Loading
معاشرہ اجتماعی طور پر مختلف سیاسی دھڑے بندیوں میں تقسیم کردیا گیا ہے ۔یہ تقسیم محض سیاسی نہیں بلکہ تمام اداروں اور رائے عامہ تشکیل دینے والے افراد یا اداروں کی سطح پر بھی موجود ہے ۔یہ ہی وجہ ہے کہ ہم اس تقسیم کے نتیجے میں اپنے اصل اہداف سے بہت دور چلے گئے ہیں۔ اس تقیسم نے ہمیں کئی حوالوں سے تنہا کردیا ہے ۔ محاذآرئی ، تناؤ، ٹکراؤ تواتر کے ساتھ ہمیں ہر سطح پر دیکھنے کو مل رہا ہے ۔اب اس بحران کو ریاستی بحران کے فریم ورک سے دیکھنے کی ضرورت ہے ۔کیونکہ ہم نے عملی طور پر ریاستی مفاد کو قربان کرکے آگے بڑھنے کا فیصلہ کرلیا ہے تو اس کے نتیجے میں ریاستی یا حکومتی نظام کا کمزورہونا یقینی ہوجاتا ہے لیکن اس کے باوجود ہم اپنی اصلاح کے لیے تیار نہیں اور وجہ صاف ہے کہ ہمارے تمام متمول طبقات اپنے اپنے مفادات کے تابع ہوگئے ہیں ۔ اس معاشرتی تقسیم کے تانے بانے ہمیں ریاستی نظام سے بھی جڑے نظرآتے تھے ۔آج کی قومی ستر کی دہائی کی سیاست کے گرد گھومتی نظر آتی ہے ۔ایک طرف پی ٹی آئی اور اس کی حامی جماعتیں مثلاً سنی اتحاد کونسل، اتحاد بین المسلمین، محمود اچکزئی کی پختونخوا ملی پارٹی ، جماعت اسلامی، فنکشنل لیگ اور چند بلوچ قوم پرست تنظمیں شامل ہیں جب کہ دوسری طرف وہ سیاسی جماعتیں ہیں جو حکومت کا حصہ ہیں۔ جن میں مسلم لیگ ن ، پیپلز پارٹی ، مسلم لیگ ق ، ایم کیو ایم پاکستان اور اے این پی شامل ہیں جب کہ مولانا فضل الرحمن کی جے یو آئی موقع کی مناسبت سے ادھر ادھر کی سیاست کررہی ہے۔ یوں دونوں جانب سیاسی جماعتوں کا ایک بڑا اتحاد موجود ہے ۔ اداروں میں بھی اسی طرح کی تقسیم ہے۔ اس نے ملک کی سیاسی تقسیم کو بہت زیادہ گہرا کردیا ہے ۔ یہ ہی وجہ ہے کہ قومی سیاست غیریقینی کے گرد گھوم رہی ہے۔ بانی پی ٹی آئی کی اصل طاقت خوشحال خاندانون کا نوجوان طبقہ ، خواتین اور ڈیجیٹل میڈیا یوزر ہے۔ ہم نے ڈیجیٹل میڈیا پر مختلف نوعیت کی کمپینز دیکھی ہیں۔ اسی لیے حکومت ڈیجٹل اور سوشل میڈیا سے تنگ ہے اور اس کو ریگولیٹ کرنے کے لیے مختلف قوانین بنارہی ہے۔ ہم مجموعی طور پر اپنے داخلی معاملات میں کہیں الجھ کر رہ گئے ہیں ۔اس الجھنے کی وجہ سے حکمرانی اور گورننس کے معاملات اور زیادہ پیچیدہ ہوگئے ہیں ۔اسی طرح ہماری جمہوریت بھی کمزور ہورہی ہے ۔لوگوں کا سیاست سے وابستہ ہونا اور کسی کی حمایت یا مخالفت کی سوچ ہی جمہوریت کی اصل طاقت ہے ۔لیکن اگر سیاست میں اختلافات یا تنقید کی جگہ سیاسی دشمنی کو بالادستی حاصل ہوجائے تونتیجہ نفرت کی سیاست کی صورت میں ہی دیکھنے کو ملے گا۔ سیاست اور جمہوریت کا عمل لوگوں کو جمہور ی عمل میں جوڑنے کا سبب بنتا ہے اور ان کااصل چیلنج سیاسی مخالفین کا خاتمہ نہیں بلکہ ریاستی و حکومتی سطح پر موجود بڑے بڑے مسائل یا چیلنجز سے نمٹ کر نظام کو منصفانہ اور شفافیت کی طرف لانا ہوتا ہے۔ لیکن ہم مجموعی طور پر تقسیم کی سیاست کررہے ہیں اور اس تقسیم کو بڑ ا خطرہ سمجھنے کے بجائے اسے ایک بڑے سیاسی ہتھیار کے طور پر استعمال کرکے مخالفین پر سیاسی برتری کو ترجیح دی جارہی ہے ۔کچھ لوگ یہ منطق دیتے ہیں کہ معاشرے میں سیاسی تقسیم یا سیاسی نفرت کا بیج عمران خان نے بویا ہے ۔حالانکہ یہ تقسیم ماضی میں بھی بڑی شدت اور نفرت کے ساتھ موجود تھی۔ فرق صرف اتنا تھا کہ ماضی میں نہ تو نجی میڈیا تھا اور نہ ہی ڈیجیٹل میڈیا ۔اس وقت بھی اگر مجموعی طور پر اہل سیاست کا سیاسی بیانیہ دیکھیں تو اس میں وہی نفرت، تعصب اور بغض سمیت ایک دوسرے کی سیاسی حیثیت کو تسلیم نہ کرنے کی ضد موجود ہے ۔یہ ہی طرز فکر ماضی کا بھی تھا اور یہ ہی آج بھی مزید شدت کے ساتھ غالب ہے۔ حکومت اور ریاست جس طاقت کے انداز میں اپنے سیاسی مخالفین کا مقابلہ کررہی ہے یا اسے دیوار سے لگانے کی ضد موجود ہے اس کا نتیجہ قومی سیاست میں مزید سخت ردعمل کی صورت میں سامنے آرہا ہے ۔بحران ہے کہ حل دینے کے بجائے مزید بگاڑ میں دکھیل رہا ہے ۔کوئی بھی اس کھیل میں آئین و قانون کی پاسداری یا سیاسی و جمہوری اصولوں کو بنیاد بنانے کے لیے تیار نہیں جو ڈیڈ لاک کو نمایاں کرتا ہے ۔ سیاسی تقسیم سے نمٹنے کا ایک حل سیاست اور جمہوریت میںموجود ہوتا ہے یعنی ہم سیاسی مسائل کا حل سیاسی نظام میں ہی سیاسی و جمہوری بنیاد پر ہی تلاش کرکے آگے بڑھتے ہیں ۔اسی حکمت عملی میں سیاست اور جمہوریت سمیت ریاست کا مفاد بھی ہوتا ہے تاکہ ہم خود کوداخلی و خارجی محاذ پر ایک جمہوری معاشرے کے طور پر اپنی ساکھ کو قائم کرسکیں۔ لیکن جب جمہوریت کو بنیاد بنا کر سیاسی حکمت عملیوں سے انحراف کرکے ہم نے غیر سیاسی و جمہوری حکمت عملیوں یا طاقت کو بنیاد بنا کر آگے بڑھنا ہے تو یہ سیاسی تقسیم کو اور زیادہ گہرا کرے گا۔سیاسی تقسیم کی ایک اور بڑ ی وجہ خراب گورننس کا نظام اور لوگوںمیں موجود سیاسی بے چینی یا سیاسی گھٹن بھی ہے۔ جب لوگوں کے بنیاد ی حقوق جن میں ان کے سیاسی و جمہوری حقوق اور آزادی اظہار سے جڑے سوالات کو پزیرائی نہیں دی جائے گی تو ریاست و حکومت کا مقدمہ سماج میں مضبوط نہیں بلکہ اور زیادہ کمزور بھی ہوگا اور اس کا ردعمل بھی پیدا ہوگا۔سیاسی تقسیم کے خاتمہ کا ایک بڑا حل منصفانہ سیاسی وجمہوری نظام اورعوامی مفادات سے جڑا حکمرانی کانظام بھی ہے۔ یہ ہی حل یا اصول لوگوںکو ریاست اور حکومت کے نظام سے جوڑکر ان میں موجود تلخیوں یا خلیج کو کم کرتا ہے لیکن ہم بطور قوم اس اصول کو نظرانداز کرکے عوامی حکمرانی کے مقابلے میں گروہی مفادات کو مضبوط بنا کر متبادل آوازوںاور تنقید کو کچلنے کی کوشش کررہے ہیں۔اس سے قومی سیاست میں برداشت ، رواداری اور ایک دوسرے کو قبول نہ کرنے کی سوچ نے لوگوں کو نظام کے خلاف بھی کھڑا کردیا ہے۔ بنیادی طور پر ہمارا مجموعی نظام لوگوں کے مسائل کو نہ تو سمجھنے کے لیے تیار ہے اور نہ ہی اس کو اس کے حل میں کوئی دلچسپی ہے ۔یہ ہی وجہ ہے کہ ریاست ،حکومت اور عوام میں بڑھتی ہوئی بے چینی اور لاتعلقی کی سیاست نے ہم سب کو ہی ایک دوسرے کے مدمقابل کھڑا کردیا ہے ۔لوگوں کو لگتا ہے کہ یہ ایک طبقاتی جنگ ہے جہاں طاقت ور افراد اور اداروں نے کمزور لوگوں کے خلاف اپنا اتحاد بنایا ہوا ہے۔ اس لیے یہ جو معاشرے میں تیزی سے سیاسی تقسیم بڑھ رہی ہے اسے کسی ایک جماعت یا قیادت کے تناظر میں نہ دیکھا جائے بلکہ اسی ایک بڑے ریاستی فریم ورک میں دیکھا جائے۔کیونکہ جب بھی طاقت کی حکمرانی کو بنیاد بنا کرکمزور افراد کو محرومی سے جڑی سیاست اور معیشت کی طرف دکھیلا جائے گا سماج میں پہلے سے موجود تقسیم ختم نہیں بلکہ اور زیادہ بڑھے گی۔ ہماری حکمت عملی مجموعی طور پر سیاسی ،سماجی ،معاشی ،قانونی یا طبقاتی تقسیم کا خاتمہ نہیں بلکہ سیاسی مخالف کو ختم کرنا ہے ۔اسی غلطی کی بنیاد پر سیاسی تقسیم بڑھ رہی ہے جو ہمیں اور زیادہ تقسیم کی طرف دکھیلے گی۔
اگر آپ اس خبر کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں۔
مزید تفصیل