Monday, October 06, 2025
 

کرکٹ سیاست اور جنگ

 



بنیادی طور پر کرکٹ ایک کھیل ہے اور اسے کھیل ہی کی بنیاد پر کھیلا جانا چاہیے۔ایک عمومی رائے یہ بھی ہے کہ کرکٹ کو دو ملکوں کے تعلقات کی بہتری میں ڈپلومیسی کے طور پر بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ کھلاڑی کھیل کے میدان میں مخالف حریف کے خلاف جتنا بھی جوش دکھائیں مگر عملی طور پر ان کی حیثیت کھیل کے میدان میں ایک امن کے سفیر کی ہوتی ہے اور کھیل میں ہار جیت سے ہٹ کر ایک دوسرے سے سماجی ہم آہنگی کو پیدا کرنا اور دوستانہ ماحول کو فروغ دینا ہی کھیل کی شان ہوتی ہے۔حال ہی میں ہونے والے ایشیا کپ میں پاکستان اور بھارت کے درمیان جو سیاسی بدمزگی،تعصب،جنگ اور دشمنی کا رویہ ہمیں بھارت کی جانب سے پاکستان کے بارے میں دیکھنا پڑا اس کی جتنی بھی مذمت کی جائے وہ کم ہے۔ بھارت کے کپتان کا ٹاس کے بعد پاکستانی کپتان سے ہاتھ نہ ملانا،میچ کے بعد کے منظر میں بھارت کے تمام کھلاڑیوں کا پاکستان کے کھلاڑیوں سے ہاتھ نہ ملانا ،میچ کے بعد پریس کانفرنس میں بھارت کے کپتان کی جانب سے میڈیا میں سیاسی گفتگو کرنا اور جنگی تناظر میں بات کرنا ، ایشیا کپ جیتنے کے بعد بھارت کے کپتان کا پاکستان کرکٹ بورڈ کے سربراہ سے جیت کی ٹرافی وصول کرنے سے انکار ظاہر کرتا ہے کہ یہ سب کچھ بھارت کی حکومت اور بھارت کے کرکٹ بورڈ کے ایما پر بھارتی کھلاڑیوں اور ٹیم مینجمنٹ نے کیا۔ بھارت نے یہ سب کچھ ظاہر کرکے حالیہ پاک بھارت جنگی کشیدگی میں اپنی دفاعی پسپائی اور پاکستان مخالفت کی بنیاد پر نہ صرف سیاسی تعصب کا مظاہرہ کیا بلکہ کرکٹ کے بنیادی اصول،قوانین اور روایات کی بھی پامالی کرکے کرکٹ جیسے کھیل میں اپنی دشمنی کے سیاسی عزائم کو بھی ظاہر کیا۔ بھارت کے اس حالیہ طرز عمل پر دنیائے کرکٹ کے عظیم کھلاڑیوں اور مختلف ممالک کے کرکٹ بورڈز،کرکٹ ماہرین نے بھی نہ صرف سخت تنقید کی بلکہ اس تنقید میں بھارت کے مختلف سابق کپتان اور کھلاڑی بھی شامل تھے۔ان کے بقول بھارت کی حکومت کو اپنے سیاسی مسائل کو کرکٹ کے میدان تک نہیں لانا چاہیے تھا اور نہ ہی کھلاڑیوں کو اپنی سیاسی دشمنی میں بطورہتھیار استعمال کرنا چاہیے تھا۔ ایشیا کپ جیتنے کے بعد بھارتی وزیر اعظم کی جانب سے بھی اسے آپریشن سندور سے جوڑنے کی کوئی منطق نہیں تھی مگر جو سیاسی خفگی کا ماحول اس وقت بھارت میں موجود ہے اس کا مظاہرہ ہمیں ایشیا کپ میں دیکھنے کو ملا ہے۔  بھارت نے کھیل کے میدان میں برتری حاصل کی اور تینوں میچوں میں پاکستان کو شکست دی لیکن اگر یہ کپ پاکستان جیت جاتا تو اس کا پاکستان مخالفت میں ردعمل اور زیادہ شدید ہوتا اور خود ہار کر بھارت کے کھلاڑیوں کو اپنی حکومت،بورڈ اور عوام سے سخت نفرت کا سامنا کرنا پڑتا۔لیکن ایک بات تو واضح ہے کہ ایشیا کپ جیت کر بھی بھارت کرکٹ میں قائم اصولوں اور اخلاقیات کی جنگ ہار گیا ہے اور مدتوں بھارت کے اس ٹورنامنٹ پر طرز عمل کو نہیں بھولا جاسکے گا اور یہ عمل جہاں عالمی کرکٹ وہیں بھارت کی کرکٹ کے لیے بھی بدنما داغ بن گیا ہے۔ بنیادی طور پر کہیں دہائیوں سے بھارت پاکستان کی کرکٹ کی مخالفت میں پیش پیش رہا ہے اور اس نے عالمی کرکٹ میں یہ بیانیہ بھی بنایا کہ پاکستان سیکیورٹی کے سنگین بحران سے دوچار ہے اور عالمی کرکٹ کو پاکستان میں جاکر نہیں کھیلنا چاہیے۔کیونکہ انٹرنیشنل کرکٹ کونسل آئی سی سی میں بھارت کی سیاسی بالادستی ہے اور آئی سی سی کے فیصلوں میں بھارت کی برتری کا پہلو بھی نمایاں ہے۔یہ ہی وجہ ہے کہ بھارت سمجھتا ہے کہ وہ عالمی کرکٹ میں آئی سی سی سمیت کسی کو بھی جوابدہ نہیں اور وہ کرکٹ میں جڑی سیاست اور فیصلوں میں خود کو ایک بڑے دیوتا کے طور پر پیش کرتا ہے ۔ حالیہ ایشیا کپ میں جو کچھ بھارت کی حکومت، بورڈ، مینجمنٹ،کپتان،کوچ اور کھلاڑیوں نے کیا اس پر بھی اب تک ہمیں آئی سی سی کی سطح پر خاموشی نظر آتی ہے۔ حالانکہ اس ٹورنامنٹ میں بھارت کے بورڈ ،کھلاڑیوں اور مینجمنٹ نے کرکٹ کے قوانین ،اصولوں ،روایات اور اخلاقیات کی دھجیاں اڑائی ہیں مگر آئی سی سی خود کو بھارت کے سامنے بے بس سمجھتا ہے یا وہ کئی سیاسی مصلحتوں کا شکار ہے ۔مگر آئی سی سی کا اپنا یہ طرز عمل عالمی کرکٹ کے خلاف ہے اور آئی سی سی اس میں بھارت کے بورڈ سمیت خود بھی جوابدہ ہے کہ بھارتی بورڈ نے کیونکر سیاست کو کرکٹ کے کھیل کے ساتھ جوڑ کر ماحول کو بدنما بنایا۔ اصولی طور پر دنیا کے جن ممالک میں کرکٹ کھیلی جاتی ہے ان کے بورڈ کو چاہیے کہ وہ بھارت کے بورڈ کے اس فیصلے کے خلاف خود آگے بڑھ کر آئی سی سی سے شکایت بھی کریں اور مطالبہ کریں کہ وہ ان تمام اہم واقعات پر اپنی کمیٹی تشکیل دے اور جس نے بھی کرکٹ کے کھیل میں بدمزگی پیدا کی ہے اس کو جوابدہ بنایا جائے تاکہ مستقبل میں کوئی بھی ٹیم یا ان کا بورڈ کرکٹ میں سیاسی معاملات کو نہ جوڑے۔ پاکستان کی حکومت اور خود کرکٹ بورڈ کے سربراہ جو حکومت کا اہم حصہ بھی ہیں ان کو بھارت کے موجودہ طرز عمل پر آئی سی سی سے تحریری طور پر نہ صرف شکایت کرنی چاہیے بلکہ یہ مطالبہ بھی کرنا چاہیے کہ آئی سی سی بھارت کے اس منفی اقدامات پر کوئی ایکشن لے تاکہ کرکٹ کو سیاسی آلودگی سے بچایا جاسکے۔ لیکن اس کے لیے پاکستان کو عالمی کرکٹ کی سطح پر ایک مضبوط سفارت کاری کو لے کر آگے بڑھنا ہوگا۔پاکستانی بورڈ کو چاہیے کہ وہ دیگر ممالک کے کرکٹ بورڈ سے بھی رابطہ کاری کو یقینی بنائے اور کہے کہ وہ خود بھی کرکٹ کو تباہ ہونے اور سیاست زدہ کرنے سے بچائیں۔ اسی طرح بھارت میں کرکٹ اور دونوں ممالک کی سطح پر بہتر تعلقات کے خواہش مند افراد خاموش نہ رہیں بلکہ اپنی حکومت اور بورڈ پر دباؤ ڈالیں کہ وہ ایشیا کپ میں بھارت کے طرزعمل پر عملی طور پر کرکٹ کے شائقین سے معافی مانگیں اور مستقبل میں اس طرز کے منفی اقدامات سے گریز کریں۔دونوں ملکوں کے لوگ کرکٹ کو جنون کی حد تک پسند کرتے ہیں اور دونوں ممالک میں موجود لوگوں کی خواہش ہے کہ ان کے ممالک میں دونوں ٹیمیں ایک دوسرے کے مدمقابل ہوں تاکہ سب مل کر نہ صرف اچھی کرکٹ دیکھ سکیں بلکہ کرکٹ کو بنیاد بناکر نفرت اور جنگ کی سیاست کا خاتمہ کریں ۔کیونکہ کرکٹ کے کھیل کو کھیل ہی رہنے دیا جائے ۔جو بھی ملک کرکٹ کے معاملات میں آئی سی سی کے فیصلوں کو تسلیم نہ کرے اور ایک دوسرے کے ملک میں کرکٹ کھیلنے سے انکار کرے تو آئی سی سی کو ان کے خلاف ایکشن لینا چاہیے۔

اگر آپ اس خبر کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں۔

مزید تفصیل