Loading
اقوامِ متحدہ میں پاکستان کے مستقل مشن کی کاؤنسلر صائمہ سلیم نے اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل میں "خواتین، امن اور سلامتی" کے موضوع پر منعقدہ کھلے مباحثے سے خطاب کرتے ہوئے عالمی برادری کی توجہ کشمیری اور فلسطینی خواتین کی حالتِ زار کی طرف مبذول کروائی۔ یہ موقع قرارداد 1325 کی منظوری کے 25 سال مکمل ہونے کی مناسبت سے منعقد کیا گیا تھا وہ قرارداد جو تنازعات کے حل اور امن کے قیام میں خواتین کے مؤثر کردار کو تسلیم کرتی ہے۔ صائمہ سلیم نے کہا کہ امن کے قیام، مذاکرات اور ثالثی عمل میں خواتین کی شمولیت نہ صرف اخلاقی ضرورت ہے بلکہ تحقیقی اعداد و شمار سے ثابت ہے کہ خواتین کی شرکت والے امن معاہدے زیادہ دیرپا اور مؤثر ثابت ہوتے ہیں۔ انہوں نے اقوامِ متحدہ پر زور دیا کہ وہ تمام ثالثی شدہ عملوں میں خواتین کی شرکت کے لیے لازمی حد مقرر کرے تاکہ خواتین کی آوازیں عالمی پالیسی سازی میں پوری طرح شامل ہو سکیں۔ کاؤنسلر صائمہ سلیم نے عالمی برادری سے مطالبہ کیا کہ بین الاقوامی قانون کے تحت خواتین کو تحفظ فراہم کیا جائے، جنسی تشدد کو بطورِ جنگی ہتھیار استعمال کرنے والوں کا احتساب یقینی بنایا جائے، اور بحرانوں سے نبرد آزما خواتین کی تنظیموں کو پائیدار مالی معاونت دی جائے۔ ان کے بقول یہ خواتین اکثر سب سے پہلے مدد کو پہنچتی ہیں اور سب سے آخر میں واپس جاتی ہیں۔ صائمہ سلیم نے اپنے خطاب میں افسوس کا اظہار کیا کہ سیکرٹری جنرل کی حالیہ رپورٹ میں بھارت کے زیرِ قبضہ جموں و کشمیر (IIOJK) کی خواتین کی حالتِ زار کا ذکر موجود نہیں، حالانکہ دہائیوں سے جاری بھارتی مظالم، جنسی تشدد اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں عالمی تنظیموں کی دستاویزات میں بارہا رپورٹ ہو چکی ہیں۔ انہوں نے زور دیا کہ خواتین امن اور سلامتی کے ایجنڈے سے کشمیری خواتین کو خارج کرنا اس کی ساکھ کو ختم کرنے کے مترادف ہے اور اس کی آفاقیت کو نقصان پہنچاتا ہے۔ اسی طرح فلسطینی خواتین کی حالت کو انہوں نے ہمارے دور کا سب سے المناک سانحہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ صرف غزہ میں گزشتہ سال جنگ کے دوران مارے گئے ہر 10 افراد میں سے 7 خواتین تھیں۔ حاملہ خواتین نے گولیوں کی بوچھاڑ اور بمباری کے دوران طبی سہولیات کے بغیر بچوں کو جنم دیا۔ ان واقعات کو انہوں نے دانستہ جرائم قرار دیا اور انصاف کے تقاضے پورے کرنے کا مطالبہ کیا۔ کاؤنسلر نے خبردار کیا کہ گزشتہ دو سالوں میں تنازعات سے جُڑے جنسی تشدد میں 90 فیصد اور خواتین و بچوں کی ہلاکتوں میں چار گنا اضافہ ہوا ہے، جو اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ پیش رفت رک چکی ہے، اور خواتین بدستور تشدد کا پہلا نشانہ اور امن مذاکرات میں آخری آواز بنی ہوئی ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ پاکستان نے نہ صرف خواتین، امن اور سلامتی ایجنڈے کی ہمیشہ حمایت کی ہے بلکہ پاکستانی خواتین امن کاروں (Peacekeepers) نے دنیا کے کئی بحران زدہ علاقوں خصوصاً افریقی ممالک میں بہادری، ہمدردی اور پیشہ ورانہ مہارت کے ساتھ خدمات سرانجام دی ہیں۔ صائمہ سلیم نے اپنے خطاب کے اختتام پر کہا کہ امن کا راستہ خواتین اور مردوں دونوں کے باہمی کردار سے تعمیر ہونا چاہیے۔ وقت آ گیا ہے کہ ہم وعدوں کو محض بیانات تک محدود رکھنے کے بجائے، ان پر عمل درآمد کو یقینی بنائیں۔
اگر آپ اس خبر کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں۔
مزید تفصیل