Loading
غزہ میں فلسطینیوں پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑنے والے اسرائیل نے فلسطین آزادی کی نمایندہ تنظیم حماس کے مذاکرات کاروں کو نشانہ بنانے کے لیے برادر اسلامی ملک قطر پر حملہ کرکے مسلم امہ کو یہ کھلا پیغام دیا ہے کہ وہ اپنے مقاصد کے حصول کے لیے جسے وہ ’’گریٹر اسرائیل‘‘ کے نام سے تعبیر کرتا ہے کی راہ میں آنے والی ہر رکاوٹ کو دور کرنے کے لیے اقوام متحدہ سمیت تمام علاقائی اور عالمی قوانین کو اپنے پاؤں تلے روند کر رکھ دے گا اور اسے اپنے اس عمل پر روکنے ٹوکنے والا کوئی نہیں ہے۔ اسرائیل کے بڑھتے ہوئے قدم ایران اور قطر کے بعد اب ترکیہ اور پاکستان کی جانب اٹھنے کے خدشات و خطرات ظاہر کیے جا رہے ہیں۔ قطر امریکا کا اتحادی ملک ہے۔ امریکی افواج قطر میں اس کے مفادات کے لیے موجود ہے۔ حیرت اور افسوس کی بات یہ ہے کہ اسرائیل نے اپنے ہی سرپرست امریکا کے اتحادی ایک ایسے ملک قطر جوکہ اسرائیل اور فلسطینی تنظیم حماس کے درمیان جاری تنازع کے حل کے لیے ثالث کا کردار ادا کر رہا ہے اور چند روز پیشتر امریکا کی جانب سے جنگ بندی کی دی گئی تجاویز پر عمل درآمد کے لیے غور و خوص کرنے والے فلسطینی نمایندوں کے جاری اجلاس کے دوران دوحہ پر حملہ کرکے یہ ثابت کیا ہے کہ اسے امریکی مفادات کے تحفظ کی بھی کوئی حاجت نہیں ہے۔ اس پہ مستزاد امریکا نے دوحہ حملے پر کوئی واضح، دو ٹوک ردعمل دینے کے بجائے یہ کہنا مناسب سمجھا کہ امریکا نے دوحہ کو حملے سے قبل آگاہ کر دیا تھا۔ اس کا واضح مطلب یہ ہے کہ قطر پر اسرائیلی حملہ امریکا کی مکمل آشیرباد سے کیا گیا ہے جب کہ قطری وزارت خارجہ کے ترجمان نے امریکی موقف کی تردید کرتے ہوئے کہا ہے کہ جس وقت حملہ کیا گیا اس وقت امریکا نے کوئی خبر نہ دی بلکہ اسرائیل کے حملہ آور ہونے کے بعد آگاہ کیا گیا۔ امریکی موقف ہے کہ صدر ٹرمپ قطر پر اسرائیلی حملے سے متفق نہ تھے ۔ اس دلیل میں کوئی وزن نہیں امریکا کے صدر ٹرمپ کی اجازت کے بغیر اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو کوئی قدم نہیں اٹھا سکتا۔ دنیا کو یاد ہے کہ چند ماہ قبل ایران اسرائیل جنگ کے آخری دن صدر ٹرمپ نے ایران پر حملے کے لیے پرواز کرنے والے اسرائیلی جنگی طیاروں کو اپنے حکم سے واپس بھجوا دیا تھا اور اپنے اس عمل کا خوب ڈھنڈورا بھی پیٹا تھا۔ صدر ٹرمپ کی مرضی، منشا اور رضامندی کے بغیر قطر پر اسرائیلی حملہ ممکن ہی نہ تھا۔ اب امریکی ترجمان بودی دلیل اور کمزورموقف سے اپنے جرم پر پردہ نہیں ڈال سکتے۔ درحقیقت امریکا اور اسرائیل دونوں حماس قیادت سے سخت ناراض اور غزہ سے فلسطینیوں کا مکمل انخلا چاہتے ہیں لیکن فی الحال عالمی برادری کے شدید دباؤ اور دنیا بھر میں اسرائیل مخالف اور فلسطینیوں کے حق میں ہونے والے احتجاج کے باعث اپنے منصوبے کو عملی شکل دینے سے قاصر ہیں تاہم غزہ پر قبضہ ان کی طویل المدت پالیسی کا حصہ ہے۔ قطر پر حملے کے بعد نہ صرف عالمی برادری، مغربی ممالک اور اقوام متحدہ کی طرف سے شدید رد عمل آیا بلکہ اسلامی دنیا میں بھی ایک ہلچل پیدا ہو گئی۔ سب سے پہلے سعودی عرب کے شاہ سلمان نے امیر قطر سے ملاقات کرکے اسرائیلی حملے کی مذمت کرنے اور اسے اسلامی برادری کے خلاف جارحیت قرار دیا۔ وزیر اعظم پاکستان میاں شہباز شریف نے بھی بطور خاص قطر کا دورہ کرکے پاکستان کی جانب سے مکمل تعاون و یکجہتی کا یقین دلایا اور دوحہ پر اسرائیلی حملے کی شدید الفاظ میں مذمت کی۔ اسلامی سربراہ اجلاس بھی طلب کرنے کی اطلاعات آ رہی ہیں تاکہ قطر پر اسرائیلی حملے کے خلاف مسلم امہ کی طرف سے ایک ٹھوس، جامع اور دو ٹوک پیغام امریکا اور اسرائیل کو دیا جائے کہ آیندہ ایسا کوئی بھی اقدام مسلم امہ پر حملہ تصور کیا جائے گا اور اس کا ویسا ہی جواب بھی دیا جائے گا۔ اسرائیلی جارحیت منفی سوچ اور آیندہ کے جنگی اقدام کے حوالے سے صہیونی ریاست کے نمایندے کی سلامتی کونسل کے ہنگامی اجلاس میں اسامہ بن لادن کے حوالے سے پاکستان کا منفی انداز میں حوالہ دے کر ہرزہ سرائی کرنا درپردہ ہمارے لیے لمحہ فکریہ ہے۔ پاکستانی مندوب عاصم افتخار نے ترکی بہ ترکی جواب دیتے ہوئے اسرائیلی نمایندے کے ہوش ٹھکانے کر دیے کہ اسامہ بن لادن کے خلاف امریکی ایکشن اور قطر پر اسرائیلی حملے کا موازنہ کرنا سراسر بے ہودہ اور ناقابل قبول ہے۔ انھوں نے صاف لفظوں میں اسرائیل کو ایک بدمعاش اور غاصب ریاست قرار دیتے ہوئے واضح کیا کہ اسرائیل اقوام متحدہ کے چارٹر اور بین الاقوامی قوانین کی مسلسل خلاف ورزیاں کر رہا ہے۔ پاکستان نے تو دہشت گردی کے خلاف جنگ میں نہ صرف اپنا کردار ادا کیا بلکہ بے پناہ مالی و جانی قربانیاں بھی دی ہیں اور عالمی برادری بشمول امریکا پاکستان کے کردار کی آج بھی معترف ہے۔ اسرائیل کے جارحانہ عزائم و ناپاک ارادوں کو ناکام بنانے، غزہ کو صہیونی بربریت سے بچانے اور فلسطین کا اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حل یقینی بنانے کے لیے اسلامی دنیا کو پوری سنجیدگی سے سوچ بچار کرنا اور متحدہ ہونا پڑے گا ورنہ اسرائیل کی بدمعاشی، مشرق وسطیٰ کے امن کو تباہ کر دے گی اور قطر کے بعد کوئی دوسرا اسلامی ملک اس کا نشانہ بن سکتا ہے۔
اگر آپ اس خبر کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں۔
مزید تفصیل