Loading
غزل دام میں حسنِ جنوں خیز کے آئے ہوئے لوگ مسکراتے رہیں اشکوں میں نہائے ہوئے لوگ ہے تری دید کا اعجاز کہ خوش رہتے ہیں تجھ سے نسبت کے عذابوں میں سمائے ہوئے لوگ ایک اُمیدِ فسوں خیز کا دامن تھامے متمکن ہیں ترے کوچے میں آئے ہوئے لوگ تجھ کو برگشتہ نہ کر دے کہیں یہ ایک خیال کیوں کڑی دھوپ میں دیوار کے سائے ہوئے لوگ جن کو واجب تھا سرِ عرش خدا! سجدۂ نور آج معتوب ہیں وہ تیرے بنائے ہوئے لوگ خود ہی لوٹ آئیں گے اک ٹوٹے تعلق کی طرف عادلؔ انجانی مسافت کے ستائے ہوئے لوگ (عزیز عادل۔ مردان) غزل مشکل ہے وقت اور کوئی آسرا نہیں تیرے علاوہ کوئی مجھے جانتا نہیں اے عشق آئنے میں ذرا سامنے تو آ میں نے کہا ہے اور کسی نے سنا نہیں حیرت ہے گفتگو سے طبیعت بدل گئی حیرت ہے میرے ساتھ کوئی بولتا نہیں اندر کے شور نے مرا جینا کیا نڈھال باہر کے شور میں تو کوئی چیختا نہیں میں مبتلائے عشق ہوں زخموں سے چور ہوں تیرے علاوہ درد سے ملنی شفا نہیں حالاں کہ کاٹ دی مری گردن مگر ندیمؔ اس کو اثر ذرا بھی مری جاں ہوا نہیں (ندیم ملک ۔کنجروڑ ،نارووال) غزل کسی جنوں کے ہرائے کو کون چھوڑتا ہے جنابِ دل کے ستائے کو، کون چھوڑتا ہے میں تیری سمت جو لپکا، لپکنا بنتا تھا کہ تپتی دھوپ میں سائے کو کون چھوڑتا ہے وہ وقت ہو کہ مقدر، زمانہ ہو کہ فلک تری نظر کے گرائے کو کون چھوڑتا ہے میں ایک آنکھ سے نکلا ہوں کس طرح، مت پوچھ خوشی سے اپنی سرائے کو کون چھوڑتا ہے تجھے کہا نہیں کچھ تو اسے شرافت جان وگرنہ ہاتھ میں آئے کو کون چھوڑتا ہے (زبیرحمزہ۔ قلعہ دیدار سنگھ) غزل ذرا غور کر مری بات پر مجھے دکھ ہُوا ترے ساتھ پر نہ خوشی پہ پہنچا میں بے وطن نہ پہنچ سکا میں وفات پر وہی چاند ہے،وہی چاندنی وہی جھیل ہے، وہی رات، پر ہوا بدگماںمری ذات سے جسے تھا یقیں مری بات پر تجھے کیا خبر مرے چارہ گر جو گزر رہی ہے حیات پر میں بھی خوش رہوں گا ترے بغیر تو بھی ہاتھ رکھ مرے ہاتھ پر (فیصل محمود۔رحیم یار خان) غزل تاخیر سے ہی درد میں آرام تو آیا ساقی نہ سہی بادۂ گلفام تو آیا صد شکر مرے شوق کا انعام تو آیا وہ گیسوئے خمدار لبِ بام تو آیا رندوں کی تسلی کے لئے یہ بھی بہت ہے میخانے میں کوئی ترا ہم نام تو آیا ناراض نہیں اس سے ہوا کرتے کبھی بھی جو صبح کو بھولا پہ سرِ شام تو آیا تاخیر سے آیا ہے مگر پھر بھی خوشی ہے اس گل کی ہتھیلی پہ مرا نام تو آیا پھر دیکھ کے میخانے میں ہم کو وہ کہے ہے صیاد کوئی آج تہِ دام تو آیا غزلوں سے مری جان ملی تجھ کو تسلی مشتاق ؔترے آج کسی کام تو آیا (ثقلین مشتاق ۔ جمشید پور، جھارکھنڈ ،انڈیا) غزل دل و نگاہ کی دنیا نئی نئی کرکے میں آگیا ہوں اندھیرے کو روشنی کرکے بڑا فریب ملا مجھ کو روشنی کی قسم تمہاری آنکھ گلابی سے کاسنی کرکے ہٹا دیا ہے مجھے اس نے میرے منصب سے میں سوچتا ہی رہا جس کو آخری کرکے ابھی نہ روک مجھے اس سفر میں رہنے دے ملوں گا تجھ سے مرے یار زندگی کرکے حیات اپنی گزاری ہے وہم و حسرت میں کسی کے نام پہ پوشیدہ شاعری کرکے مرا بھی سلسلہ افلاک سے ہی ملتا تھا تری گرفت میں آیا ہوں آدمی کرکے یہ سانحہ ہے کوئی سانس ہی نہیں لیتا ہوا کے ہاتھ بھی خالی ہیں تازگی کرکے میں فیضیؔ میر کے مسلک سے تھا سو میں نے بھی گنوا دی عزت سادات عاشقی کرکے (سید فیض الحسن فیضی کاظمی۔ پاکپتن) ’’سلیقہ‘‘ سچ تو یہ ہے ہمیں ناشاد کیا ہے تم نے ساتھ رکھ کر ہمیں برباد کیا ہے تم نے اس سے بہتر تھا ہمیں خود سے جدا کر دیتے عشق کی قید سے تم ہم کو رہا کر دیتے خیر اس بات کا اب دکھ بھی نہیں ہے ہم کو خون گندا ہو تو اک روز دکھاتا ہے اثر ہم کو معلوم تھا تم ایسا کرو گے اک دن یہ جو دنیا ہے مکافاتِ عمل ہے یعنی جو بھی کچھ تم نے کیا تم وہ بھرو گے اک دن ہم نے کوشش تو بہت کی کہ بھلا دیں تم کو پر بھلانے کو کبھی دل نہیں راضی ہوتا اِس کو لگتا ہے تم آؤ گے پلٹ کر اک دن اِس نے اب تک نہیں اُمید کا دامن چھوڑا ہم تو وہ تھے جنہیں ہنسنے سے نہ فرصت تھی کبھی ہم تو وہ شوخ طبیعت تھے کہ اللہ اللہ مر گئی ہم میں وہ جو شوخ طبیعت تھی کبھی شرم آتی ہے ہمیں تم سے محبت تھی کبھی جب بھی پوچھے ترے بارے میں کوئی ہم سے سوال ہم کو ہر بات پہ آ جاتا ہے رونے کا خیال دل حویلی بھی وہ پہلے کی طرح شاد نہیں اب تو ہنسنے کا سلیقہ بھی ہمیں یاد نہیں (راشد خان عاشر۔ ڈیرہ غازی خان) غزل ہے آنکھوں میں شب بیداری برسوں سے سلگ رہی ہے اک چنگاری برسوں سے جن کی کی ہے تابعداری برسوں سے برت رہے ہیں جانب داری برسوں سے کاش نکالے آ کر ہجر کے ملبے سے دبی ہوئی ہے لاش ہماری برسوں سے ہر رشتے میں غربت آڑے آئی ہے مجھ کو ہے اک یہ دشواری برسوں سے بچپن کے کچھ خواب سنبھال کے رکھے ہیں بند پڑی ہے اک الماری برسوں سے مجھ کو امن کے دیپ جلاتے رہنا ہے مجھ پر ہے یہ ذمے داری برسوں سے (امن علی امن۔ پاکپتن شریف) غزل گئے وقتوں کا کوئی استعارہ ہو رہا ہے جو روشن تھا دلوں میں بے سہارا ہو رہا ہے کہاں کس آئینے میں جگمگائے گی وہ صورت نظر بھر دیکھ لینے کا اشارہ ہو رہا ہے عصا تھامی ہوئی دنیا زمیں پر منحصر ہے خلا میں ٹوٹتا منظر ستارہ ہو رہا ہے گرایا جائے اْس میں آسماں کا میٹھا پانی کنواں جو وقت کے ہاتھوں سے کھارا ہو رہا ہے وہ گم گشتہ نظر سے ماورا کو یہ خبر ہو نظر آئے بھی وہ جس کا نظارہ ہو رہا ہے زمانہ چاہتا ہوگا مگر ہم نے نہ چاہا بھری دنیا سے جو اپنا کنارا ہو رہا ہے (زاہد خان۔ ڈیرہ اسماعیل خان ) غزل خواب در خواب مصیبت سے نکلنا ہے مجھے یعنی خود اپنی شکایت سے نکلنا ہے مجھے اتنا آساں تو نہیں اس سے نکلنا لیکن جس طرح بھی ہو محبت سے نکلنا ہے مجھے یوں مقفّل ہوا بیٹھا ہوں کسی کمرے میں جیسے کمرے کی اجازت سے نکلنا ہے مجھے چھوڑ آیا ہوں ترے شہر میں آنکھیں اپنی اب کسی اور اذیت سے نکلنا ہے مجھے بے وجہ دشمنوں پہ ٹوٹ رہا ہوں شافی اور اپنوں کی حراست سے نکلنا ہے مجھے (بلال شافی۔ جڑانوالہ) غزل مری حالت جو ابتر ہو رہی ہے مجھے لگتا ہے بہتر ہو رہی ہے مری عادت ہے غم میں مسکرانا یہ عادت اب مقدر ہو رہی ہے جو دیکھا کل ذرا سی موج تھی وہ ہوں حیراں کہ سمندر ہو رہی ہے مری تکلیف میں ہے اب افاقہ دوا اس کی مؤثر ہو رہی ہے خوشی اپنی بتاؤں کس طرح میں فدا مجھ پر ستم گر ہو رہی ہے رہا نہ فرق اپنے غیر کا کچھ حقیقت یوں اجاگر ہو رہی ہے یہ کس کی آج آمد ہے کہ ساگرؔ فضا اتنی معطر ہو رہی ہے (رجب علی ساگر ۔ڈیرہ اسماعیل خان،پہاڑ پور) غزل غار تھا غار کی تنہائی تھی آگے میں تھا دفعتاََ آگ سی لہرائی تھی آگے میں تھا اسی ٹیبل پہ جہاں بیٹھ کے کھاتے تھے کبھی تو کسی اور کے ساتھ آئی تھی آگے میں تھا رات کھڑکی سے کوئی چیز گری کمرے میں موم بتی سی وہ تھرائی تھی آگے میں تھا زندگی میں تجھے رستے سے اٹھا لایا ہوں تو کسی اور سے ٹکرائی تھی آگے میں تھا پیشرو کوئی سرِ راہِ نجف تھا ہی نہیں پیچھے پیچھے مری مولائی تھی آگے میں تھا (عقیل عباس۔ منڈی بہاؤالدین) سنڈے میگزین کے شاعری کے صفحے پر اشاعت کے لیے آپ اپنا کلام، اپنے شہر کے نام اورتصویر کے ساتھ ہمیں درج ذیل پتے پر ارسال کرسکتے ہیں۔ موزوں اور معیاری تخلیقات اس صفحے کی زینت بنیں گی۔ انچارج صفحہ ’’کوچہ سخن ‘‘ روزنامہ ایکسپریس، 5 ایکسپریس وے، کورنگی روڈ ، کراچی
اگر آپ اس خبر کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں۔
مزید تفصیل