Monday, October 06, 2025
 

ہمارے ادیب اور شاعر مفلسی کا شکار کیوں؟

 



کیا زندگی جذبات اور احساسات کے بغیر بھی گزاری جا سکتی ہے، اس کا جواب ہے کہ حقیقتاً گزاری جا سکتی ہے لیکن یہ زندگی انسانی زندگی نہیں ہوگی بلکہ یہ زندگی حیوانی سطح کی ہوگی۔ شعر و ادب میں ہماری روح میں موجود جذبات اور احساسات کو بیدار کرنے کی غیر معمولی صلاحیت ہوتی ہے۔ ادب کے ذریعے ہم زندگی کا شعور حاصل کرتے ہیں اس لیے شعر و ادب کے شعبے کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ لیکن جب ہم اس اہم شعبہ زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد یعنی ادیب اور شاعر کی زندگی کا جائزہ لیتے ہیں تو ہم دیکھتے ہیں کہ زندگی کے دیگر شعبوں سے تعلق رکھنے والے افراد جن میں نااہل افراد بھی شامل ہیں، وہ روز بہ روز دولت مند بن جاتے ہیں لیکن ادب کے شعبے سے وابستہ بیشتر افراد عمومی طور پر مفلسی اور غربت کی تصویر بنے دکھائی دیتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ ایسا کیوں ہے؟ آئیے اس کا جائزہ لیتے ہیں۔ ادیب زندگی کے بارے میں خوبصورت نظریہ رکھتا ہے وہ فکر معاش یعنی روپیہ پیسہ اور دولت کے حصول کا سوچنے کے بجائے اسے اپنے خیالات اور تصورات سے پیار ہوتا ہے۔ وہ دنیا کو اپنے خوبصورت خیالات اور تصورات کے مطابق ڈھالنا چاہتا ہے۔ ظاہر ہے ایسا شخص معاشرے میں سپرفٹ رہتا ہے۔ تصوراتی اور عملی زندگی کا یہ فرق اسے ناکامی سے دوچار کر دیتا ہے۔ ہمارے معاشرے میں دولت کے حصول کو اولین حیثیت حاصل ہے، لوگ عمومی طور پر اس کے حصول کے لیے خودغرضی، جھوٹ، دھوکا دہی، فریب اور استحصال جیسی صفات کا سہارا لیتے ہیں۔ شاعر اور ادیب کیونکہ معاشرے کا سب سے زیادہ حساس طبقہ ہے اور زیادہ باشعور ہے وہ ان صفات سے عاری ہوتا ہے۔ اس کی یہ کمزوری اسے عملی میدان میں ناکامی سے دوچار کر دیتی ہے۔ ادیب اور شاعر کی زندگی دو حصوں میں تقسیم ہوتی ہے، ایک طرف معاشی معاملات ہوتے ہیں اور دوسری طرف ادب کے تقاضے اور مطالبات ہوتے ہیں، دونوں کے درمیان توازن رکھنا ایک پیچیدہ مسئلہ رہا ہے جب ادیب دنیا داری کا انتخاب کرتا ہے یعنی معاشی معاملات میں الجھتا ہے تو ادب کا دامن چھوٹ جاتا ہے، اس کی ادبی صلاحیتیں ضایع ہو جاتی ہیں جب وہ اپنے فطری مزاج کے تحت ادب کا دامن پکڑتا ہے تو دنیا داری میں ناکام ہو جاتا ہے۔ اس طرح غم جاں اور غم دوراں کی یہ کشمکش اسے ناکامی سے دوچار کر دیتی ہے۔ ایسے حالات میں ہمارے ادیب و شاعر معاشرے میں اپنی ناقدری کی شکایت کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ وہ یہ بات بھول جاتے ہیں کہ ہمارا معاشرہ زرپرست معاشرہ ہے جب تک معاشرے کا فکری ڈھانچہ تبدیل نہیں ہوگا کامیابی کے معیارات تبدیل نہیں ہوں گے اور جب تک روپے پیسے اور دولت کو عزت ملتی رہے گی یہی صورت حال رہے گی۔ شاعر و ادیب کی عزت و احترام اور خوشحالی اسی صورت میں ممکن ہے جب ہمارے یہاں ادب کو فروغ حاصل ہو۔ ہمارے ادب کے فروغ میں چند رکاوٹیں ہیں جن کا دور کرنا ضروری ہے۔ سب سے بڑی رکاوٹ ہمارے یہاں کتاب پڑھنے والوں کی شرح بہت کم ہے اور جو لوگ ادبی کتب پڑھتے ہیں ان کی تعداد اور بھی کم ہے۔ ادبی ذوق رکھنے والے کتابیں خریدنے کی استطاعت نہیں رکھتے تو ظاہر ہے کہ ایسے حالات میں ادب کو فروغ کیسے حاصل ہوگا۔ ادب کے فروغ میں دوسری بڑی رکاوٹ ہماری ادبی تحریروں کا موجودہ دور کے تقاضوں، ضرورتوں اور مسائل سے ہم آہنگ نہ ہونا ہے۔ ہمارے ادیب و شاعر معاشرتی تبدیلیوں کا اثر قبول نہیں کریں گے اور عوام الناس کے موضوعات کو ادب کا حصہ نہیں بنائیں گے تو ایسی صورت میں آج کا ادب کا قاری ادب پڑھنے کی ضرورت ہی محسوس نہیں کرے گا۔ ظاہر ہے کہ یہ بات ادب کے زوال کا سبب بنے گی۔ ادب کے فروغ میں ایک بڑی رکاوٹ ادیب اور شاعروں کا عوامی ذہنی سطح سے بلند ہو کر ادب کا تخلیق کیا جانا ہے۔ جب ادیب دانستہ یا غیر دانستہ ادب اور شاعری میں مشکل اور غیر مانوس الفاظ تحریر کرتا ہے تو وہ نہ صرف اپنی ادبی تحریر کو بوجھل کر دیتا ہے بلکہ وہ ایسا کرکے اپنے حلقہ ادب کو بھی محدود کر دیتا ہے۔ فن کا مقصد ابلاغ ہے اگر کوئی ادیب اور شاعر اس میں ناکام ہے تو اسے سمجھنا چاہیے کہ ایسی تحریریں قبرستان میں اذان دینے کے مترادف ہیں۔ ہمارے یہاں لوگ ایسے ادب کو ترجیح دیتے ہیں جن سے ان کے جذبات کو آسودگی حاصل ہو۔ اس حوالے سے ہمارے یہاں تفریحی ادب کو فروغ حاصل ہوا ہے۔ ایسے ادب سے فکر میں گہرائی اور سوچ میں بصیرت پیدا نہیں ہوتی ۔معاشرے میں تخلیقی ادب کے فروغ کی صورت حال مایوس کن ہے۔ اگر کہیں تخلیقی ادب تخلیق بھی کیا جاتا ہے تو مالی وسائل کی کمی کی وجہ سے اس کی اشاعت ممکن نہیں ہوتی۔ کتاب شایع ہو بھی جائے تو فروخت نہیں ہوتی۔ یورپ میں کوئی اچھی کتاب لکھ دے تو ادیب کی زندگی سنور جاتی ہے۔ ہمارے یہاں تو سال ہا سال گزر جانے کے بعد بھی کتاب کے دوسرے ایڈیشن کی نوبت ہی نہیں آتی۔ ہمارے مالی وسائل کی کمی ادب کے فروغ میں بڑی رکاوٹ ہے۔ تخلیق فن کے لیے آزادی فکر بنیادی شرط ہے۔ مصلحت کا شکار ادیب جب مصلحت کا شکار ہوتا ہے تو اس کا فن زنگ آلود ہو جاتا ہے۔ ہمارے بیش تر ادیب و شاعر سیاسی جماعتوں کے ترجمان بنے ہوئے ہیں اس طرز فکر نے ہمارے ادب کو نقصان پہنچایا ہے۔ ہر دور میں قدآور اور ناپختہ ادیب و شاعر موجود رہے ہیں۔ موجودہ دور میں زیادہ تر شاعر و ادیب شہرت کے طلب گار نظر آتے ہیں۔ ایسے ادیبوں کی ادبی تحریروں کا معیار بہت پست ہوتا ہے۔ اس لیے وہ جلد ہی وقت کے دھارے کے ساتھ بہہ کر گمنام ہو جاتے ہیں اس طرز عمل نے بھی ہمارے ادب کو نقصان پہنچایا ہے۔ ماضی میں ہمارا ادب نظریاتی بنیادوں مثلاً ادب برائے ادب، ادب برائے زندگی اور ادب برائے بندگی کی بنیادوں پر تقسیم تھا، ہر ایک نے معاشرے کو اپنی بہترین تخلیقات پیش کیں اور معاشرے کو متاثر کیا۔ موجودہ دور میں ہمارا ادب ’’ادب برائے مفاد پرست‘‘ بن گیا ہے جس کے سبب ادب زوال پذیر ہے۔ ادب ایسے تنگ نظر زاویہ حیات کی مذمت کرتا ہے جو نسلی اور صوبائی اور مسلکی تعصب کو فروغ دے۔ اس سے انسان اپنی عظمت سے محروم ہو جاتا ہے۔

اگر آپ اس خبر کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں۔

مزید تفصیل