Monday, October 06, 2025
 

حکومتی اخراجات گھٹیں گے تو ترقی ہوگی

 



وفاقی وزیر خزانہ نے کہا ہے کہ عوام ٹیکس بھریں گے تو ترقی ہوگی اور ملک کا آیندہ سال کا بجٹ مستحکم ہوگا۔ ملک میں معاشی استحکام آگیا، ٹیکس نیٹ بڑھانے پر کام کر رہے ہیں۔ کسی بھی ملک کی ترقی میں پرائیویٹ سیکٹر کا اہم کردار ہوتا ہے۔ پرائیویٹ سیکٹر کو آگے لے جانا ہے تو ٹیکسز اور دیگر معاملات کو دیکھنا ہوگا۔ حکومتی وزراء یہ بھی کہہ چکے ہیں کہ ریونیو شارٹ فال پورا کرنے کے لیے اضافی ٹیکس نہیں لگا رہے جب کہ اصل حقیقت یہ ہے کہ ایف بی آر میں عملہ کرپٹ اور کارکردگی ناقص بلکہ نہ ہونے کے برابر ہے ۔ ایف بی آر سے فاضل عملہ فارغ نہیں کیا گیا جو اب تک نہ صرف موجود ہے بلکہ اہداف پورے کرنے میں ناکام ہے۔ ایف بی آر اگر اپنے اہداف کی وصولی میں موثر اقدامات کرے تو ملک اپنے پاؤں پر کھڑا ہو سکتا ہے اور ایف بی آر ملکی معیشت کی بہتری میں مزید اہم کردار ادا کر سکتا ہے مگر اسے اپنے عملے کی کارکردگی پر کڑی نظر رکھنا ہوگی۔ کراچی بندرگاہ سے جو مال باہر بھیجا جاتا ہے اس پر جو حقیقی ڈیوٹی بنتی ہے وہ وصول نہیں کی جا رہی۔ اکتوبر کے آغاز میں ڈیوٹی کم عائد کیے جانے کا ایک کیس سامنے آ چکا ہے۔ ملک کی معیشت بری طرح متاثر ہو رہی ہے مگر حکومت کچھ نہیں کر رہی جس سے ایف بی آر قانونی ٹیکس وصول نہیں کر پا رہا۔ ہر حکومت اس کا ہر وزیر خزانہ اور موجودہ وزیر خزانہ کو بھی بڑے ٹیکس چور کبھی نظر نہیں آئے اور نہ ان پر ایف بی آر کا زور چلتا ہے اس لیے ہر بجٹ میں تنخواہ دار ملازمین پر ہی شکنجہ سخت کیا جاتا ہے کیونکہ ان کی آمدنی چھپی ہوئی نہیں جب کہ صنعتکار، تاجر اور غیر سرکاری لاکھوں روپے ماہانہ تنخواہ لینے والے محفوظ ہیں۔ ہمیشہ عوام کو ٹیکس نہ دینے کا ذمے دار قرار دیا جاتا ہے جب کہ کون سی ایسی چیز رہ گئی ہے جس پر سرکاری ڈیوٹیز لگی ہوئی نہ ہوں۔ ہر پیک چیز خواہ وہ خوراک ہو یا دوائیں یا روز مرہ استعمال ہونے والی اشیا، سب پر سرکاری ٹیکس وصول کیا جا رہا ہے۔ بجلی اور گیس پہلے ہی انتہائی مہنگی ہیں ان پر بھی سیلز ٹیکس عائد ہے۔ بجلی و گیس پر الیکٹریسٹی ڈیوٹی اور فکس چارجز لیے جا رہے ہیں۔ جولائی میں سوئی گیس فکس چارجز گھریلو استعمال پر چار سو سے بڑھا کر 600 روپے اور ایک ہزار کو بڑھا کر ڈیڑھ ہزار کر دیا گیا ہے جس سے حکومت کی آمدن اربوں روپے بڑھی ہے مگر حکومت کا رونا یہی رہ گیا ہے کہ عوام ٹیکس نہیں دیتے جب کہ عوام ہر چیز پر ٹیکس ضرورت سے بھی زیادہ دے رہے ہیں اور بڑے ٹیکس چرا اور بچا رہے ہیں جس کی ذمے دار خود حکومت ہے۔ حکومت کا سودی نظام عروج پر ہے اور سود کو حرام سمجھنے والے عوام اپنی بچت بینکوں کے غیر سودی اکاؤنٹ میں جمع کرا رہے ہیں جہاں منافع مقرر نہیں بلکہ کم ہے۔ اس غیر سودی اکاؤنٹس کو بھی حکومت نے نہیں بخشا جہاں ہر ماہ منافع کم ہو رہا ہے۔جب کہ سودی اکاؤنٹس میں نفع زیادہ ہے مگر سود سے بچنے کے لیے عوام کم منافع قبول کر رہے ہیں مگر حکومت سود نہ لینے والوں سے ہولڈنگ ٹیکس وصول کر رہی ہے۔ ایک بینک نے ایک لاکھ روپے پر ستمبر میں مضاربہ صرف 556.48 روپے دیا ہے جس پر 111.30 روپے ہولڈنگ ٹیکس کٹوانے والے اکاؤنٹس ہولڈر کو ایک لاکھ روپے پر شرعی منافع صرف 445.18 پیسے ملا ہے۔ جب کوئی شخص غیر شرعی سود نہیں لے رہا تو حکومت نے اس کو بھی نہیں بخشا اور اس سے بھی ایک سو گیارہ روپے ہولڈنگ ٹیکس وصول کر لیا تو اتنے کم منافع پر لوگ بینک میں اپنی بچت کیونکر جمع کریں گے کیونکہ حکومت کا تو پیٹ ہی بھرنے میں نہیں آ رہا اور وہ مزید ٹیکس مانگتی ہے۔ حکومت کی صرف عوام کو لوٹو یا تنخواہ داروں کو، بااثر افراد کو کچھ نہ کہو کی وجہ سے لوگوں نے اپنی بچت بینکوں میں رکھنا کم کر دیا ہے اور کاروبار اب زیادہ تر نقد کی صورت میں ہو رہا ہے۔ حکومت عوام کو ٹیکس وصولی میں دونوں ہاتھوں سے نچوڑ کر جو خزانہ بھر رہی ہے اس کا عوام کو کوئی ریلیف نہیں دیا جا رہا بلکہ ٹیکس کی اضافی آمدنی ارکان اسمبلی، وزیروں، ججوں اور اپنوں کو نواز رہی ہے اور حکمرانوں نے غیر ملکی دوروں کا ضرور ریکارڈ قائم کر دکھایا ہے مگر وفاقی حکومت ہو یا صوبائی کوئی اپنے اخراجات کم نہیں کر رہی اور غیر ملکی اور ملکی اداروں سے اتنی بڑی تعداد میں قرضے لیے گئے ہیں کہ عوام کی آنے والی نسلیں بھی ان قرضوں کے بوجھ تلے ڈوبی رہیں گی۔ ملک میں مہنگائی میں 0.56 فی صد سالانہ بنیاد پر اضافے سے 4.07 پر آگئی ہے اور وزیر خزانہ کا کہنا ہے کہ ملک میں معاشی استحکام آگیا ہے تو اس معاشی استحکام کا عوام کو کوئی فائدہ پہنچا نہ مہنگائی کم ہوئی۔ جب تک حکومت اپنے اخراجات میں کمی نہیں کرے گی تو ملک میں ترقی ہوگی نہ عوام کی مالی حالت بہتر ہوگی۔

اگر آپ اس خبر کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں۔

مزید تفصیل