Monday, October 06, 2025
 

آئی ایم ایف نے حکومت کو سیلاب متاثرہ علاقوں میں ترقیاتی منصوبوں کیلیے فنڈز جاری کرنے سے روک دیا

 



آئی ایم ایف نے وفاقی حکومت کو سیلاب متاثرہ علاقوں میں اسکیموں کیلیے فنڈز جاری کرنے سے روک دیا جبکہ وفاق نے عالمی ادارے سے سیلاب کے باعث اقتصادی اہداف میں نظر ثانی کی درخواست بھی کردی۔ ایکسپریس نیوز کے مطابق وفاقی حکومت نے بین الاقوامی مالیاتی فنڈز سے سیلاب کے باعث رواں مالی سال کیلئے اقتصادی اہداف پر نظرثانی کی درخواست کرتے ہوئے معاشی شرح نمو کا ہدف4.2 فیصد سے کم کرنےکی تجویز دے دی ہے۔ حکومت نے سیلاب کے باعث رواں مالی سال معاشی ترقی 3.5 فیصد تک محدود رہنے کا امکان ظاہر کیا ہے جبکہ آئی ایم ایف نے وفاق کو سیلاب متاثرہ علاقوں میں اسکیموں کو فنڈز دینے سے روک دیاہے۔ ذرائع کے مطابق آئی ایم ایف کا کہنا ہے کہ صوبے متاثرہ علاقوں میں بحالی اسکیموں کو اپنے وسائل سے فنڈز دیں اور صوبے یقینی بنائیں کہ بحالی اسکیموں سرپلس میں کمی نہ آئے۔  پاکستان اور بین الاقوامی مالیاتی فنڈ( آئی ایم ایف) کے درمیان اقتصادی جائزہ پر پالیسی سطح کے مذاکرات جاری ہیں جس میں میمورنڈم آف اکنامک اینڈ فنانشل پالیسیز کے مسودے کو حتمی شکل دی جارہی ہے تاہم حکومت اور آئی ایم ایف کے درمیان معاشی اہداف پر اختلاف رائے برقرار ہے۔ اقتصادی اہداف سمیت دیگر معاملات پر آئی ایم ایف مشن کی وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب سے ملاقات میں حتمی فیصلہ ہوگا البتہ وزارت خزانہ حکام پر امید ہیں کہ آئی ایم ایف کے ساتھ دوسرا اقتصادی جائزہ کامیابی سے مکمل ہو جائے گا اور آئی ایم ایف بورڈ سے ایک ارب ڈالر کی اگلی قسط منظور ہونے کا امکان ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ مذاکرات میں بریفنگ کے دوران بتایا گیا کہ مہنگائی ساڑھے سات فیصد ہدف کے مقابلے 8 فیصد سے تجاوز کرسکتی ہے، رواں سال ترسیلات زر 39.4 ارب ڈالر ہدف کے بجائے 42 ارب ڈالر تک جانے اور آئی ایم ایف کا ترسیلات زر 35 ارب 76 کروڑ ڈالر تک محدود رہنے کا تخمینہ ہے۔ ذرائع کے مطابق رواں مالی سال زرمبادلہ کے ذخائر 14.5 ارب ڈالر تک جاسکتے ہیں جبکہ کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ 2.1 ارب ڈالر کے بجائے 50 کروڑ ڈالر تک محدود رہ سکتا ہے جبکہ آئی ایم ایف نے کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ 1.49ارب ڈالر تک جانے کا امکان ظاہر کر دیا ہے۔ آئی ایم ایف نے برآمدات 35.3 کے بجائے 32 ارب 98 کروڑ ڈالر تک رہنے کا تخمینہ لگایا ہے جبکہ حکومت کا رواں مالی سال برآمدات 34 ارب ڈالر تک لے جانے کا عزم ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ آئی ایم ایف کو نئی 5 سالہ ٹیرف پالیسی کے معیشت پر ممکنہ اثرات، آئی ایم ایف کو ریکوڈیک کاپر اینڈ گولڈ مائن پراجیکٹ پر بھی بریفنگ دی گئی ہے۔ مذاکرات میں حالیہ سیلاب کے باعت معاشی شرح نمو، ٹیکس اور ترقیاتی اہداف میں کمی پر بات چیت تبادلہ خیال ہوا۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ آئی ایم ایف کے وزارت توانائی کے ساتھ مذاکرات میں پاور سیکٹر کی اصلاحات پر بات کی۔ اس دوران لائن لاسز سمیت بجلی بلوں کی ریکوری بھی زیر بحث آئے۔ ذرائع کا کہناہے کہ آئی ایم ایف مشن کی جانب سے ڈسکوز کی نجکاری کا ٹائم فریم مانگا گیا ہے، حکام کے مطابق آئی ایم ایف کو بتایا گیا ہے کہ ریکوڈیک کاپر اینڈ گولڈ مائن منصوبے کی کل لاگت 4.3 ارب ڈالر سے بڑھ کر 7.72 ارب ڈالر تک پہنچ گئی، پہلے مرحلے میں دو لاکھ میٹرک ٹن سالانہ کاپر پیداوار کا تخمینہ ہے اور منصوبے کا پہلا مرحلہ سال 2029 میں مکمل ہونے کی توقع ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ ریکوڈیک کاپر اینڈ گولڈ مائن منصوبے کے فیز ٹو سال 2034 میں اضافی 3.3 ارب ڈالر کی لاگت سے شروع ہوگا، فیز ٹو میں 9 کروڑ ٹن فی سال تک پیداوار بڑھائی جائے گی، منصوبے میں کینیڈا کی بیرک گولڈ کمپنی کے 50 فیصد، باقی وفاق اور بلوچستان کے شیئرز ہیں گیم چینجر منصوبے سے 37 سال میں نیٹ کیش فلو 70 ارب ڈالر متوقع ہے۔ آئی ایم ایف حکام کو دوران بریفنگ بتایا گیا کہ نئی نیشنل ٹیرف پالیسی 2030-2025 سے درآمدی ڈیوٹیز میں بتدریج کمی ہوگی، اس کا مقصد برآمدات میں اضافہ اور سرمایہ کاری کا فروغ ہے، کم ٹیرف سے پاکستان میں گاڑیوں سمیت درآمدی اشیا سستی ہوں گی۔ اس سے تجارتی خسارہ بڑھنے کا امکان ہے تاہم حکومتی پالیسی سے معیشت مستحکم ہوگی نئی ٹیرف پالیسی سے5 سال میں ایوریج ٹیرف کو 20.19 فیصد سے 9.70 فیصد پر لانے کا ہدف ہے، ریگولیٹری اور اضافی کسٹمز ڈیوٹیز کو چار سے پانچ سال میں صفر کیا جائے گا۔ دوسری جانب ذرائع کا بتانا ہے کہ آئی ایم ایف سے اگلی قسط کے اجراء کیلئے وزیراعظم آفس بھی متحرک ہوگیا ہے اور وزیراعظم آفس سے مختلف محکموں اور وزارتوں کو فون کیے گئے ہیں۔ ذرائع کے مطابق وزیراعظم آفس کیجانب سے ہدایت کی گئی کہ آئی ایم ایف مطالبات پرعملدرآمد رپورٹ وزارت خزانہ اور مشن کو فراہم کی جائے اور جن مطالبات پرعمل نہیں ہوسکا ان کی وجوہات فراہم کی جائیں۔

اگر آپ اس خبر کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں۔

مزید تفصیل