Monday, October 06, 2025
 

غزہ جنگ بندی، فیصلہ کن اقدامات کی ضرورت

 



غزہ میں جاری خونریز جنگ کے خاتمے اور یرغمالیوں کی رہائی کے لیے اہم ترین سفارتی کوششیں آخری مرحلے میں داخل ہوچکی ہیں۔ مذاکرات کا مرکزی محور یرغمالیوں کی رہائی، اسرائیلی فوج کا غزہ سے ممکنہ انخلا اور جنگ بندی کے مستقل انتظامات ہیں۔ دوسری جانب عرب اور اسلامی ممالک کے وزرائے خارجہ نے غزہ میں جامع اور پائیدار جنگ بندی کے لیے تازہ پیش رفت کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا کہ یہ پیش رفت غزہ کے عوام کو درپیش سنگین انسانی صورتحال کے حل کے لیے ایک حقیقی موقع فراہم کرتی ہے، جب کہ غزہ جنگ بندی معاہدے کے لیے بین الاقوامی نگرانی میں غیر مسلح ہونے سے متعلق زیر گردش بیان پر فلسطینی مزاحمتی تنظیم حماس کا مؤقف بھی سامنے آگیا ہے۔ عرب میڈیا رپورٹس میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ حماس نے جنگ بندی معاہدے کے لیے بین الاقوامی نگرانی میں اسلحہ سپرد کرنے پر رضامندی ظاہر کر دی ہے۔ تاہم ترک میڈیا کے مطابق حماس نے اسلحہ سپرد کرنے سے متعلق خبر کی سختی سے تردید کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہم بین الاقوامی نگرانی میں غیر مسلح ہونے کے کسی نکتے پر غور نہیں کر رہے۔ غزہ، فلسطین کی وہ سرزمین جو گزشتہ کئی دہائیوں سے خون، آنسو، بربادی اور امید کی داستان کا عنوان بنی ہوئی ہے، ایک بار پھر عالمی ضمیر کو جھنجھوڑنے کے لیے سرخیوں میں ہے۔ حالیہ دنوں میں ہونے والی پیش رفت، بالخصوص حماس اور اسرائیل کے درمیان ممکنہ جنگ بندی کے لیے ہونے والے مذاکرات، امریکا کی جانب سے ثالثی اور غزہ میں انسانی بحران کی شدت، اس مسئلے کو ایک ایسے موڑ پر لے آئی ہے جہاں فیصلہ کن اقدامات کی ضرورت ہے۔ مصر کے شہر شرم الشیخ میں ہونے والے مذاکرات بظاہر ایک نیا دروازہ کھولنے جا رہے ہیں، لیکن یہ دروازہ امن کی طرف کھلے گا یا مزید تباہی کی طرف، اس کا انحصار تمام فریقین کی نیت، حکمت عملی اور عالمی برادری کی سنجیدگی پر ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ غزہ اس وقت دنیا کے بدترین انسانی بحرانوں میں سے ایک کا سامنا کر رہا ہے۔ لاکھوں فلسطینی جن میں بچے، عورتیں اور بزرگ شامل ہیں، مہینوں سے مسلسل بمباری، خوراک و ادویات کی قلت، بجلی کی بندش اور بے گھر ہونے جیسے مصائب جھیل رہے ہیں۔ اسپتال تباہ ہو چکے ہیں، تعلیمی ادارے کھنڈر بن چکے ہیں اور زندگی ایک مسلسل اذیت میں تبدیل ہو چکی ہے۔ ان حالات میں جب جنگ بندی کی بات کی جاتی ہے تو امید کی ایک ہلکی سی کرن نظر آتی ہے، لیکن ساتھ ہی خدشات اور اندیشے بھی سر اٹھاتے ہیں، کیونکہ یہ پہلی بار نہیں کہ فریقین مذاکرات کی میز پر بیٹھے ہیں اور نہ ہی یہ پہلا موقع ہے کہ عالمی طاقتیں ثالثی کے لیے میدان میں اتری ہیں۔ ماضی کی طرح اگر یہ کوششیں بھی مخصوص سیاسی مقاصد یا وقتی سکون کے حصول تک محدود رہیں، تو اس کا نتیجہ ایک بار پھر انھی بربادیوں کی صورت میں نکلے گا، جن کا خمیازہ ہمیشہ نہتے فلسطینیوں کو بھگتنا پڑتا ہے۔ مذاکرات میں شرکت کے لیے حماس اور اسرائیلی وفود مصر پہنچ چکے ہیں، جب کہ امریکا کی نمایندگی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے داماد جیرڈ کشنر اور خصوصی ایلچی اسٹیووٹکوف کر رہے ہیں۔ یہ پیش رفت بظاہر ایک مثبت اشارہ ہے کہ فریقین براہِ راست نہ سہی، لیکن بالواسطہ مذاکرات کے لیے آمادہ ہو چکے ہیں۔ یہ بات خوش آیند ہے کہ امریکی صدر نے خود بھی بیان دیا ہے کہ یرغمالیوں کی رہائی اور جنگ بندی کے لیے کوششیں فیصلہ کن مرحلے میں داخل ہو چکی ہیں، اور ان کے بقول ’’ زیادہ لچک کی ضرورت نہیں کیونکہ تمام فریقین بنیادی نکات پر متفق ہیں‘‘ لیکن دوسری جانب اسرائیلی فوجی قیادت کی طرف سے آنے والے سخت بیانات، بالخصوص آرمی چیف ایال زمیر کا مؤقف، اس امید کو کمزور کر دیتا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ’’ غزہ میں آپریشن ختم نہیں ہوا اور اگر سفارتی کوششیں ناکام ہوئیں تو دوبارہ لڑائی شروع ہو سکتی ہے‘‘ ایک واضح پیغام ہے کہ اسرائیل ہرگز کوئی کمزور مؤقف اختیار کرنے پر آمادہ نہیں۔ اسی تناظر میں، جنگ بندی کے لیے حماس کے ممکنہ اسلحہ سپرد کرنے سے متعلق مختلف خبروں نے بھی صورتحال کو مزید پیچیدہ بنا دیا ہے۔ عرب میڈیا کے مطابق حماس بین الاقوامی نگرانی میں غیر مسلح ہونے پر آمادہ ہو چکی ہے، لیکن ترک میڈیا کی رپورٹ اور حماس کے ترجمان کے بیانات اس دعوے کی سختی سے تردید کرتے ہیں۔ حماس کا کہنا ہے کہ ’’ ہم بین الاقوامی نگرانی میں غیر مسلح ہونے کے کسی نکتے پر غور نہیں کر رہے۔‘‘ یہ تردید نہ صرف حماس کی مزاحمتی پالیسی کی ترجمان ہے بلکہ یہ واضح کرتی ہے کہ وہ اپنے دفاعی حق سے پیچھے ہٹنے پر تیار نہیں۔ اس بات کا اندازہ اس سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ ماضی میں جب بھی حماس یا دیگر مزاحمتی تنظیموں نے ہتھیار چھوڑنے یا غیر مسلح ہونے کی بات کی، تو اس کے نتیجے میں اسرائیلی جارحیت میں کمی کے بجائے اضافہ ہی ہوا۔ لہٰذا اس بار بھی اگر ان سے غیر مشروط ہتھیار ڈالنے کا مطالبہ کیا جائے تو یہ ان کے لیے ایک خودکشی کے مترادف ہوگا۔ موجودہ مذاکرات میں صدر ٹرمپ کا 20 نکاتی امن منصوبہ بنیادی محور ہے۔ اس منصوبے کے چند نکات پر حماس کی رضامندی سامنے آ چکی ہے، لیکن سب سے اہم نکتہ جس پر اختلاف برقرار ہے وہ غزہ کا انتظام ہے۔ حماس چاہتی ہے کہ غزہ کا انتظام ایک عبوری ٹیکنو کریٹ حکومت کے سپرد کیا جائے، جو غیر جانبدار فلسطینی ماہرین پر مشتمل ہو، تاکہ نہ صرف غزہ کی تعمیرِ نو ممکن ہو بلکہ فلسطینی دھڑوں کے درمیان مصالحت کی راہ بھی ہموار ہو۔ دوسری جانب اسرائیل اور امریکا اس امر پر مصر ہیں کہ غزہ کی حکمرانی حماس کے ہاتھ میں نہ رہے، کیونکہ ان کے نزدیک حماس ایک ’’ دہشت گرد تنظیم‘‘ ہے۔ یہاں پر اصل سوال یہی ہے کہ اگر غزہ سے حماس کو نکال کر کسی ایسی قوت کو مسلط کیا گیا جسے عوامی حمایت حاصل نہیں، تو کیا وہاں پائیدار امن قائم ہو پائے گا؟ تاریخ گواہ ہے کہ باہر سے مسلط کردہ حکومتیں نہ صرف ناکام ہوتی ہیں بلکہ وہ انتشار اور بدامنی کو مزید بڑھاوا دیتی ہیں۔مسئلہ فلسطین کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ ہم صرف حالیہ واقعات پر ہی نگاہ نہ رکھیں بلکہ اس کے تاریخی پس منظر کو بھی ذہن میں رکھیں۔ 1948میں اسرائیل کے قیام کے بعد سے اب تک فلسطینی عوام مسلسل ظلم، جبر اور بے دخلی کا شکار ہیں۔ لاکھوں فلسطینی پناہ گزینوں کی زندگی گزار رہے ہیں، جنھیں اپنے وطن واپس لوٹنے کا حق نہیں دیا جا رہا۔ اقوام متحدہ کی قراردادیں، بین الاقوامی قوانین اور عالمی ضمیر با رہا فلسطینیوں کے حق خود ارادیت کو تسلیم کر چکے ہیں، لیکن عملی طور پر ان پر عمل درآمد ہوتا نظر نہیں آتا۔ غزہ کی موجودہ صورتحال اسی تاریخی ظلم و زیادتی کا تسلسل ہے۔ ایک اور اہم پہلو جو موجودہ مذاکرات سے جڑا ہوا ہے، وہ بین الاقوامی برادری کی ساکھ اور نیت ہے، اگر عالمی طاقتیں واقعی سنجیدہ ہیں تو انھیں سب سے پہلے فلسطینیوں کے بنیادی حقوق کو تسلیم کرنا ہوگا۔ صرف جنگ بندی یا وقتی سکون سے بات نہیں بنے گی۔ جب تک فلسطینیوں کو آزادی، خودمختاری اور ایک آزاد ریاست کا حق نہیں دیا جاتا، تب تک کوئی بھی معاہدہ دیرپا ثابت نہیں ہو سکتا۔ اسرائیل کو بھی یہ سمجھنا ہوگا کہ طاقت کے زور پر امن قائم نہیں کیا جا سکتا۔ اگر وہ غزہ سے اپنی افواج نکالنے، ناکہ بندی ختم کرنے اور فلسطینیوں کو باعزت زندگی کا حق دینے پر آمادہ نہیں ہوتا، تو حماس یا کسی بھی مزاحمتی تنظیم کے ساتھ معاہدہ محض کاغذی ہوگا۔ یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ حالیہ برسوں میں مسئلہ فلسطین عالمی ایجنڈے سے تقریباً غائب ہوتا جا رہا ہے۔ مشرقِ وسطیٰ میں دیگر تنازعات، عرب دنیا کی داخلی تقسیم اور اسرائیل کے ساتھ کئی مسلم ممالک کے سفارتی تعلقات نے فلسطینیوں کو تنہا کر دیا ہے۔ ایسے میں اگر حماس یا دیگر تنظیمیں جنگ بندی پر آمادہ ہوتی بھی ہیں تو انھیں تحفظات کا سامنا ہے کہ کیا واقعی عالمی برادری ان کی فلاح و بہبود کے لیے مخلص ہے یا صرف اسرائیل کو وقتی فائدہ پہنچانے کے لیے یہ سب کچھ ہو رہا ہے؟ ان سوالات کا جواب اگر نہیں دیا گیا تو نہ صرف مذاکرات ناکام ہوں گے بلکہ خطے میں ایک بار پھر آگ بھڑک اٹھے گی۔ اب ضرورت اس امر کی ہے کہ عالمی برادری، بالخصوص اقوام متحدہ، او آئی سی، اور یورپی یونین اس مسئلے میں سنجیدگی کا مظاہرہ کریں۔ انسانی حقوق کی تنظیموں کو بھی صرف بیانات تک محدود رہنے کے بجائے عملی اقدامات کرنا ہوں گے۔ غزہ میں فوری طور پر امدادی سامان، طبی سہولیات، اور تعمیر نو کے کام کا آغاز ہونا چاہیے۔ جنگ بندی اگر کامیاب ہو جاتی ہے تو اسے صرف ایک معاہدہ نہیں بلکہ ایک موقع سمجھ کر غزہ کو دوبارہ زندگی کی طرف لانا ہوگا۔ فلسطینی نوجوانوں کو تعلیم، روزگار اور امن کا ماحول دیا جائے تاکہ وہ اس بند گلی سے نکل سکیں جس میں انھیں زبردستی دھکیلا گیا ہے۔ آخر میں یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ غزہ کا مسئلہ صرف فلسطین یا اسرائیل کا نہیں، بلکہ یہ پوری انسانیت کا امتحان ہے۔ آج اگر ہم اس ظلم کے خلاف کھڑے نہ ہوئے، اگر ہم نے انسانی جانوں کو صرف اعداد و شمار سمجھ کر نظر انداز کیا، تو کل یہی آگ دنیا کے کسی اور کونے میں بھڑک سکتی ہے۔ لہٰذا یہ وقت ہے کہ ہم خاموش تماشائی بننے کے بجائے انسانیت کی آواز بنیں اور ان لاکھوں فلسطینیوں کے ساتھ کھڑے ہوں جن کا واحد جرم صرف اتنا ہے کہ وہ اپنے وطن میں آزادی، عزت اور سلامتی کے ساتھ جینا چاہتے ہیں۔

اگر آپ اس خبر کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں۔

مزید تفصیل