لیتے ہیں‘ قدرت کے فیصلے کو قبول کرو اورخاوند جیسے شیر کی مونچھ کے بال توڑنا شروع کرو ‘ زندگی جنت بن جائے گی۔ باباجی کا کہنا تھا خاندان میں وقت کے ساتھ ساتھ مرد کی اجارہ داری کم اور عورت کا اختیار بڑھتا جاتا ہے‘ خاوند کے گھر میں تم ہر دن مضبوط سے مضبوط ہوتی چلی جاؤ گی اور یہ کم زور سے کم زور ہوتا جائے گا‘ تم ان دنوں کا انتظار کرو‘ دوسرا تم نے جس طرح شیر کو اپنے کھانے پر لگا لیا تھا بالکل اسی طرح خاوند کو بھی اپنے ہاتھ کے ذائقے کا عادی بنا لو‘ تمہارا آدھا مسئلہ حل ہو جائے گا‘ عورت اور مرد کے درمیان محبت کھانے سے شروع ہوتی ہے جب تک درمیان میں کھانا اور عورت کے ہاتھ کا ذائقہ باقی رہتا ہے محبت بھی جاری اور ساری رہتی ہے‘ تم اپنے ہاتھ کو ذائقے سے محروم نہ کرو‘ دوسرا مرد سارا دن کا تھکا ہارا واپس آتا ہے۔  باہر کی دنیا بہت سخت اور ظالم ہے‘ یہ اس سے بھاگ کر توجہ کے لیے گھر آتا ہے لیکن اگر اسے وہاں بھی توجہ نہ ملے تو پھر یہ بے چارہ کہاں جائے گا؟ آپ خاوند کو توجہ دو‘ اس کی بات سنو‘ اس کے ساتھ کوئی شکوہ نہ کرو‘ کوئی شکایت ہونٹوں پر نہ لے کر آؤ‘یہ بات پلے باندھ لو دنیا کے ہر جان دار کو محبت چاہیے ہوتی ہے‘ لوگ اس خدا کو بھی چھوڑ دیتے ہیں جس سے انھیں پیار نہیں ملتا‘ محبت اتنی طاقتور ہوتی ہے کہ تم نے اس سے شیر کو بھی اپنا غلام بنا لیا ‘ تم اگر اس محبت کا صرف دس فیصد خاوند کو دے دو تو یہ بے چارہ پوری زندگی غلام بن کر تمہاری خدمت کرتا رہے گا‘‘ باباجی خاموش ہو گئے‘ خاتون نے شیر کی مونچھ کے بالوں کی ڈبی اٹھائی‘ باباجی کو سلام کیا اور چپ چاپ گھر روانہ ہو گئی‘ وہ سارا راستہ شیر کی مونچھ کے بال گلی میں بکھیرتی جارہی تھی۔

اگر آپ اس خبر کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں۔

مزید تفصیل