Sunday, September 14, 2025
 

غیرمرئی قوت اور کائنات کا مستقبل

 



کائنات اور اس کے اسرار پر تحقیق ہمیشہ انسانی عقل و شعور کے لیے ایک نہ ختم ہونے والا سوال رہا ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ سائنس نے اپنی بنیادیں بدلی ہیں، نئے نظریات سامنے آئے، پرانے خیالات رد ہوئے، اور بعض نے اپنے آپ کو وقت کی کسوٹی پر اس طرح منوایا کہ وہ انسانی فکروتحقیق کے ستون بن گئے۔ انہی میں سب سے نمایاں نام البرٹ آئن اسٹائن کا ہے۔ اس جرمن نژاد سائنس داں نے بیسویں صدی کے اوائل میں عمومی نظریۂ اضافیت پیش کیا، جب نہ جدید ٹیلی اسکوپس تھے، نہ کمپیوٹیشنل ماڈلز اور نہ ہی اربوں نوری سال پر محیط ڈیٹا دستیاب تھا۔ لیکن آئن اسٹائن نے محض ریاضیاتی بصیرت اور فکری تجزیے کی بنیاد پر یہ نقشہ کھینچا کہ کائنات میں کششِ ثقل محض ایک قوت نہیں بلکہ ایک ایسا ڈھانچا ہے جو زمان و مکان کو آپس میں باندھ کر رکھتا ہے۔ یہی وہ تصور تھا جس نے بعد میں فلکیات کی بنیادیں بدل ڈالیں۔ ابتدا میں آئن اسٹائن کے نظریات کو محض ریاضیاتی مشق سمجھا گیا۔ نیوٹن کی کششِ ثقل کو اس وقت ناقابلِ شکست مانا جاتا تھا۔ لیکن وقت نے ثابت کیا کہ عمومی نظریۂ اضافیت نہ صرف درست ہے بلکہ یہ ہمیں کائنات کے ہر پہلو کو سمجھنے کے لیے بنیادی فریم ورک فراہم کرتا ہے۔ 1919ء میں جب سر آرتھر ایڈنگٹن نے سورج گرہن کے دوران ستاروں کی روشنی کے جھکاؤ کا مشاہدہ کیا، تو دنیا کو پہلی بار احساس ہوا کہ آئن اسٹائن کا دعویٰ حقیقت رکھتا ہے۔ روشنی واقعی کششِ ثقل سے متاثر ہوتی ہے اور زمان و مکان ایک دوسرے سے جُڑے ہوئے ہیں۔ گذشتہ ایک صدی میں بارہا سائنس دانوں نے آئن اسٹائن کی مساواتوں کو پرکھا۔ کبھی بلیک ہولز کی دریافت کے ذریعے، کبھی کششِ ثقل کی لہروں کے ذریعے، اور کبھی کائنات کے پھیلاؤ کی پیمائش کے ذریعے۔ حیرت انگیز طور پر ہر بار آئن سٹائن کا نظریہ اور زیادہ طاقتور ہو کر سامنے آیا۔ بیسویں صدی کے آخر تک یہ بات سامنے آ گئی کہ کائنات نہ صرف پھیل رہی ہے بلکہ یہ پھیلاؤ تیز بھی ہوتا جارہا ہے۔ یہ انکشاف فلکیات کی دنیا میں زلزلے سے کم نہ تھا۔ 1998ء میں دو مختلف ٹیموں نے جب دور دراز سپرنووا ستاروں کی روشنی کا تجزیہ کیا تو پتا چلا کہ کہکشائیں ہم سے تیزی سے دور جا رہی ہیں۔ سوال پیدا ہوا: یہ دھکیلنے والی قوت کون سی ہے؟ اور اسی وقت ’’ڈارک انرجی‘‘ کا تصور سامنے آیا۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ اس قوت کا سراغ آئن اسٹائن کی مساواتوں میں پہلے ہی موجود تھا۔ آئن اسٹائن نے اپنی مساواتوں میں ’’کاسمولوجیکل کانسٹنٹ‘‘ شامل کیا تھا تاکہ کائنات کو جامد دکھا سکیں، کیوںکہ اْس زمانے میں یہی خیال عام تھا۔ لیکن جب ہبل نے کائنات کے پھیلاؤ کی دریافت کی، تو آئن اسٹائن نے اس مستقل کو ’’اپنی سب سے بڑی غلطی‘‘ قرار دیا۔ تاہم، وقت نے ثابت کیا کہ شاید یہ کوئی غلطی نہ تھی بلکہ ایک ایسی پیش گوئی تھی جس کی تصدیق کئی دہائیاں بعد ہونی تھی۔ آج ہم جانتے ہیں کہ ڈارک انرجی اسی کاسمولوجیکل کانسٹنٹ سے جُڑا ہوا ایک مظہر ہے۔ یہاں ایک بنیادی فرق سمجھنا ضروری ہے۔ ’’ڈارک میٹر‘‘ اور ’’ڈارک انرجی‘‘ کو اکثر ایک ہی سمجھ لیا جاتا ہے، حالاںکہ یہ دو الگ مظاہر ہیں۔ ڈارک میٹر وہ پوشیدہ مادہ ہے جس کی کششِ ثقل کہکشاؤں کو بکھرنے سے بچاتی ہے۔ اگر یہ نہ ہو تو کہکشائیں اپنے گرد گھومنے کی رفتار کے باعث ٹوٹ پھوٹ جاتیں۔ ڈارک انرجی اس کے برعکس ایک دھکیلنے والی قوت ہے جو کہکشاؤں کو ایک دوسرے سے دور کرتی ہے اور کائنات کو وسعت دیتی ہے۔ سادہ الفاظ میں ڈارک میٹر کائنات کو جوڑنے والا گوند ہے، جبکہ ڈارک انرجی اسے پھیلانے والا ایندھن ہے۔ گذشتہ دہائی میں ڈیجیٹل آلات اور فلکیاتی مشاہدات نے اس موضوع کو نئی جہت دی۔ ’’ڈارک انرجی سروے‘‘ اور ’’ڈی ای ایس آئی‘‘ جیسے منصوبے اربوں نوری سال پرانے ڈیٹا کا تجزیہ کر رہے ہیں۔ ڈی ای ایس آئی نے چھے ملین سے زیادہ کہکشاؤں کی پیمائش کی، جن میں وہ بھی شامل تھیں جو کائنات کے بچپن میں وجود میں آئی تھیں۔ ان مشاہدات سے پتا چلا کہ آئن اسٹائن کا نظریہ اب بھی درست ہے اور کششِ ثقل طویل فاصلوں اور وقت کی وسعتوں میں بالکل ویسے ہی کام کرتی ہے جیسے اس نے کہا تھا۔ لیکن اس تحقیق نے ایک اور حیران کن امکان کو بھی جنم دیا: شاید ڈارک انرجی ایک مستقل قوت نہیں بلکہ وقت کے ساتھ کم زور ہو رہی ہے۔ اگر ایسا ہے تو کائنات کا مستقبل ہماری موجودہ پیش گوئیوں سے بالکل مختلف ہوگا۔ اگر ڈارک انرجی ہمیشہ یکساں طاقت ور رہے تو کائنات ایک دن ’’بگ رِپ‘‘ میں ختم ہوجائے گی، جہاں ہر کہکشاں، ہر ستارہ، حتیٰ کہ ہر ایٹم بھی ٹکڑوں میں بٹ جائے گا۔ لیکن اگر یہ قوت وقت کے ساتھ کم زور ہوتی گئی تو کائنات ایک متوازن مگر سست رفتار حالت کی طرف جا سکتی ہے، جہاں نہ مکمل انہدام ہوگا اور نہ لامحدود پھیلاؤ۔ اس منظرنامے میں انسانی بقا کا سوال بھی جُڑ جاتا ہے، کیوںکہ اگر کائنات بگ رِپ کی طرف بڑھ رہی ہے تو انسانی تہذیب کے لیے بقا کا کوئی امکان نہیں ہوگا۔ لیکن اگر یہ توازن کی طرف جاتی ہے تو شاید کھربوں سال بعد بھی کہکشانی ڈھانچے قائم رہیں۔ یہاں سائنس اور فلسفہ ایک دوسرے سے ملتے ہیں۔ فلسفہ کہتا ہے کہ انسان اپنی تقدیر کو سمجھنے کے لیے کائنات کو جاننے پر مجبور ہے۔ سائنس کہتی ہے کہ کائنات کو سمجھنے کے لیے ہمیں اس پوشیدہ توانائی کی اصل فطرت کو کھولنا ہوگا۔ ڈی ای ایس آئی منصوبے کی قیادت امریکی محکمۂ توانائی کی لارنس برکلے نیشنل لیبارٹری کر رہی ہے۔ اس میں دنیا کے 70 ادارے اور 900 سے زیادہ سائنس داں شریک ہیں۔ ان کا کام صرف فلکیات ہی نہیں بلکہ ٹیکنالوجی کی ترقی بھی ہے، کیوںکہ اس پیمانے پر ڈیٹا کا تجزیہ کرنے کے لیے نئی کمپیوٹیشنل طاقت اور الگورتھم کی ضرورت ہوتی ہے۔ جو نتائج اب تک سامنے آئے ہیں وہ arXiv جیسے ریسرچ پلیٹ فارمز پر شائع ہوچکے ہیں، اور اگلے برسوں میں مزید انکشافات متوقع ہیں۔ یہاں یہ سوال بھی اہم ہے کہ ڈارک انرجی اور ڈارک میٹر کی موجودگی نے ہمارے کاسمولوجیکل ماڈل کو کس طرح بدل دیا ہے۔ آج کا معیاری ماڈل — CDM  اس بنیاد پر کھڑا ہے کہ کائنات 5 فی صد نظر آنے والے مادے، 27 فی صد ڈارک میٹر اور تقریباً 68 فی صد ڈارک انرجی پر مشتمل ہے۔ گویا جو کچھ ہم دیکھتے ہیں وہ حقیقت کا محض ہلکا سا عکس ہے۔ اصل حقیقت ان پوشیدہ قوتوں کے رحم و کرم پر ہے جنہیں ہم براہ راست نہیں دیکھ سکتے لیکن ان کے اثرات ہر طرف موجود ہیں۔ یہی وہ مقام ہے جہاں آئن اسٹائن کا قول ہمیں یاد آتا ہے کہ ’’کائنات کے کچھ اسرار ہمیشہ ہماری آنکھوں سے اوجھل رہیں گے۔‘‘ روشنی کو ہم تک پہنچنے میں اربوں سال لگتے ہیں، اور کائنات کے کئی حصے ایسے ہیں جہاں سے شاید کبھی روشنی زمین تک نہ پہنچے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ انسانی شعور کے سامنے ہمیشہ کچھ سوالات تشنہ رہیں گے۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ ایک صدی بعد بھی آئن اسٹائن کی مساواتیں زندہ ہیں اور کائنات کے رویے کو سب سے بہتر انداز میں بیان کر رہی ہیں۔ یوں کہا جا سکتا ہے کہ آج 2025 میں آئن اسٹائن کی پیش گوئیاں ایک بار پھر درست ثابت ہو رہی ہیں۔ کائنات کے پھیلاؤ کا راز ڈارک انرجی میں چھپا ہوا ہے، اور یہی راز ہماری بقا اور مستقبل سے جُڑا ہوا ہے۔ یہ دریافت ہمیں یہ سوچنے پر مجبور کرتی ہے کہ انسان کا مقام اس وسیع کائنات میں کیا ہے، اور کیا ہم واقعی اپنے انجام کو سمجھ پائیں گے؟ سائنس ہمیں راستے دکھا رہی ہے، لیکن فلسفہ ہمیں اس کا مفہوم سمجھنے پر اکساتا ہے۔ دونوں کے ملاپ سے ہی ہم شاید اس معمے کے قریب پہنچ سکیں کہ کائنات آخر کس سمت جا رہی ہے۔

اگر آپ اس خبر کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں۔

مزید تفصیل