Loading
جیسے ہی نو ستمبر کو امریکا کے قریب ترین اتحادی اسرائیل نے ایک اور قریب ترین امریکی اتحادی قطر پر حملہ کیا۔واشنگٹن میں قائم دائیں بازو کے اسرائیل نواز تھنک ٹینک امریکن انٹرپرائز انسٹی ٹیوٹ کے ایک سرکردہ محقق مائکل روبن نے خبردار کیا کہ ترکی اب اپنی فکر کرے اور اپنے تحفظ کے لیے ناٹو اور امریکا کے بھروسے نہ رہے۔ کل کلاں اسرائیل اور ترکی کا کھلا دنگل ہوتا ہے تو یہ اندازہ لگانے کی ضرورت نہیں کہ ناٹو کی تاسیسی دستاویز کا آرٹیکل پانچ ترکی کے کام آئے گا جس کے مطابق ایک رکن ملک پر حملہ پورے ناٹو پر حملہ تصور ہو گا۔مائکل روبن اکیلے نہیں ہیں۔سرکردہ اسرائیلی تجزیہ کار مائر مسری نے بھی ٹویٹ کیا کہ ’’ آج قطر کل ترکی ‘‘۔ترک صدر اردوان کے ایک سینیر مشیر نے مائر مسری پر ترنت جوابی وار کیا ’’ سگانِ اسرائیل جلد ہی نقشے سے مٹ جائیں گے اور دنیا سکھ کا سانس لے پائے گی ‘‘۔ ترکی اور ایران دو مسلمان ملک ہیں جنہیوں نے اسرائیل کے قیام کے ایک برس بعد ہی اسے تسلیم کر لیا تھا۔ایران نے تو خیر انیس سو اناسی میں تعلقات ختم کر لیے البتہ ترکی اور اسرائیل کے تجارتی و عسکری تعلقات میں متعدد بار اونچ نیچ ضرور آئی مگر کبھی منقطع نہیں ہوئے۔ اسرائیلی سیاحوں کی ایک بڑی تعداد جغرافیائی قربت اور سستائی کے سبب سات اکتوبر دو ہزار تئیس سے پہلے تک استنبول جانا پسند کرتی تھی۔مگر گزشتہ دو برس میں امریکا کے عسکری و سفارتی کندھے پر سوار ہو کر اسرائیل جس بے باکی سے خطے میں اپنے حریفوں کو توڑنے اور کمزور کرنے کے مشن پر ہے اس کے سبب ہر ہمسائے کے پر پھڑپھڑا رہے ہیں۔ حزب اللہ کو کونے میں دھکیلنے ، ایران پر بمباری ، شام کی کمر ٹوٹنے اور مقبوضہ مغربی کنارے پر یہودی بستیوں کی تعمیرات میں برق رفتاری اور غزہ کی نسل کشی کے باوجود بین الاقوامی اجتماعی احتساب سے بے خوف نیتن یاہو اینڈ کمپنی کو لامحالہ عظیم تر اسرائیل کے سنہری خواب بکثرت آنے باعثِ حیرت نہیں ۔ ایسے میں ترکی آس پڑوس میں واحد حریف ہے جو عسکری اعتبار سے اسرائیل کی ہم پلائی کے سبب اس کے عزائم کی راہ میں بھاری رکاوٹ بن سکتا ہے۔ویسے بھی بین الاقوامی سیاست میں مفادات کا نام ہی دوستی ہے۔مفادات کے ٹکراؤ میں پہلی ہلاکت ہی نام نہاد کاروباری مروت و سوچی سمجھی رواداری کی ہوتی ہے۔ ترکی کئی برس پہلے ہی بھانپ چکا تھا کہ آڑے وقت میں مغربی اتحادیوں کا ممکنہ رویہ کیا ہو گا۔لہٰذا خود انحصاری کی پالیسی کے تحت ترکی نے نہ صرف اپنے اقتصادی روابطی انڈے ایک کے بجائے الگ الگ ٹوکریوں میں رکھنے شروع کیے بلکہ دفاعی شعبے میں خودکفالت کو بھی ترجیح دی اور آج وہ اسرائیلی اسلحہ ساز صنعت کا لگ بھگ ہم پلہ ہو چکا ہے۔اس کی دفاعی برآمدات میں بھی خاطر خواہ اضافہ ہو رہا ہے۔ دو برس پہلے تک مصر اور ترکی کے درمیان مشرقی بحیرہ روم میں گیس کے ذخائر کو لے کر ، استنبول میں صحافی جمال خشوگی کے قتل کو لے کر سعودی حکومت سے اور متحدہ عرب امارات سے لیبیا کی خانہ جنگی اور قطر کی عرب ناکہ بندی کے سبب تعلقات خاصے کشیدہ تھے۔اس دوران عثمانی سلطنت کے تعلق سے تاریخی عرب ترک مخاصمت ابھارنے کی بھی کوششیں ہوئیں۔مگر اسرائیل کے تیور دیکھتے ہوئے اب سب علاقائی ممالک کے اختلافی کس بل سیدھے ہو رہے ہیں۔ مصر سے ترکی کے تعلقات نارمل ہو گئے ہیں۔اماراتی اور سعودی ترکی میں تعمیرات و دفاع اور خدمات کے شعبوں میں بھاری سرمایہ کاری میں دلچسپی لے رہے ہیں اور ایران پر اسرائیلی حملے کے بعد تہران کے رویے میں بدلاؤ بھی عرب و عجم کا روائیتی بخار کم کرنے میں مددگار ثابت ہو رہا ہے۔ چنانچہ اسرائیلی میڈیا کی توپوں کا رخ اب ترکی کی جانب ہے اور ترکی کو مشرقی بحیرہ روم میں اسرائیل کا سب سے بڑا حریف اور آگے چل کے سلامتی کے لیے سنگین خطرہ قرار دیا جا رہا ہے۔ وجہ یہ ہے کہ اسرائیل اردگرد کے ممالک میں قومیتی و علاقائی تعصبات کو ہوا دے کے شام اور لبنان کے حصے بخرے کرنے کا شدید خواھش مند ہے یا پھر ایسی فضا تیار کرنے کے درپے ہے کہ جس میں کرد ، علوی ، دروز اور سنی باہم برسرِ پیکار رہیں اور لبنان میں بھی یہی ماحول بنا رہے۔ اس کے برعکس ترکی اپنے اور اسرائیل کے مابین ایک مضبوط و متحد شامی ریاست بطور بفر دیکھنا چاہتا ہے اور کسی طور نہیں چاہتا کہ ایک کمزور شام اسرائیل کے حلقہِ اثر میں آ کر اسرائیل کو ترکی کی جنوبی سرحد تک پہنچا دے۔اسی خدشے کو محسوس کرتے ہوئے ترکی نے کرد علیحدگی پسندوں سے امن سمجھوتہ کر لیا ہے تاکہ شامی کردوں پر اسرائیل اور امریکا مزید ڈورے نہ ڈال سکیں۔ ترکی کا شام کے بارے میں خدشہ کوئی واہمہ نہیں ہے۔جولائی میں انقرہ میں متعین امریکی سفیر ٹام بیرک نے کھل کے کہا کہ اسرائیل ایک منقسم کٹا پھٹا شام دیکھنا چاہتا ہے۔کیونکہ طاقت ور عرب ریاستیں ہمیشہ سے ایک خطرہ ہیں۔اسی مشن کو آگے بڑھانے کے لیے گزشتہ برس آٹھ دسمبر کو بشار الاسد کے فرار کے بعد اسرائیل شام کی بری ، فضائی اور بحری سہولتیں تہس نہس کر چکا ہے۔ اسے قطعاً منظور نہیں کہ شام میں ترکی کو فوجی سہولتیں قائم کر کے قدم جمانے کا موقع مل جائے۔اسرائیل نے شام میں مستقل پیر جمانے کے لیے گولان سے متصل شامی صوبے الدرہ کا جزوی کنٹرول سنبھال لیا ہے اور یہ بھی اعلان کیا ہے کہ وہ اپنی سلامتی کے تحفظ کے لیے اس علاقے میں غیر معینہ مدت تک فوجی دستے رکھے گا۔ اسرائیل کی پوری کوشش ہے کہ شام میں نسلی و مذہبی آگ دوبارہ بھڑک اٹھے۔جب کہ ترکی شامی صدر احمد الشرع کی حکومت پر نسلی و فرقہ وارانہ بارودی سرنگوں سے بچنے کے لیے ایک متوازن وفاقی آئین کی جلد از جلد تشکیل پر مسلسل زور دے رہا ہے تاکہ شام کے نسلی گروہ دمشق کی مرکزی حکومت کو اپنے مفادات کا نگراں سمجھیں اور دشمن کے ورغلانے میں نہ آئیں۔یہی وجہ ہے کہ احمد الشرع کی حکومت نے فی الحال اسرائیلی حمائیت یافتہ دروز کمیونٹی سے ٹکراؤ کے بجائے پرامن بقائے باہمی کی پالیسی اپنائی ہے کیونکہ اسرائیل دمشق کی نوزائیدہ حکومت کو کمزور رکھنے کے لیے اس کی گردن پر مسلسل گرم گرم سانس چھوڑ رہا ہے۔ اسرائیل نے گزشتہ برس جنوبی لبنان میں جو علاقہ ہتھیایا ہے اسے بھی خالی کرنے کا کوئی ارادہ نہیں۔جب امریکا کو اطمینان ہو جائے گا کہ لبنان کی مرکزی حکومت حزب اللہ کو غیر مسلح کرنے میں کامیاب ہو گئی ہے تب اسرائیل یہ علاقے خالی کرے گا۔اس کا صاف صاف مطلب ہے کہ نہ نو من تیل ہو گا نہ رادھا ناچے گی۔ بھلے ترکی سمیت خطے کا کوئی بھی ملک کتنی بھی وقتی احتیاط و فراست سے کام لے لے مگر اسرائیل کا کوئی ارادہ نہیں کہ وہ دیگر ہمسائیوں کے اسٹرٹیجک مفادات کی ریڈ لائن کا احترام کرے۔ترکی کی ریڈ لائن شام اور قبرص ہے اور اسرائیل دونوں سرخ لکیروں پر بار بار پاؤں رکھ رہا ہے۔مگر قبرض کی ترک ریڈ لائن کیا ہے ؟ وہ اگلے مضمون میں دکھائی دے گی۔ (وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیے bbcurdu.com اورTweeter @WusatUllahKhan.پر کلک کیجیے)
اگر آپ اس خبر کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں۔
مزید تفصیل