Loading
15 ستمبر کو دنیا بھر جمہوریت کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔ اس اہم دن کے موقع پر ’’ایکسپریس فورم‘‘ میں ’’جمہوری استحکام میں خواتین کا کردار‘‘ کے موضوع پر خصوصی مذاکرہ کا اہتمام کیا گیا جس میں حکومت، اکیڈیمیا اور سول سوسائٹی کی نمائندہ خواتین کو مدعو کیا گیا۔ ان سے ہونے والی گفتگو نذر قارئین ہے۔ عظمیٰ بخاری (صوبائی وزیر اطلاعات و ثقافت پنجاب) جمہوریت محض ایک لفظ نہیں، یہ بہت وسیع عمل ہے جس کے مختلف درجے اورحلقے ہیں۔ سب سے پہلے دیکھنا یہ ہے کہ کیا گھر میں جمہوریت ہے؟ اسی طرح کام کی جگہ، پھر معاشرہ اور پھر ایوان ہے لہٰذا جمہوریت کے تمام درجات اور حلقوں میں جمہوری رویوں کا ہونا اور ان کا آپس میں تعلق ہونا اہم ہے۔ جمہوریت کو اگر خواتین کے حوالے سے دیکھا جائے تو میرے نزدیک سیاست میں خواتین کی فعال شمولیت اور نمائندگی کے بغیر جمہوریت مستحکم نہیں ہو سکتی۔پاکستان کے قیام میں بانی پاکستان قائد اعظمؒ کی بہن مادر ملت فاطمہ جناحؒ نے اپنے بھائی کے شانہ بشانہ محنت کی اور خواتین کو موبلائز کرکے بڑی جدوجہد کی۔ اسی طرح بے نظیر بھٹو پاکستان کی پہلی خاتون وزیراعظم منتخب ہوئیں اور یہ پیغام دیا کہ خواتین بھی آگے آسکتی ہیں۔ نصرت بھٹو اور بیگم کلثوم نواز کا کردار بھی تاریخ میں سنہری حروف میں درج ہے۔ بیگم کلثوم نواز نے ایسے مشکل وقت میں جمہوریت کیلئے جدوجہد کی جب یہاں بدترین آمریت تھی۔اس وقت مریم نواز اپنی والدہ کی طاقت بنیں۔ جمہوریت اور قانون کی حکمرانی یقینی بنانے کیلئے ساجدہ میر، شمیم نیازی سمیت خواتین نے طویل جدوجہد کی۔ میں جمہوریت کے عالمی کے دن کے موقع پر جمہوریت کی مضبوطی کیلئے فعال کردار ادا کرنے پر محترمہ فاطمہ جناحؒ، بے نظیر بھٹو اور کلثوم نواز سمیت مرحوم سیاسی خواتین کو خراج عقیدت پیش کرتی ہوں اور یہ عہد کرتی ہوں کہ ہم ان کی قربانیوں کو رائیگاں نہیں جانے دیں گے۔ پنجاب حکومت کیلئے ’عورت راج ‘ جیسے الفاظ استعمال کیے جاتے ہیں اور اس طرح ہم پر تنقید اور طنز کی کوشش کی جاتی ہے لیکن ہمیں اس پر فخر محسوس ہوتا ہے کہ یہاں پہلی مرتبہ کسی خاتون کی حکومت آئی ہے جس کی کارکردگی مرد وزرائے اعلیٰ سے کہیں بہتر ہے۔ اس وقت پنجاب میں وزیراعلیٰ، سینئر وزیر ، وزراء، خصوصی معاون سمیت بیوروکریسی اور مختلف بورڈز میں بھی خواتین موجود ہیں۔ ان کا جذبہ اور کام قابل تحسین ہے۔ میں نے آج سے پہلے انتظامی و فیصلہ ساز عہدوں پر خواتین کی اتنی بڑی تعداد نہیں دیکھی۔ اب میٹنگز میں خواتین کی ایک بڑی تعداد نظر آتی ہے۔ ہماری خواتین کسی سے کم نہیں ہیں، وہ مقابلے کا امتحان پاس کرکے آگے آرہی ہیں۔ پہلے صرف خاتون ہونے کی وجہ سے ترقی روک دی جاتی تھی مگر وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز کے نزدیک جینڈر کی بنیاد پر کوئی تفریق نہیں ہے، ان کا معیار قابلیت اور کارکردگی ہے۔یہی وجہ ہے کہ اب خواتین کو میرٹ پر ترقی مل رہی ہے اور وہ انتظامی عہدوں پر ہیں۔ اب ڈپٹی کمشنرز اور اسسٹنٹ کمشنرز بھی خواتین ہیں۔ سیالکوٹ پہلا ضلع ہے جہاں ڈپٹی کمشنر اور تمام اسسٹنٹ کمشنرز خواتین ہیں۔ یہ ویمن ایمپاورمنٹ کی بہترین مثال ہے، اس سے لڑکیوں کو حوصلہ مل رہا ہے۔ آج ایسا کوئی شعبہ نہیں ہے جس میں لڑکیاں اپنی قابلیت کا لوہا نہیں منوا رہیں۔ اس کی ایک بڑی وجہ حکومت کی پرو ویمن پالیسیاں ہیں۔ حکومت پنجاب نے خواتین کے تحفظ کیلئے ویمن سیفٹی ایپ بنائی۔ ورچوئل ویمن پولیس سٹیشن قائم کیے تاکہ جو خواتین تھانے نہیںا ٓسکتی وہ گھر بیٹھے آن لائن شکایت درج کرا سکیں۔ حکومت کی جانب سے مختلف مقامات پر پنک بٹن بھی لگائے گئے ہیں اور وہاں سیف سٹیز کے کیمروں سے نگرانی کی جاتی ہے۔ لہٰذا جب کوئی خاتون پنک بٹن دبائے گی تو اس کی فوری نگرانی شروع ہوجائے گی اور پولیس موقع پر پہنچ کر اس کی مدد کرے گی۔ حکومت کی ہراسمنٹ کے معاملے پر زیرو ٹالرنس کی پالیسی ہے۔ ایسے کیسز بھی موجود ہیں کہ لڑکی کو ٹرین میں ہراساں کیا گیا اور اگلے ہی سٹیشن پر پولیس نے کارروائی کرکے مجرم کو گرفتار کیا۔ محفوظ اور ماحول دوست ٹرانسپورٹ کیلئے پنجاب حکومت کی جانب سے خواتین کو الیکٹرک بائیکس فراہم کی جا رہی ہیں، اب لڑکیوں کی خاصی تعداد موٹر بائیکس چلاتے نظر آتی ہے۔ خواتین کو معاشی طور پر مضبوط کرنے کیلئے پنجاب حکومت کی جانب سے کاروبار کیلئے ایک کروڑ تک کا آسان قرض فراہم کیا جا رہا ہے۔ خواتین کی بڑی تعداد نے اس سے فائدہ اٹھایا ہے۔ خواتین کو ہنرمند بنانے کیلئے قائد اعظم انڈسٹریل اسٹیٹ میں یونٹ بنایا گیا ہے جہاں خواتین اور خواجہ سراء کو ہنرمند بنایا جا رہا ہے، اس سے خاطر خواہ فائدہ ہوا ہے۔ مسلم دنیا میں خواتین کام کر رہی ہیں لہٰذا یہاں بھی خواتین کو ترقی کے مواقع فراہم کرنا ریاست کی ذمہ داری ہے۔ ہمیں سمجھنا چاہیے کہ جب تک خواتین معاشی طور پر آزاد نہیں ہوتی، ان کی محرومی ختم نہیں ہوگی۔ جمہوریت میں سب برابر ہیں، جمہوری نظام کے قیام اور اس کے ثمرات حاصل کرنے کیلئے ملک میں لانگ ٹرم پلاننگ اور اقدامات کی ضرورت ہے، اس میں حکومت، سرکاری و نجی ادارے، سول سوسائٹی اورعوام سب کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔ جمہوری معاشرے میں خواتین کو بھی حق حاصل ہے کہ وہ ہر شعبے اور میدان میں آگے بڑھیں۔ وزیراعلیٰ پنجاب کوٹہ سسٹم پر یقین نہیں رکھتی۔ ان کے نزدیک ہماری خواتین قابل ہیں ، انہیں پلیٹ میں رکھ کر دینے کی ضرورت نہیں، وہ خود محنت سے اپنی جگہ بنا لیں گی، حکومت کو انہیں سازگار ماحول دینا ہے اور رکاوٹیں دور کرنی ہیں۔یہ پنجاب کا اعزاز ہے کہ اسے پہلی خاتون وزیراعلیٰ ملی ہے جس نے محنت سے اپنی جگہ بنائی ہے لہٰذا مریم نواز پنجاب کی خواتین کی رول ماڈل ہیں۔ خواتین کے سیاسی کوٹہ کے حوالے سے میری رائے یہ ہے کہ ہمیں مقدار سے زیادہ معیار پر یقین رکھنا چاہیے۔ اگر کوئی کسی نشست پر آ بھی جائے اور اس میں قابلیت نہ ہوتو اس کا خواتین کو کوئی فائدہ نہیں۔ میں خواتین کے کوٹہ کے بجائے جنرل نشستوں پر انتخاب لڑنے کے حق میں ہوں۔یہ میری پانچویں اسمبلی ہے اور میں نے اپنے سیاسی کیرئر میں بہت محنت کی ہے لہٰذا آئندہ جنرل نشست پر الیکشن لڑنے کا ارادہ رکھتی ہوں۔ میرے نزدیک سیاسی جماعتوں کو چاہیے کہ وہ خواتین کو جنرل نشستوں پر انتخاب لڑنے کیلئے حوصلہ افزائی کریں۔ سیاسی جماعتوں کی جانب سے انتخابی ٹکٹ کا 5 فیصد کوٹہ پورا کرنے کیلئے مضبوط امیداوار کے سامنے کمزور خاتون کو ٹکٹ دے دیا جاتا ہے جو باعث افسوس ہے۔ کیا خاتون اچھی امیدوار نہیں ہوسکتی؟ہمیں ایسے رویوں کی حوصلہ شکنی کرنی چاہیے۔ سیاسی جماعتوںکو اس پر سنجیدگی سے سوچنا ہوگا اور خواتین کی حوصلہ شکنی والے مائنڈ سیٹ کو تبدیل کرنا ہوگا۔ میرے نزدیک یہ کام اتنا آسان نہیں ہے۔ خواتین کی سیاسی نظام اور انتخابی عمل میں شمولیت کے فروغ کیلئے جدوجہد کرنا ہوگی۔ پاکستان کی خواتین نے ثابت کیا ہے کہ وہ سیاسی میدان میں بھی اچھا کام کر سکتی ہیں۔ اس وقت بھی ملک میں قابل اور فیصلہ ساز عہدوں پر خواتین موجود ہیں۔ امریکا جو دنیا کی ایک بڑی جمہوریت ہے، وہاں آج تک کوئی خاتون سربراہ منتخب نہیں ہوسکی لیکن پاکستان میں ایک خاتون وزیر اعظم منتخب ہوئی جبکہ اس وقت پنجاب کی وزیر اعلیٰ اور چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ بھی خاتون ہیں۔ یہاں قومی اسمبلی میں خاتون سپیکر بھی رہ چکی ہیں۔ بیوروکریسی میں بھی خواتین کی بڑی تعداد موجود ہے جو آج سے پہلے نہیں تھی۔ ہم سیاسی نظام میں خواتین کی شمولیت کی حوصلہ افزائی کر رہے ہیں۔ نئے لوکل باڈیزنظام میںخواتین بڑی تعداد آگے آئے گی۔ لوکل باڈیز کا بل سٹینڈنگ کمیٹی سے منظور ہو چکا ہے،ا سے جلد اسمبلی میں بھی منظور کر لیا جائے گا۔ سیلاب کی مشکل صورتحال کی وجہ سے لوکل باڈیز کے معاملات میں تاخیر ہوئی ہے۔ یہ مسلم لیگ (ن) کا کریڈٹ ہے کہ جب بھی ہماری حکومت آتی ہے، لوکل باڈیز الیکشن کرائے جاتے ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ پہلے بھی ان پر شب خون مارا گیا اور لوکل باڈیز کے نمائندے انصاف کیلئے در بدر پھرتے رہے۔ لوکل باڈیز کے حوالے سے ہماری سمت درست ہے۔ بل کی اسمبلی سے منظوری کے بعد اگلا کام الیکشن کمیشن کا ہوگا۔ نئی حلقہ بندیاں ہوں گی، ووٹر لسٹیں تیار ہوں گی اور پھر الیکشن کا عمل ہوگا۔ حالیہ سیلاب سے پنجاب کے 25 اضلاع اور 50 لاکھ آبادی متاثر ہوئی ہے۔ یہ بہت بڑی تعداد ہے جن کے ریسکیو اور بحالی کا کام جاری ہے۔موسم بھی تیزی سے تبدیل ہو رہا ہے لہٰذا ان کو ان کے گھروں میں دوبارہ سے آباد کرنا ایک بڑا چیلنج ہے۔ یہ ہمارے ایجنڈے میں اولین ترجیح ہے۔ وزیراعلیٰ فلڈ ریلیف پیکیج کے تحت نقصان کا تخمینہ لگانے کے بعد متاثرین کی مدد کی جائے گی۔جن علاقوں سے پانی نکل چکا ہے وہاں ہونے والے نقصان کی رپورٹ تیار کی جا رہی ہے۔ وزیراعلیٰ پنجاب نے نقصان کے ازالے کے حوالے سے طے شدہ رقوم میں 100 گنا تک اضافہ کیا ہے۔ حکومت کی جانب سے سیلاب میں جاں بحق ہونے والوں کو امدادی چیک تقسیم کر دیے گئے ہیں،ا س وقت کوئی بھی ایسا خاندان موجود نہیں جس کی امداد نہ کی گئی ہو۔ سیلاب متاثرہ افراد اور علاقوں کی بحالی حکومت کیلئے بڑا چیلنج ہے۔ وزیراعلیٰ پنجاب پر لوگوں کی توقعات کا بھاری بوجھ ہے اور وہ ان کی توقعات پر پورا اترنے کیلئے دن رات کام کر رہی ہیں۔ قصور ہر سال پانی میں ڈوب جاتا ہے، اگر جنگ ہو تب بھی ان کیلئے مشکلات ہوتی ہیں۔ اسی طرح دریائے راوی کے حوالے سے بھی مسائل موجود ہیں۔ اب ہاؤسنگ سوسائٹیز کا بھی جائزہ لیا جائے گا۔ اگلے سال بارشوں کی صورتحال اس سے بھی خوفناک ہے۔ موسمیاتی تبدیلی بڑا چیلنج ہے لہٰذا ہمیں خود کو آئندہ برس کیلئے تیار کرنا ہے۔ گجرات میں گزشتہ 75 برسوں میں سیوریج کا کام نہیں کیا گیا۔ یہ کاغذوں میں تو ہوا لیکن عملی طور پر نظر نہیںا ٓیا جس کی وجہ سے وہاں سیلاب کے پانی کی مشکل صورتحال پیدا ہوئی۔ وہاں سے نہ صرف پانی نکال دیا گیا ہے بلکہ اب سیوریج کا کام بھی کرایا جائے گا۔ جمہوریت میں سب برابر ہیں، جمہوری نظام کے قیام اور اس کے ثمرات حاصل کرنے کیلئے ملک میں لانگ ٹرم پلاننگ اور اقدامات کی ضرورت ہے، اس میں حکومت، سرکاری و نجی ادارے، سول سوسائٹی اورعوام سب کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔ پروفیسر ڈاکٹر عظمیٰ عاشق (چیئرپرسن شعبہ سوشل ورک، جامعہ پنجاب) جمہوریت قائم کرنے اور اسے فعال بنانے میں خواتین کی محض برابر نمائندگی ہونا کافی نہیں ہے بلکہ انہیں ان کے حقوق اور اختیارات کے بارے میں درست آگاہی اور ان کے استعمال کے حوالے سے آزادی ناگزیر ہے۔جنرل (ر) پرویز مشرف کے دور میں خواتین کو 33 فیصد نمائندگی دی گئی۔ اس وقت یو این ڈی پی نے خواتین کی سیاسی شمولیت کے حوالے سے ایک تربیتی کورس کا آغاز کیا۔ میں اس کی ریسرچ اینلسٹ تھی۔ ہم مختلف علاقوں میں خواتین سیاسی نمائندوں کی تربیت کروا رہے تھے تو ایک جگہ یہ سامنے آیا کہ کسان نشست پر ایک 80 سالہ خاتون نمائندہ تھیں جنہیں گڈ گورننس کی تربیت دی جا رہی تھی،مالیاتی نظام، پلاننگ، رپورٹس وغیرہ کا جب انہیں بتایا تو انہوں نے اپنی مقامی زبان میں کہا کہ ان کو اس کی سمجھ نہیں۔ ہماری ایک ٹرینر نے ان کو سمجھایا کہ گڈ گورننس کی تعریف اس طرح کی جاسکتی ہے کہ ’’چوپڑیاں تے دو دو‘‘۔ یہ مثال دینے کا مقصد شرح خواندگی کی نشاندہی کرنا ہے۔ ترقی یافتہ ممالک جہاں جمہوریت کے ثمرات لوگوں کو مل رہے ہیں وہاں شرح خواندگی 90 سے 100فیصد ہے، اسی لیے وہاں لوگوں کو ان کے حقوق کا علم بھی ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے ہاں شرح خواندگی کم ہے جس کے باعث لوگوں کو نہ تو حقوق کی آگاہی ہے اور نہ ہی ان کے استعمال کا علم لہٰذا ہمیں اس پر کام کرنا ہوگا۔ جمہوریت کے فوائد حاصل کرنے کیلئے ضروری ہے کہ لوگوں کو نہ صرف ان کے حقوق کے بارے میں آگاہی ہو بلکہ وہ ان حقوق سے فائدہ اٹھانے کیلئے تیار بھی ہوں۔ ہم خواتین کے سیاسی کردار کی بات کر رہے ہیں، سوال یہ ہے کہ کیا خواتین کو ان کے حقوق کے بارے میں علم ہے؟کیا انہیں فیصلہ سازی کا اختیار ہے؟ یہاں تو عالم یہ ہے کہ ہمارے مرد بھی اپنا ووٹ کاسٹ کرتے وقت 100 فیصد جمہوری طریقہ نہیں اپناتے۔ ہمارے کلچر میں تعلقات، برادری، علاقہ، بڑوں کافیصلہ و دیگر معاملات ہیں جو ووٹنگ کے عمل پر اثر انداز ہوتے ہیںلہٰذا اس وقت معاشرے میں بڑے پیمانے پر آگاہی کی ضرورت ہے۔ ملک کی آبادی کا بڑا حصہ خواتین پر مشتمل ہے۔ ہماری لڑکیاں ہر میدان میںآگے آرہی ہیں، ہائر ایجوکیشن میں بھی لڑکیوں کی تعداد زیادہ ہے مگر یہاں سوال یہ ہے کہ کیا انہیں فیصلہ سازی کا اختیار ہے؟ایسا صوبہ جہاں ایک خاتون وزیراعلیٰ ہے ، وہاں بھی خواتین کیلئے بڑی رکاوٹیں ہیں۔ افسوس ہے کہ بعض جگہ تو ہمارے ملک میں خواتین کو وہ حقوق بھی حاصل نہیں جو اسلام نے دیے ہیں۔ اس کی بڑی مثال یہ ہے کہ خواتین کو ان کے وراثتی حق سے محروم رکھا جاتا ہے۔ خاندانی دباؤ یا رسم و رواج کی وجہ سے خواتین اپنے حق سے درستبردار ہو جاتی ہیں، یہ افسوسناک ہے۔ سیاسی جماعتوں کی فرنٹ لائن لیڈر شپ کوچاہیے کہ خواتین کی سیاست اور فیصلہ سازی میں شمولیت کو یقینی بنائیں، انہیں ان کے حقوق دیں مگر یہاں یہ رویہ ہے کہ خواتین کو فیصلہ سازی اور قیادت سے دور رکھا جاتا ہے۔ ہمیں ایک ایسا معاشرہ تشکیل دینا ہے جس میں سب کی شمولیت ہو، سب برابر ہوں اور انہیں ان کے حقوق بھی حاصل ہوں۔ یہ جدوجہد اور سفر طویل ہے مگر ناممکن نہیں، اس کے لیے سکول سے لے کر یونیورسٹی تک نصاب میں ایسے مضامین شامل کیے جائیں جن سے لوگوں کی سوچ بدلے اور معاشرے میں تبدیلی آئے۔ حنا نورین (وائس پریذیڈنٹ، بیداری) ہم گزشتہ چھ برس سے بیداری کے پلیٹ فارم سے مقامی حکومتوں کی مضبوطی کا پروگرام چلا رہے ہیں۔ ہم نے ضلع سیالکوٹ میں سرگرمیاں کی ہیں جن میں خواتین کو سیاسی طور مضبوط کرنا، انہیں آگاہی دینا، سیاسی نظام کا حصہ بنانا اور ووٹ ڈالنے کیلئے آمادہ کرنا شامل ہیں۔ ہم خواتین کو یہ احساس دلا رہے ہیں کہ وہ ملکی آبادی کا 49.24 فیصد یعنی نصف ہیں۔ ملکی سیاسی نظام میں خواتین کی شمولیت کا جائزہ لیں تو یہ 21 فیصد ہے۔ یہ تعداد کم ہے، اس میں آبادی کے لحاظ سے اضافہ ہونا چاہیے۔ترقی یافتہ ممالک کے سیاسی نظام میں خواتین کی شمولیت کا جائزہ لیا جائے تو 40 سے 45 فیصد ہے۔ خواتین ہی خواتین کے مسائل کو بہتر سمجھتی ہیں لہٰذا وہی خواتین کیلئے بہتر پالیسی سازی اور اقدامات کر سکتی ہیں۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ ملک ترقی کرے اور یہاں سیاست اور جمہوریت کو فروغ ملے تو خواتین کو سیاسی نظام کا حصہ بنانا ہوگا۔ اس کیلئے سول سوسائٹی کے ادارے اپنا بھرپور کردار ادا کر رہے ہیں لیکن خواتین کو سیاسی شمولیت کیلئے سازگار ماحول فراہم کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے تاکہ زیادہ سے زیادہ خواتین سیاست میں آئیں اور جمہوری نظام کا حصہ بنیں۔ سیاسی جماعتوں کا کردار انتہائی اہم ہے لہٰذا انہیں چاہئے کہ خواتین کی حوصلہ افزائی کریں۔ الیکشن کمیشن کی جانب سے الیکشن ٹکٹ کیلئے خواتین کا 5 فیصد کوٹہ مختص کیا ہے جو عام نشستوں پر انتخاب کیلئے ہے لہٰذا سیاسی جماعتوں کو محض خانہ پوری کیلئے نہیں بلکہ صحیح معنوں میں خواتین کو آگے لانے کیلئے ٹکٹ دینا ہوں گے۔ اگر ہم خواتین کو سیاسی طور پر مضبوط کرنا چاہتے ہیں تو انہیں معاشی اورسماجی طور پر مضبوط کرنا ضروری ہے۔ اس کیلئے ہمارا ادارہ خواتین کو معاشی طور پر مضبوط بنانے کیلئے کام کر رہا ہے۔ ہم خواتین کو کاروبار، آئی ٹی، ڈیجیٹل مارکیٹنگ سمیت مختلف ٹریننگز دیتے ہیں ۔ جب خواتین معاشی طور پر مضبوط ہوں گی تو وہ سماجی طور پر بھی بہتر کردار ادا کر سکیں گی اور سیاسی نظام کا حصہ بھی بن سکیں گی۔ خواتین جب تعلیم حاصل کرنے کے بعد اپنے پاؤں پر کھڑا ہو جاتی ہیں تو ان میں خود اعتمادی پیدا ہوتی ہے اور وہ معاشرے میں بہتر کردار ادا کرتی ہیں۔ ہم خواتین کو یہ آگاہی دیتے ہیں کہ اگر وہ معاشرے میں مثبت تبدیلی لانا چاہتی ہیں تو انہیں معاشی اور سماجی طور پر مضبوط ہونا ہوگا۔ اس کے ساتھ ساتھ عملی طور پر سیاسی نظام کا حصہ بننا پڑے گا۔ صوبے میں لوکل باڈیز الیکشن جلد متوقع ہیںلہٰذا ہم اپنے علاقے میں خواتین کو آگاہی دے رہے ہیں تاکہ وہ الیکشن میں حصہ لیں۔ ہم ان کی رہنمائی بھی کر رہے ہیں کہ کس طرح انتخابی مہم چلانی ہے۔ ہم خواتین کو یہ بھی بتاتے ہیں کہ اپنا ووٹ ضرور ڈالیں تاکہ سیاسی امیدواروں کا احتساب بھی کیا جاسکے۔
اگر آپ اس خبر کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں۔
مزید تفصیل