Loading
والدین بننا اور اپنی ذمہ داریوں کو سمجھنا یقیناً ایک خوش کن لیکن مشکل تجربہ ہے ۔ خاص کر جب بچے بڑے ہورہے ہوتے ہیں ایسے میں ان کی تربیت کر نا اور انھیں تمیزدار بنانا ان کے جذباتی اور نفسیاتی مسائل کو سمجھنا ایک کٹھن مرحلہ ہوتا ہے۔ اکثر والدین یہ شکایت کرتے ہیںکہ ان کے بچے بدتمیزی سے پیش آتے ہیں اوربات نہیں مانتے۔ یقیناً بچے کے ایسے برتاؤ کے پیچھے کوئی نہ کوئی وجوہات ضرور ہوتی ہیں۔والدین کے لئے ان وجوہات کو جانا بھی ضروری ہے تاکہ اسے حل کیا جاسکے۔ لیکن کیا یہ زیادہ بہتر نہ رہے گا کہ مسائل سے پہلے ہی بچوں کی تربیت کو چند سنہری اصول اپنا تے ہوئے کیا جائے تاکہ مسائل کا کم سے کم سامنا ہو۔ اور بچوں میں فرمانبرداری پروان چڑھے۔ بچے کیوں بات نہیں سنتے اگر کوئی بچہ مستقل طور پر والدین کی باتوں پر دھیان نہیں دیتا ہے، تو طبی مسائل کو مستردنہیںکیا جاسکتا ہے۔ ڈاکٹر یا کسی ماہر نفسیات سے اس پر بات کرنا اس رویے کی نشاندہی میں مدد دے گا۔اکثر لوگ یہ پسند بھی نہیں کر رہے ہوتے کے ان کے بچے کا معالجہ کوئی ماہر نفسیات کرے کیونکہ اسے ٹیبو سمجھا جاتا ہے۔اس کے کچھ آسان اور کارآمد طریوں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ بچوں کو نفسیاتی طور پر متحرک کیا جائے، تو ایک سستا امتحان یہ ہے کہ دروازے پر کھڑے ہو کر خاموشی سے پوچھیں کہ کون آئس کریم چاہتا ہے (یا جو دکان پر کھانے کے لیے کچھ پیسے چاہتا ہے)۔ اگر بچہ پرجوش ہاں کے ساتھ چھلانگ لگاتا ہے، تو شاید سماعت کا ٹیسٹ مکمل ہو گیا ہے۔ یہ فرض کرتے ہوئے کہ جسمانی سماعت کے مسائل نہیں ہیں، اس کے علاوہ بھی بہت ساری وجوہات ہیں جو ہمارے بچے "سنتے" نہیں ہیں۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ وہ سن سکتے ہیں۔ وہ سن رہے ہوتے ہیں۔ جب ہم شکایت کرتے ہیں کہ ہمارے بچے نہیں سنتے ہیں تو یہ صحیح طریقہ نہیں۔ شاید ایک بہتر سوال یہ ہو سکتا ہے کہ ہمارے بچے ایسا کیوں نہیں کرتے جیسا ان سے پوچھا جاتا ہے؟ بچوں کے ہدایات کو نہ سننے یا ان پر عمل نہ کرنے کی عام وجوہات ہمارے بچے ہماری ہدایات پر عمل نہ کرنے کی بے شمار وجوہات ہیں۔ ان میں شامل ہوسکتا ہے وہ یہ نہیں بتانا چاہتا کہ کیا کرنا ہے۔ وہ ابھی کیا کر رہے ہیں اس پر ایک ہائپر فوکس ہم ان سے جو کچھ کرنے کو کہہ رہے ہیں اس کے علاوہ کچھ کرنے کی ترجیح اضافی ضروریات (جیسے ADHD یا ASD) بھوکا، ناراض، تنہا، تھکا ہوا، یا تناؤ کا شکار ان کے ساتھ ہمارے تعلق کا معیار ان سے پہلے ہی کتنی چیزیں کرنے کو کہا گیا ہو ہوسکتا ہے ان کے بہن بھائی سے اتنی ہی مقدار میں کام کرنے کو نہیں کہا جا رہا چاہے یہ کوئی ایسی چیز ہو جس کی انہیں پرواہ ہو۔ دن میں بہت دیر ہو چکی ہے۔ وہ بھوکے ہیں۔ وہ سست ہوئے ہیں۔ وہ اپنے بہن بھائی کے ساتھ اس کام پر کام نہیں کرنا چاہتے جس طرح سے ہم ان سے یہ کام کرنے کو کہہ رہے ہیں۔ درحقیقت ایسا کرنے کی مہارت یا صلاحیت نہیں ہے جیسا کہ ان سے پوچھا گیا ہے۔ اوربھی بہت سی وجوہات… بہت سے معاملات میں، یہ صرف ایک چیز نہیں ہے، بلکہ چیزوں کا مجموعہ ہے۔ اپنے بچوں کی صلاحیتوں اور ذہنی حالت سے ہم آہنگ ہونا ہمیں یہ سمجھنے میں مدد کر سکتا ہے کہ ہمیں کب پوچھنا چاہیے، ہمیں کیا پوچھنا چاہیے، اور ہمیں کیسے پوچھنا چاہیے۔ لیکن کبھی کبھی چیزوں کو مختلف انداز سے کرنا پڑتا ہے، قطع نظر اس کے کہ ہر کوئی کیسا محسوس کرتا ہے۔ ان حالات میں ہمیں تحمل کی ضرورت ہے۔ قوانین اور آزادی میں توازن تلاش کرنا لیکن کیا ہم حقیقی ہو کر سوچ سکتے ہیں؟ بچے کو اپنے خاندان کا حصہ بننا اور اپنے حصے کا کام کرنا سیکھنا کہتے ہیں۔ والدین کی ذمہ داری ہے کہ وہ بچوں کی قواعد پر عمل کرنے میں مدد کریں۔ سول سوسائٹی اس طرح کام کرتی ہے۔ تو ہم کیا کریں جب ہمارے بچے "نہیں سنیں گے" اور اس سے واقعی کوئی فرق پڑتا ہے؟ آئیے چند اصولوںکو پیرنٹنگ کے پیرائے میں دیکھتے ہیں۔ ’ناں‘ کو ’ہاں‘ میں بدلیں بچوں کو اکثر ناں کہنے کی عادت پڑ جاتی ہے جس کی بنیادی وجہ کہیں نا کہیں بڑوں اور اردگرد سے مسلسل منفی تاثرملنا بھی ہوتا ہے۔ اپنے بچوں کو یہ سیکھانا کہ آپ اپنے کھلونوں سے کھیلیں مگر بعد میں انھیں اپنی جگہ پہ رکھیں یا اِدھراُدھر نہ پھینکیں۔ بعد اوقات بچوں کو بس رہنمائی کی ضرورت ہوتی ہے۔جس سے وہ بلاوجہ کے انکار سے بچ سکتے ہیں اور بہتر کارکردگی دکھا سکتے ہیں۔ حیثیت واضح کرنا بڑے اکثر بچوں پہ بلا وجہ رعب جماتے ہیں اور انھیں کچھ کرنے پہ مجبور کرتے ہیں جس سے بچوں کے اندر منفی جذبات پیدا ہوتے ہیں اور وہ احساس کمتری کا شکار ہو جاتے ہیں یابعض اوقات تو وہ نفرت آمیز رویوں کی وجہ سے ڈھیٹ بھی بن جاتے ہیں جیسا کہ اکثر والدین بچوں سے مار پیٹ کو تربیت کا حصہ سمجھتے ہیں جو کہ بلکل بھی نہیں۔بچوں کو دوسروں کے سامنے ڈانٹنا یا مارنا ان کی اپنی حیثیت کو مجروح کرنے کے زمرے میں آتا ہے۔ بچوں کو بیٹھ کر سمجھانا اور ان کی آنکھو ں میں آنکھیں ڈال کر ان سے بات کرنا ان کی حیثیت واضح کرنے اور رہنمائی میں معاون ہوتا ہے۔ لمس اور الفاظ ہم اکثر دیکھتے ہیں کہ بچہ گر جائے تو جیسے ہی اسے خود سے قریب کرکے پیار سے سہلایا جائے وہ فوراً چپ کر جاتا ہے ۔ یہ لمس کی طاقت ہے اور سائنسی تحقیقات بھی یہی کہتی ہیں کہ انسانی لمس تسلی بخش اور پریشانی دور کرنے سب سے بہترین طریقوںمیں سے ایک ہے۔یہ خوف کو دور کرتا ہے اور بچوں کو آپ کی بات سننے اور سمجھنے میں مدد دیتا ہے۔بلکل اسی طرح الفاظ بنا وجود کے وہ مضبوط ترین ہتھیار ہیں جس سے آپ کسی بھی انسان کو جیت یا ہار سکتے ہیں۔بچے کو کوئی بات پیار سے سمجھائی جائے تو وہ سمجھ جاتا ہے لیکن بعض اوقات شرارتی بچوں کے ساتھ سختی بھی کرنی پڑتی ہے۔ اظہار تشکر اور تعریف بچوں میں شروع سے ہی تشکر کا جذبہ پیدا ہوتاہے اور اس کے لئے کوئی بڑی سائنس نہیں چاہیے ہوتی بلکہ یہ وہ اپنے والدین اور بہن بھائیوں کو دیکھ کر سیکھ جاتا ہے۔ جیسے جب آپ کوئی خواہش پوری کرتے ہیں یا یہاں تک کے ہر مرتبہ کھانے دینے پہ بھی بچے کو شکر گزاری کی ترغیب دی جاسکتی ہے ۔ اس ضمن میں کہانیاں اور قصے بہت اہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔اسی طرح بچے کے اچھے کام کرنے پر اس کی حوصلہ افزائی کرنا بچے کے اندر جوش جذبہ پیدا کرتا ہے اور اگلی بار جب اسے کوئی کام کہا جاتا ہے تو اسے ستائش کی چاہ وہ کام کرنے پر آمادہ کرتی ہے۔ خودمختاری اور امتحان بچوںکو شروع سے ہی اپنے چھوٹے چھوٹے کام کرنے کی عادت ڈالنی چاہیئے اس سے ان میں خود اعتمادی کا جذبہ پروان چڑھتا ہے۔والدین جب بچوںکا ہر کا م اپنے ہاتھ سے کرنے لگتے ہیں اور انھیں سپون فیڈنگ کی عادت ڈال دیتے ہیں تو بعد میں بچوں میں یہ عادت پختہ ہو جاتی ہے۔ضروری یہ ہے کہ بچے اپنے چھوٹے چھوٹے کا م خود کریں اس سے ان میںاحساس ذمہ داری بھی پیدا ہوگا اور وہ مستقبل میں خود اعتماد بھی بن پائیں گے۔بعض اوقات بچے وہ نہیں بھی کر رہے ہوتے جو والدین انھیں سمجھا رہے ہوتے ہیں اس کے لئے ان کا امتحان بھی لیا جاسکتا ہے یہ جائزہ لیتے ہوئے کے وہ کتنا سنتے اور سمجھتے ہیں اور ان کا عمل کیا ہے۔ مثال اور صبر کہانیاں اور قصے ہمیشہ سے بچوںکی تربیت کا بہترین ذریعہ رہے ہیں۔ کیونکہ انسانی ذہن کہانی گوئی پسند کرتا ہے۔بچوں کو مثالوں سے سمجھایا جاسکتا ہے انھیں کامیاب لوگوں کی کہانیاںسنائی جاسکتی ہیں اور ایسی کتابیں پڑھنے کی ترغیب دی جاسکتی ہے۔ اکثر ماں باپ بنا یہ دیکھے سمجھے بچے کو کوئی حکم صادر کر دیتے ہیںکہ وہ کیا کر رہا ہے ۔ ضروری ہے کہ بچے جو کام کر رہا ہے اسے پہلے وہ کرنے دیا جائے اس سے اسے توجہ مرکوز کرنے میں مدد ملے گی ۔ بچے بڑے کی طرح بیک وقت بہت سے کام کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے توضروری ہے کہ انھیں ایک وقت میں ایک ہی کام کہا جائے۔ سامع بنیں ہم میں سے اکثریت کا مسئلہ یہ ہوتاہے کہ انھیں سننے کی عادت نہیں ہوتی۔ یہ سمجھنا ضروری ہے کہ بچہ سیکھنے کی عمر میں بار بار سوال کرتا ہے۔اور یہ سوال کرنے کا رجحان انھیں ذہنی طور پر مضبوط بناتا ہے ان کی ذہنی الجھنوں کو حل کرنے میں مدد دیتا ہے ۔ والدین کے لئے ان کے سوالوں کا جواب دینا اور انھیں سننا ضروری ہے یقینا یہ صبر آزما ہے لیکن اس سے بچوں کی تربیت بھی ہوجاتی ہے اوروہ سمجھدار بھی ہوجاتے ہیں۔بچوںکو وقت دینا چاہیئے اور وہ ایک اچھا سامع بن کر ہی دیا جاسکتا ہے۔اکثر والدین اپنے نوجوان بچوں کی نافرمانی اور بات نہ سننے کی شکایت کرتے ہیں جس کی بنیادی وجہ بچپن میں بچوں کو وقت نہ دینا اور ان کی تربیت نہ کرنا ہوتی ہے۔ اپنے بچوں کو اگر شروع سے وقت دیں اور ان کوایک بہترین سامع بن کر سنیں تو وہ بڑے ہو کر بھی آپ سے اپنے دل کی ہر بات کہیں گے۔
اگر آپ اس خبر کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں۔
مزید تفصیل