Sunday, September 14, 2025
 

دہشت گردی کا خاتمہ کیسے ممکن؟

 



خیبرپختونخوا میں سیکیورٹی فورسز نے تین انٹیلی جنس بیسڈ آپریشنز کے دوران کے پراکسی نیٹ ورک فتنہ الخوارج کے 45 دہشت گرد واصل جہنم کر دیے جب کہ فائرنگ کے تبادلے میں 19جوان شہید ہوئے۔ اس موقعے پر وزیراعظم نے کہا کہ دہشت گردی کا بھرپور جواب دیا جائے گا، افغانستان کو واضح پیغام دے دیا گیا ہے کہ وہ فتنہ خوارج اور پاکستان میں ایک کا انتخاب کرے۔  پاکستان اور افغانستان کے تعلقات ہمیشہ سے پیچیدہ اور نشیب و فراز کا شکار رہے ہیں، مگر حالیہ برسوں میں خاص طور پر جس طرح افغان سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال ہو رہی ہے، وہ نہ صرف دو طرفہ تعلقات کے لیے تشویشناک ہے بلکہ پورے خطے کے امن و استحکام کے لیے خطرہ بن چکی ہے۔ پاکستان ایک بار پھر اس موقف کو دہرا رہا ہے کہ افغان عبوری حکومت اپنی ذمے داریوں سے صرفِ نظر نہ کرے اور یقینی بنائے کہ اس کی سرزمین کسی بھی طور پر پاکستان کے خلاف دہشت گردی کے لیے استعمال نہ ہو۔ اس تناظر میں چند حالیہ واقعات، اطلاعات اور حقائق نے اس موقف کو نہایت تقویت دی ہے کہ پاکستان میں ہونے والی بعض بڑی اور خونی دہشت گرد کارروائیوں میں افغان سرزمین اور افغان شہریوں کا براہِ راست یا بالواسطہ کردار رہا ہے۔ پاکستان میںگزشتہ تین دہائیوں سے جاری دہشت گردی کے لیے افغانستان کی سرزمین استعمال ہورہی ہے۔ ظاہر شاہی دور ہو یا سردار داؤد کی آمریت افغانستان کی پالیسی پاکستان کے مفادات کے خلاف رہی ہے۔ سردار داؤد کے قتل کے بعد جو لوگ افغانستان کے اقتدار پر قابض ہوئے،وہ بھی پاکستان کو اپنا مخالف سمجھتے رہے، حامد کرزئی، اشرف غنی ، عبداﷲ عبداﷲ اور اب طالبان کی عبوری حکومت سب نے پاکستان کے مفادات کے برعکس پالیسی اختیار کی۔ افغانستان کی تمام حکومتوں نے بھارت کے ساتھ خصوصی تعلقات استوار رکھے، بھارت کو افغانستان میں سرمایہ کاری کے لیے خصوصی سہولتیں فراہم کیے رکھیں، پاکستان کو غیرمستحکم کرنے کی کوششوں میں افغانستان کی ہر حکومت نے بھارت کو سہولت فراہم کی۔ پاکستان میں دہشت گردی کرانے کے لیے افغانستان کی ہر حکومت نے بھارت کو ہر وہ سہولت فراہم کی جو بھارت کے پالیسی ساز چاہتے تھے اور اب بھی یہ سلسلہ جاری ہے۔ کابل انتظامیہ افغان سرزمین سے بھارتی تربیت یافتہ دہشت گرد پاکستان میں داخل کرنے کے لیے بھارت کی بدستور معاونت کر رہی ہے،حالیہ پاک بھارت جنگ میں ہزیمت اٹھانے کے بعد ہی ان خدشات کا اظہار کیا جارہا تھا کہ بھارت افغانستان کو استعمال کرے گا، اس کے علاوہ پاکستان میں موجود اپنی پراکسیز کو متحرک کرکے دہشت گردی کا سلسلہ تیز کرے گا۔ دس مئی کے بعد سے اب تک پاکستان کے دو صوبوں بلوچستان اور خیبر پی کے میں دہشت گردی کی بیسیوں وارداتیں ہوچکی ہیں، ان سب میں افغانستان کے لوگ اور اس کی سرزمین استعمال ہوئی ہے ۔ افغانستان میں موجود دہشت گرد تنظیمیں، بالخصوص کالعدم ٹی ٹی پی، داعش، خراسان، بی ایل اے اور دیگر دہشت گرد گروہ، افغانستان کو ایک محفوظ پناہ گاہ کے طور پر استعمال کر رہے ہیں۔ ان تنظیموں کے جنگجو افغانستان میں کھلے عام نقل و حرکت کرتے ، تربیت حاصل کرتے ، منظم ہوتے ہیں اور پھر پاکستان کے خلاف کارروائیاں کرتے ہیں۔ یہ ایک ایسا خطرہ ہے جسے نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ سفارتی بیانات اور زبانی جمع خرچ سے بھی اسے حل کیا جا سکتا ہے۔ اگست 2021میں طالبان نے افغانستان میں دوبارہ اقتدار سنبھالا، تو پاکستان میں مخصوص مائنڈ سیٹ کے حامل طاقتور طبقات نے ذرایع ابلاغ کے ذریعے یہ تاثر پیدا کیا کہ اب افغانستان میں امن و استحکام آئے گا اور پاکستان میں دہشت گردی ختم ہوجائے گی کیونکہ طالبان حکومت بھارتی قونصلیٹ کی تعداد کم کردے گی، بھارتی ایجنٹوں کو افغانستان سے نکال دیا جائے اور ٹی ٹی پی کے بھگوڑوں کو گرفتار کرکے پاکستان کے حوالے کردیا جائے گا۔ پاکستان نے عبوری افغان حکومت کے ساتھ مثبت روابط قائم رکھنے کی بھرپور کوشش کی، بین الاقوامی برادری سے مطالبہ کیا کہ افغانستان کو تنہا نہ چھوڑا جائے، انسانی امداد فراہم کی، اور سفارتی محاذ پر افغان عوام کے لیے آواز بلند کی۔ مگر ان تمام کوششوں کے باوجود، زمینی حقائق اس امید کے برعکس نکلے۔  افغانستان میں تربیتی کیمپ رکھنے والی کالعدم ٹی ٹی پی پاکستان میں دہشت گردی کی وارداتوں میں ملوث ہے۔ یہ دہشت گرد نیٹ ورک دیگر ناموں کے ذریعے بھی پاکستان میں دہشت گردی کی وارداتیں کرتا ہے تاکہ پاکستان کے عوام اور دنیا کو دھوکا دیا جائے اور یہ موقف اختیار کیا جائے کہ وہ فلاں دہشت گردی میں ملوث نہیں ہے ۔ لہٰذا یہ دہشت گرد گروہ انتہائی مکار، چالباز، سازشی ، دغا باز اور مجرمانہ ذہنیت رکھتا ہے ، جن کے لیے اخلاقیات کوئی معنی نہیں رکھتی ۔ اپنے مقاصد کے حصول کے لیے یہ بدفطرت گروہ مذہب کو بطور ڈھال استعمال کررہا ہے ۔ جرائم پیشہ گروہوں، اسمگلروں کے ساتھ بھی اس گروہ کے روابط موجود ہیں اور بلوچستان کے دہشت گرد گروہوں اور ٹی ٹی پی کے مابین بھی مفادات کا لین دین جاری ہے۔ بھارت کے ساتھ ان گروہوں کے خصوصی تعلقات ہیں جب کہ افغانستان ان کے لیے محفوظ پناہ گاہ ہے۔ دہشت گردگروہ افغانستان میں منظم انداز میں موجود ہیں، اپنے ٹھکانے چلا رہے ہیں، وڈیوز جاری کر رہے ، بیانات دے رہے ہیں اور پھر پاکستان کے اندر حملوں کی ذمے داری قبول کی جاتی ہے۔ افغان عبوری حکومت ان دہشت گرد عناصر کے خلاف کوئی ٹھوس کارروائی کرتی نظر نہیں آتی۔ ان عناصر کو نہ تو گرفتار کیا گیا ہے، نہ ان کے خلاف کسی قسم کی مؤثر کارروائی کی گئی ہے، اور نہ ہی ان کی سرگرمیوں پر کوئی قدغن لگائی گئی ہے۔ دو تین برسوں میں خیبر پختونخوا، بلوچستان اور دیگر علاقوں میں جو دہشت گرد حملے ہوئے، ان کی تحقیقات سے یہ انکشاف ہوا کہ ان میں ملوث عناصر کی تربیت، منصوبہ بندی اور معاونت افغانستان سے کی گئی۔ کچھ حملہ آور پاکستان میں پناہ گزین افغان باشندے نکلے ہیں، بعض کے پاس افغان شناختی دستاویزات بھی تھیں، اور کئی حملہ آوروں کے موبائل فون اور دیگر شواہد سے یہ بات سامنے آئی کہ وہ افغانستان سے رابطے میں تھے۔ یہ تمام شواہد محض الزامات نہیں بلکہ ناقابل تردید حقائق ہیں، جو زمینی حقیقت کی عکاسی کرتے ہیں۔ پاکستان کا مطالبہ نہ تو غیر منطقی ہے اور نہ ہی غیر قانونی۔ بین الاقوامی قوانین اور اقوام متحدہ کے چارٹر کے مطابق، کوئی بھی ملک اپنی سرزمین کسی دوسرے ملک کے خلاف دہشت گردی کے لیے استعمال نہیں ہونے دے سکتا۔ یہ ایک بنیادی اصول ہے جس کی پاسداری ہر ریاست پر لازم ہے۔  افغان عبوری حکومت، جو خود بھی دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام پر بر سراقتدار آئی، آج ان ہی دہشت گرد عناصر کی سرپرستی یا کم از کم چشم پوشی کر رہی ہے، جنھوں نے نہ صرف پاکستان بلکہ خود افغانستان کے عوام کو بھی تباہی کی بھٹی میں جھونک رکھا ہے۔ اگر طالبان حکومت واقعی افغانستان میں دیرپا امن چاہتی ہے اور بین الاقوامی برادری سے تسلیم کیے جانے کی خواہش رکھتی ہے تو اسے دہشت گردوں کے خلاف بلاامتیاز کارروائی کرنا ہوگی۔ دہشت گردی کے معاملے پر کوئی ’’ اچھے‘‘ یا ’’ برے‘‘ دہشت گرد نہیں ہوتے۔ جو شخص بے گناہوں کی جان لیتا ہے، ریاستی اداروں پر حملہ کرتا ہے اور غیر مسلح شہریوں پر گولیاں چلاتا ہے، وہ دہشت گرد ہے اور اسے ویسا ہی سمجھا جانا چاہیے۔  پاکستان نے ایک جانب اپنی داخلی سیکیورٹی کو بہتر بنانے کے لیے دہشت گردوں کے خلاف مؤثر آپریشنز کا آغاز کیا ہے، تو دوسری جانب عالمی سطح پر بھی ان خدشات کو اجاگر کیا ہے۔ پاکستان نے اقوام متحدہ، او آئی سی، شنگھائی تعاون تنظیم، اور دیگر پلیٹ فارمز پر اس معاملے کو اٹھایا ہے ۔ پاکستان دنیا کو یہ باور کرانے میں کامیاب ہوا ہے کہ دہشت گردی اب صرف ایک ملک کا مسئلہ نہیں بلکہ ایک عالمی چیلنج ہے، جس سے نمٹنے کے لیے عالمی سطح پر مشترکہ کاوشیں ضروری ہیں۔یہ بات بھی نہایت اہم ہے کہ افغان حکومت، اگر اس کی نیت نیک ہے، تو اپنے ان دعوؤں کو عملی اقدامات میں تبدیل کرے جن میں وہ دہشت گردی کے خلاف کھڑے ہونے کا وعدہ کرتی ہے۔ صرف بیانات سے یا پاکستان کے خدشات کو ’’غلط فہمی‘‘ قرار دینے سے مسئلہ حل نہیں ہوگا۔ وقت آ گیا ہے کہ افغان قیادت اپنی زمین پر موجود دہشت گرد عناصر کے خلاف فیصلہ کن قدم اٹھائے، ان کے خفیہ ٹھکانوں کو ختم کرے، ان کے مالی ذرایع بند کرے، اور ان کے ریاست دشمن عزائم کو ناکام بنائے۔ پاکستان کی جانب سے کی گئی تمام تر مخلصانہ کوششوں کو نظر انداز کرنا، یا انھیں کمزوری سمجھنا غلطی ہوگی۔ پاکستان کی خواہش ہے کہ دونوں ممالک مل کر امن، ترقی اور بھائی چارے کے راستے پر آگے بڑھیں، مگر یہ صرف اسی وقت ممکن ہے جب افغانستان اپنی زمین سے دہشت گردی کا مکمل خاتمہ کرے۔دنیا کو بھی چاہیے کہ افغانستان پر دباؤ بڑھائے، تاکہ وہ دہشت گردوں کی محفوظ پناہ گاہ نہ بنے۔ اگر افغانستان دہشت گردوں کی پشت پناہی جاری رکھتا ہے اور کسی بھی طور پاکستان میں امن کو نقصان پہنچانے والی قوتوں کا ساتھ نہیں چھوڑتا تو پھر دیکھنا یہ ہے کہ ہمارے پالیسی سازوں کے پاس اس مسئلے کا کیا حل ہے؟

اگر آپ اس خبر کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں۔

مزید تفصیل