Monday, September 29, 2025
 

دنیا میں پاکستان کی عزت وتکریم میں اضافہ

 



یہ میرے مولا کا کرم ہی نہیں ہے تو اورکیا ہے کہ چند مہینے قبل ہمارے ملک اور ہماری قوم کی کیا حالت زار تھی اور آج کیسی بدل چکی ہے۔ ہم اسے قدرت کا کرشمہ اور معجزہ ہی کہیں گے کہ جو ملک دیوالیہ ہوجانے کی حدوں کو چھو رہا تھا اور ایک ناکام ریاست سمجھا جا رہا تھا۔ دنیا کی قومیں اسے کوئی وقعت دینے کو تیار ہی نہ تھیں، اچانک کیسے اتنا سرخرو ہوگیا کہ سب کی نظریں ہماری طرف متوجہ ہوگئی۔ ہم ایک ایسی باعزت قوم کے طور پر ابھر کر سامنے آگئے کہ امریکا جیسا ملک بھی ہمیں بھارت کے مقابلے میں فوقیت دینے پر مجبور ہوگیا۔ یہ سب اتنا اچانک اور یکدم ہوا کہ ہم خود بھی اپنی اس کامیابی پر حیران رہ گئے۔ مئی کے مہینے میں بھارت کے نریندر مودی نے ہمیں کمزور اور تباہ شدہ قوم سمجھ کر ایک ایسی سفاکانہ غلطی کردی جو آج اس کے گلے کا پھندہ بن چکی ہے۔ پہلگام واقعہ کو دہشت گردی کا بہانہ بنا کر اس نے ہم پر جارحیت کا جو وار کر ڈالا، اس نے خود اس کے منہ پرکالک مل دی۔ دنیا اس کے الزامات پر یقین کرنے کو تیار نہ ہوئی اور حسن اتفاق سے ہماری پاک افواج کی جوابی کارروائی نے اسے کہیں کا نہ چھوڑا۔ تین روز تک پاکستان صبر سے اس کے حملے برداشت کرتا رہا لیکن پھر ہمارا صبر بھی لبریز ہوگیا اور ہم نے چند لمحوں میں اسے چھٹی کا دودھ یاد دلا دیا۔ اس کا سارا مواصلاتی نظام منجمد کردیا اور اس کا ریلوے سسٹم بھی معطل کردیا۔ ٹیکنالوجی کے میدان میں ہم نے اپنی قابلیت اور مہارت کا لوہا منوا کے ساری دنیا کو حیران و ششدر کردیا۔ امریکا ہماری اس مہارت کا نہ صرف معترف ہوگیا بلکہ داد تحسین بھی دینے لگا۔ ہمارے فیلڈ مارشل جنرل عاصم منیرکا وہ اتنا فریفتہ اور پرستار ہوگیا کہ ہر تقریب میں وہ ان کے گن گانے لگا۔ جس قوم کو دنیا بھارت کے مقابلے میں ایک انتہائی کمزور قوم سمجھ رہی تھی وہ خلاف توقع اتنی قابل اور باصلاحیت ہو کر اور ابھر کر سامنے آگئی کہ کسی کو یقین بھی نہیں ہو رہا۔ یہی وجہ ہے کہ آج دنیا کا ہر ملک ہمیں ایک باعزت قوم کے طور پر ہماری تعظیم کرنے پر مجبور ہوچکا ہے۔ ساتھ ہی ساتھ ہمارے موجودہ وزیراعظم کی سفارتی محاذ پرکی جانے والی کامیاب کوششوں نے بھی ہمارا بحیثیت ایک قوم ایک بہت ہی اچھا تاثر اور امیج پیدا کردیا ہے۔ وزیراعظم نے جس دن سے دوسری بار اپنے اس منصب کا حلف اُٹھایا ہے، ایک دن بھی چین سے نہیں بیٹھے ہیں۔ اُن کی سفارتی محاذ پر لڑی جانے والی جنگ نے بھی بھارت کے نریندر مودی کو عبرت ناک شکست دیدی ہے، وہ اب اس قابل بھی نہیں رہا کہ کسی ملک میں جا کر اپنی خفت اور خجالت مٹا سکے۔ اسے اگلے الیکشن میں اپنی شکست کا خوف بھی لاحق ہونے لگا ہے اور اسے سمجھ میں نہیں آرہا کہ وہ کس طرح اپنی قوم کو اپنی ان ناکامیوں کی توجیح پیش کرسکے۔ ہمارے وزیراعظم کا جس طرح سعودی عرب اورامریکا میں استقبال کیا گیا ہے وہ بھی اس کی نیندیں اُڑا دینے کے لیے کافی ہے، وہ جس ٹرمپ کو اپنا خیر خواہ اور دوست سمجھ رہا تھا اسی ٹرمپ نے اب اسے یکسر نظر اندازکردیا ہے بلکہ اس پر پچاس فیصد ٹیرف لگا کر اسے مزید مشکل میں ڈال دیا ہے۔ جو کچھ آج سے پہلے پاکستان کے ساتھ کیا جاتا تھا، آج بھارت کے ساتھ ہو رہا ہے۔ پاکستان اپنی اسلامی شناخت کی وجہ سے ہمیشہ غیر مسلم طاقتوں کے عتاب میں رہا ہے۔ اس پر ہمیشہ کوئی نہ کوئی قدغنیں لگتی رہی ہیں۔کبھی سی ٹی بی ٹی،کبھی FATF اورکبھی دہشت گرد ممالک کی فہرست میں شامل کر کے ہمارا معاشی استحصال کیا جاتا رہا ہے۔ ہمارا نیوکلیئر پروگرام بھی عالمی طاقتوں کو ایک آنکھ نہیں بھاتا ہے جب کہ بھارت کو ایسی کسی مشکل کا سامنا نہیں تھا۔ ہمارا سی پیک منصوبہ بھی سب سے زیادہ امریکا کو ناپسند رہا ہے مگر خدا کا شکر ہے کہ آج یہ سب مشکلیں دور ہوچکی ہیں۔ دو سال پہلے ہمارے یہاں کے ایک سیاسی گروہ اور فریق کے مطالبے پر ہم نے بھی روس سے تیل خریدنے کے معاہدے کر لیے لیکن اُن پر عمل درآمد شاید اس لیے نہ ہوسکا کہ اس خام تیل کو ریفائن کرنے میں ہمیں مشکلات درپیش تھیں۔ یہ ہمارے لیے نقصان کے بجائے نعمت غیر مترقبہ ثابت ہوا، ورنہ آج ہم بھی بھارت کی طرح ٹیرف کی پابندیوں کا شکار ہو رہے ہوتے۔ روس سے سستا تیل نہ خریدنے پر ہماری اس حکومت کو مخالفوں کی جانب سے تنقید کاسامنا بھی رہا لیکن یہ بھی اللہ تعالیٰ کی مہربانی رہی کہ ہماری حکومت اس دباؤ میں نہیں آئی، ورنہ آج امریکا کے ساتھ ساتھ سعودی عرب بھی ہم سے ناراض ہوچکا ہوتا۔ سعودی عرب ہمارا ہمیشہ ایک قابل اعتماد دوست رہا ہے ۔ اس نے ہر مشکل وقت میں ہماری مدد کی ہے ۔ ہم اس کی ناراضی کے متحمل ہرگز نہیں ہوسکتے ہیں۔ عمرانی دور میں ایک مہم بھی چلائی گئی کہ ہم سعودی عرب کی دوستی اور مہربانیوں کے بنا ء بھی جی سکتے ہیں۔ یہ سوچ ملک دشمنی کا شاخسانہ ہوسکتی تھی۔ اسی طرح سعودی عرب کو ناراض کرنے کے اس دور میں اور بھی کام کیے گئے اور خان صاحب کی تجویز پر ترکی، ملائیشیا اور پاکستان پر مبنی تین ممالک کی ایک الگ فیڈریشن بنانے کا پلان بنایا گیا جو شو مئی قسمت سے قابل عمل نہ ہوسکا۔ ورنہ آج ہم جس سعودی عرب اور پاکستان کے معاہدے پر سرشار ہورہے ہیں وہ بھی ممکن نہ ہوپاتا۔ خان صاحب کے چار سالہ دور میں ملک کو سفارتی طور پر تنہا اور اکیلا کرنے کی جو کوششیں کی گئی اس نے ہمیں تباہی کے دہانے پر لاکھڑا کردیا۔ کہنے کو وہ دعوے ہماری خود مختاری اور آزادی کے دلفریب نعروں سے مزین تھے اور قوم کے احساسات کو ہوا دینے کے مترادف بھی تھے لیکن قرضوں میں جکڑی قوم کے لیے وہ نعرے انتہائی مضر ثابت ہوا کرتے ہیں۔ ہمارا تو یہ حال ہے کہ ہمیں اگرکسی غیر ملک کے دورے کے موقعوں پروہاں کے سربراہ کی جانب سے تحفے ملتے ہیںتو ہم انھیں بھی بیچ کھاتے ہیں۔ یہ ہمارے لیے کتنی شرمساری کی باتیں ہیں کہ تحفہ میں ملنے والی چیزیں کو بھی ہم دبئی جیسے ملک میں فروخت کردیتے ہیں اور وہی چیزیں واپس تحفہ دینے والے کو پہنچ جاتی ہیں۔ کہنے کو یہ چھوٹی چھوٹی سی بدنیتی ہے، لیکن عالمی سطح پر انتہائی رسوائی کا باعث ہیں۔ افسوس کہ بانی پی ٹی آئی نے ایسا کرنے سے پہلے سوچ لیا ہوتا کہ اس غلطی کا نتیجہ کیا نکلے گا۔ عام زندگی میں بھی ہم کسی کی جانب سے ملنے والے تحفوں کو اس طرح بیچا نہیں کرتے، جب کہ یہ تحفے تو سفارتی آداب کو ملحوظ خاطر رکھنے کا بھی تقاضہ کرتے ہیں، وہ اگر اُن تحفوں کو استعمال کر لیتے تو شاید کوئی حرج بھی نہ تھا مگر انھیں کسی دوسرے ملک میں بیچ ڈالنا انتہائی چھوٹی سوچ کی غمازی کرتا ہے۔ ایک وزیراعظم کو یہ کسی طرح بھی زیب نہیں دیتا کہ وہ کسی ایسی حرکت کا متحمل ہوجائے، وہ ان تحفوں کو بھی ورلڈ کپ کی طرح اپنی ذاتی ملکیت تصور کربیٹھے تھے۔ آج خدا خدا کر کے ہم اس دورکی بد نامی سے باہر نکل پائے ہیں۔ آج ہمارے وزیراعظم کا استقبال ریڈ کارپٹ کے بجائے پرپل کارپٹ بچھا کے کیا جارہا ہے ۔ جو عزت و توقیر ہمارے اس وزیراعظم اور فیلڈ مارشل کو مل رہی ہے وہ آج سے پہلے شاید ہی ہمارے کسی اورحکمراں کو ملی ہو۔ یہ سب اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے ہو رہا ہے جو حکمرانوں کی نیتوں کو بھی جاننے والا ہے۔ یہ شہباز شریف اور جنرل عاصم منیرکی خلوص نیت کا ثمر ہے کہ ہمارے پاکستان کو آج اتنی عزت و تکریم سے نوازا جا رہا ہے۔

اگر آپ اس خبر کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں۔

مزید تفصیل